27 دسمبر، 2013

بلاسفیمی

کبھی سوچا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ :

کارٹون بنیں ڈنمارک میں ۔ ۔ اور آگ لگے پاکستان میں۔
فلم بنے ہالینڈ میں ۔ ۔ اور آگ لگے پاکستان میں۔
ناول انگلینڈ اور بنگلہ دیش میں ۔ ۔ اور آگ لگے پاکستان میں۔
ٹیری جونز امریکہ میں ۔ ۔ اور آگ لگے پاکستان میں۔

25 دسمبر، 2013

قائد اعظم کا لنکنز ان میں داخلہ

درسی ٹیسٹ پیپرز کے ذریعے رٹّے لگوایا گیا یہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا کہ جب قائد اعظم قانون کی تعلیم کے لیے لندن گئے تو انہوں نے بہت سے اداروں میں سے لنکنز ان کو اس لیے چُنا کیونکہ یہاں  نصب ایک کتبے پر  دنیا کے عظیم ترین قانون دانوں کی فہرست میں ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ کا نام سر فہرست تھا۔

22 دسمبر، 2013

لال مسجد کے لال ہونے کے اسباب

یونانی دیومالا کی جس کہانی /محاورے کو عموماً پڑھے لکھے اردو دان طبقے  میں سب سے آسانی سے جانا جاتا ہے۔ اس کا نام ہے  پنڈورا باکس۔
پنڈورا  نامی خاتون کو ایک جار دیا گیا ، جس پر لکھا تھا کہ اسے مت کھولنا۔ اس میں برائیاں بھری ہوئی ھیں۔تجسس کے ہاتھوں جار کُھل گیا، تو برائیاں تمام دنیا میں پھیل گئیں۔ پنڈورا باکس کا محاورہ ہر اس معاملے کے بارے میں  استعمال کیا جاتا ہے، جس کو چھیڑنے سے کئی دوسرے معاملات بھی خراب ہونے کا خدشہ ہو۔
لال مسجد کے واقعے کے بارے جب بھی سوچتا ہوں۔ صرف پنڈورا باکس کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔

15 دسمبر، 2013

شکوہ

کچھ لوگ  تمام زندگی اپنے حواس خمسہ کے ساتھ بہت عزّت و احترام  سے پیش آتے ہیں۔

9 دسمبر، 2013

فسادی سیب

گئے وقتوں کی بات ہے۔
ایک بادشاہ کو اپنی ملکہ سے بہت محبت تھی۔
زندگی سے بھی زیادہ!
پھر ایک دن اُس کے محل کے باہر ایک ننگ دھڑنگ سادھو آیا۔
دربانوں نے بادشاہ سے ملاقات کروانے سے انکار کیا   تو سادھو نے لنگوٹ سے تیز دھار خنجر نکال لیا۔

28 نومبر، 2013

ملالہ: اصل کہانی (ثبوتوں کے ساتھ)

ستمبر دو ہزار بارہ میں، پاکستان کی وادئ سوات سے تعلق رکھنے والی ایک پندرہ سالہ طالبہ کے بارے میں رپورٹ ملی کہ اسے ایک طالبان ایکٹوسٹ نے سر میں گولی مار دی ہے۔

اس حملے سے پوری دنیا میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، اور اس خبر کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں وسیح پیمانے پر کوریج دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹروں اور پھر برطانوی ڈاکٹر وں نے ملالہ کے چہرے اور سر کی کئی سرجریاں کیں اور بلآخر اسے بچالیا۔

آج ملالہ برطانیہ میں رہ رہی ہے اور مسلسل پاکستان میں اور خصوصاً اُن علاقوں میں عورتوں کی تعلیم کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہرا رہی ہے، جہاں سننے میں آیا ہے کہ انتہا پسند اور عسکری تنظیمیں لڑکیوں کے سکول تباہ کر رہی ہیں ۔

لیکن یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز داستان ہے جس کا تانا بانا مغربی میڈیا نے بنا ہے۔

اس سال اپریل میں ڈان اخبار نے واقعہ کی تحقیقات کرنے کے لئے اپنے سب سے تجربہ کار نامہ نگاروں کا ایک گروپ پانچ ماہ کے لئے سوات بھیجا جن کی تحقیق و تفتیش سے انکشافات کا ایک دل دہلا دینے والا سلسلہ سامنے آیا جو ملالہ کے بارے میں گھڑے گئے مغربی افسانے سے پردہ اٹھاتے ہوئے اصل حقائق بمعہ ثبوت سامنے لاتا ہے۔

7 نومبر، 2013

خاور نعیم ہاشمی کی یادیں

میں اگلے ہی دن مولانا مودودی کے پاس پہنچ گیا۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا۔ "مولانا، ایک آرٹسٹ ہیں عنایت حسین بھٹی، بہت اچھے اور مشہور گلوکار بھی ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں"۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔"رات کو لائیے گا" ۔۔۔"رات کو کیوں مولانا؟؟" ۔۔۔’’دن میں لائے تو لوگ کہیں گے کہ اب مولانا سے ملنے کنجر بھی آتے ہیں؟؟؟‘‘

6 نومبر، 2013

آگہی


موری ارج سُنو دست گیر پیر
مائی ری، کہوں کاسے میں
اپنے جیا کی پیر
نیّا باندھو رے،
باندھو رے کنارِ دریا
مورے مندر اب کیوں نہیں آئے

اس صورت سے
عرض سناتے
درد بتاتے
نیّا کھیتے
مِنّت کرتے
رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمھاری
جس سے دُکھ کا دارُو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تُمھیں تھے

وہ تو تُمھیں تھے

فیض احمد فیض۔ نذرِ خُسرو

29 اکتوبر، 2013

آئی ایم جاہل

میں جب بھی کسی خُشکے کی تجربہ کار ٹھگوں کے ہاتھوں جیب کٹتے اور دُرگت بنتے دیکھتا ہوں۔ بہت افسوس ہوتا ہے۔

23 اکتوبر، 2013

معصوم مُنڈے

اکثر لڑکوں کو سکول کالج کے دور میں لڑکیاں اپنی محبت کے جال میں پھنسا لیتی ہیں۔

24 ستمبر، 2013

کچھ گندی باتیں

کل عمران اقبال اور علی حسّان کے ساتھ ملاقات ھوئی۔

گپ شپ کے دوران عمران نے  ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا کہ بلاگر دنیا جہان کے موضوعات پر لکھتے ھیں، لیکن حال ہی میں ایک چار پانچ سالہ بچی سے ھونے والی جنسی زیادتی پر کسی نے بھی نہیں لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

22 ستمبر، 2013

بابے

پاکستان میں تخلیق کیا گیا نثری ادب اٹھا کر پڑھیں تو آپ کو چند بہت ہی نمایاں نام نظر آئیں گے۔

مشتاق یوسفی۔

مستنصر حسین تارڑ۔شفیق الرحمٰن۔

ابن انشاء۔انتظار حسین۔احمد ندیم قاسمی۔ 

وغیرہ وغیرہ۔

لیکن میری رائے میں  چار ادیب ایسے ہیں جنہوں نے  دھڑلے سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا ہے۔

ممتاز مفتی۔ بانو قدسیہ۔ اشفاق احمد۔ قدرت اللہ شہاب۔

8 ستمبر، 2013

مسلمان

مولانا مودودی کا قول ہے کہ مسلمان اسمِ صفت ہے۔


کوئی نام سے مسلمان نہیں ھوتا۔ مسلمان اصلاً کچھ اوصاف کو اپنانے کا نام ہے۔

28 جولائی، 2013

کچھ اقوال غیر زرّیں


آج فیس بک سے اپنا  ڈیٹا ڈاون لوڈ کیا تو دل میں آیا کہ ماضی کے چیٹ میسیجز کو ہی کنگھالا جائے۔

عموماً میں جب بھی اپنی کوئی بہت پرانی چیٹس پڑھتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ اُس وقت  یہ سب کچھ کس دماغی حالت میں  لکھا۔ بعض اوقات تو یقین ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ سب کچھ میں لکھ سکتا ہوں۔ اس لیے کافی لطف بھی آتا ہے، اور بعض اوقات افسوس بھی ھوتا ھے یہ پرانی باتیں پڑھ کر۔ سو ریکارڈ محفوظ کرنے کے لیے ایک دوست  کے ساتھ بات چیت  سے کچھ الٹا سیدھا شغل میلہ ذیل میں شئیر ھے کہ سند رہے، اور مستقبل میں سہانی یادوں کے کام آئے:-

20 جولائی، 2013

16 جولائی، 2013

افغانیوں کے پنجابیوں کے بارے خیالات

پوچھا: یہ پنجاب اور افغانستان میں کیا فرق ہے۔؟
بولے: وہی جو رنجیت سنگھ اور غازی امیر امان اللہ خان میں تھا۔ رنجیت سنگھ کی داڑھی تھی لیکن مسلمان نہیں تھا۔ امان اللہ کی داڑھی نہیں تھی، لیکن مسلمان تھا۔

15 جولائی، 2013

مایوس نہ ہوا کر یار۔۔!

میں یہاں جتنے بھی لوگوں سے ملا  ہوں ، اُن میں مستقبل کے بارے بے یقینی اورعجیب سا ڈر ھے۔ اور یہ بے یقینی ایک عجیب سی چھوت کی بیماری ھے۔ آپ کے آس پاس کسی کو ھو تو فوراً آپ کو بھی لگنا شروع ھو جاتی ھے۔

شائد یہ 2009 میں پھُوٹنے والے معاشی ببل کا اثر ہے۔ اُس سے پہلے ھر سرمایہ دار اتنی تیزی سے ترقی کر رہا تھا کہ مت پوچھیں۔

سرمائے کے نام پر پتہ نہیں کیوں، ایک عجیب سی مایوسی در آنے لگتی ھے جی کے اندر۔
شائد اس لیے کہ ھم اِن سب لوگوں کے برابر نہیں آ سکیں گے کبھی۔
اچھی بات یہ ھے کہ جیسے ہی اس طرح کی مایوسانہ سوچیں آنا شروع ھوتی ھیں، فوراً اندر سے آواز آنے لگتی ھے۔

8 جولائی، 2013

پھُدو

یار بات سُن۔
زندگی میں وہی لوگ خوش قسمت ہوتے ھیں جو موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ 
اور موقعے سے فائدہ  وہی اٹھا سکتا ہے جو پوری تیاری کے ساتھ چوکس ہو کر اُس کا انتظار کر رہا ھو۔

27 جون، 2013

تیغ د' ارمس

کیا حسیات دھوکہ دے سکتی ھیں؟
ایسا ھو سکتا ھے کہ آپ کسی ایسی چیز کو محسوس کریں جو حقیقتاً موجود نہ ھو؟

25 جون، 2013

چِٹّا

ایک بہت پرانا عقدہ حل ھو  گیا۔

میرے سکول میں دو جڑواں بھائی پڑھتے تھے۔  نام تھے شاہ محمد اور عطا محمد۔ جڑواں ھونے کے باوجود ان کے نین نقش ایک جیسے نہیں تھے، جو کہ اتنی اچھنبے کی بات نہیں۔ 
جڑواں بچے مختلف شکلوں کے ھو سکتے ھیں۔

15 جون، 2013

کندورہ

ونڈو شاپنگ کرتے کرتے ایک درزی کی دکان میں گھسا تو خیال آیا کہ میرا دفتری سوٹ چار سال کے تقریباً روزانہ استعمال کے بعد داغِ مفارقت دینے ہی والا ھے۔
درزی سے سوٹ کی سلائی کا ریٹ پوچھا تو کہنے لگا کہ وە صرف عربی کندورے ہی سیتا ہے۔
میں نے پوچھا۔ کوٹ پینٹ سیتے کیا ہوتا ہے؟
کہنے لگا۔ شرم آتی ھے۔ ارباب نے صرف کندورے سینے کا حکم دیا ھے۔ نمک حرامی نہیں کر سکتا۔
دوکان سے باہر نکلتے نکلتے درزی کی میز پر پڑے کپڑے پر نظر پڑی تو دل چاہا کہ چھو کر دیکھا جائے کہ کیا ہے۔
چھوا  تو  بے ساختہ منہ سے نکلا کہ استاد ۔ یہ کپڑا ھے کہ ملائی؟
بولا۔ پولیسٹر ہےسو فیصد۔ بغیر کسی ملاوٹ کے۔
میں نے حیرانی سے دیکھا تو کہنے لگا کہ کندوروں کے لیے عربی صرف پولیسٹر ہی پسند کرتے ھیں کہ اس پر سلوٹ نہیں پڑتی اور اوپر سے اس کا رنگ کاٹن کی نسبت زیادہ سفید اور دیرپا ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ ہم  نے تو سُن رکھا تھا کہ پولیسٹر  گرم ہوتا ہے اور گرمیوں میں نہیں پہنا جا سکتا۔
کہنے لگا۔ صاب،  یہ گرمی والی باتیں ہمارے لیے ہیں، اِن لوگوں نے کونسا گرمی میں پھرنا ھوتا ہے!!۔ ہمارے آپ کے ملک میں اس کپڑے کے پہننے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خالص پولیسٹر تو چھوڑیں٬ ہم کاٹن مکس کپڑا بھی پہننے کی جراٴت کر لیں تو چھ مہینے گرمی دانے جان نہ چھوڑیں۔
جب بھی عربوں کو دیکھتا اور ملتا تھا, کافی حیران ہوا کرتا تھا کہ ان کے گھر کام کرنے والے یا والیاں کتنی محنت سے کپڑے استری کرتے رہتے ھونگے کہ جب بھی دیکھو٬لباس پر ایک بھی بل نہیں۔ آج عقدہ کھلا کہ سب جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔


ٹیکنالوجی سے یاد آیا٬ یہ جو کولا مشروبات کی پلاسٹک پیٹ بوتلیں ھوتی ھیں٬ ان کی ریسائیکلنگ سے بھی پولیسٹر بنتا ہے۔


9 جون، 2013

عربی ویاہ

پاکستان میں اپنی یا اپنے بچوں کی شادی کرنا آسان نہیں۔
لڑکے اور لڑکی ، دونوں کے خاندانوں کو مختلف مدوں میں کافی روکڑے ڈھیلے کرنے پڑتے ہیں۔ حق مہر عموماً بہت ہی معمولی سی رقم ہوتی ہے، لیکن کھانے اور تحائف کی مد میں دونوں خاندانوں کا تقریباً بیڑا غرق ھو جاتا ہے۔

دبئی میں معاملہ ذرا مختلف ہے۔
ادھر شادی کا خرچہ لڑکے والوں کی کمر جھکا دیتا ہے۔ کیونکہ برصغیر کے برعکس یہاں لڑکی والے شادی کے کسی خرچے میں حصہ نہیں ڈالتے۔

27 مئی، 2013

جاہل اور سنکی کی ایک پوسٹ پر کمنٹ


وئیر ولف کا چاندنی راتوں میں انسان بنے رھنا مشکل ھوتا ھے۔سلائسنگ کا فن آتا ھو تو خربوزے کے ساتھ محض یاری دوستی مشکل کام
 ھے۔ اور حساس دل ھو تو جذبات سے عاری چہرہ رکھنا مشکل ھے۔

لیکن یہ کیفیت لانگ ٹرم نہیں کیونکہ نالج سیلف ڈسٹرکٹیو ھوتا ھے۔ عروج پر پہنچتے ہی زوال شروع ھو جاتا ھے ۔


19 مئی، 2013

بوسن روڈ


میٹرک کے داخلے جانے لگے تو ماسٹربشیر  صاحب نے کچھ اس ترتیب سے سب کے فارم بھیجے کہ دو ھوشیار حضرات کے درمیان ایک نالائق بندہ گھس گیا۔ بورڈ سے رول نمبر بھی اسی ترتیب سے آئے۔ ماسٹر جی نے سارے ھوشیاروں کو فرما بھی دیا کہ آپ لوگوں پر فرض  واجب ہے کہ آپ اپنا امتحان حل  کرنے کے ساتھ ساتھ یہ جو  بندہ الاٹ ھوا ہے،  اس کو بھی پاس کروائیں۔ میرے  اور عامر کے حصّے میں شاکی آیا۔

15 مئی، 2013

چند خیالات بنگالیوں کے بارے



آج ایک لوکل عرب کولیگ سے گپ شپ  ھو رہی تھی تو  کہنے لگا کہ بنگالیوں کا امیج عربوں کی نظر میں کافی خراب ھے کہ یہ پرلے درجے کے جھوٹے اور چکر باز سمجھے جاتے ھیں۔  یہ لوگ ھر وہ  کام کرنے کی حامی بھر لیتے ھیں۔ جس کاان کو دور دور تک علم نہیں ھوتا۔ 

اس سال کار کا ایکسیڈنٹ ھوا تو مجھے میرے تمام عرب کولیگز نے ایک ہی نصیحت کی کہ کسی بنگالی گیرج میں نہ گھس جانا  گاڑی کی مرمت کروانے۔ بیڑا غرق کر کے سوری سوری کرتے پھریں گے بنگالی۔

یہاں اکثر جرائم کی خبروں میں بھی بنگالیوں کا ذکر خیر لازمی موجود ھوتا ھے۔ (خاص طور پر خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے واقعات میں)۔ لیکن خیر سارے ایسے نہیں ہوتے۔

میں بعض اوقات حیرانی سے سوچتا ہوں کہ دبئی میں گزارے پچھلے چار پانچ  سال میں   مجھے ابھی تک کوئی خوشحال یا  مڈل کلاس بنگالی نظر نہیں آیا۔ جتنے بھی نظر آئے ، چھوٹی موٹے کام یا نوکری کرتے نظر آئے۔

29 اپریل، 2013

اختلاف اور برداشت


مفتی  محمد شفیع ؒ فرماتے تھے کہ
"انسانوں کی کسی مجلس میں اگر اختلاف نہ ہو تو اس کے دو ہی اسباب ہو سکتے ھیں۔ شرکاء اتنے غبی ھیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ھیں، یا پھر اتنے مفاد پرست ھیں کہ دانستہ اختلاف سے گریز کرتے ھیں۔"

امام شافعیؒ کا قول ہے کہ
" میں اپنی بات کو درست کہتا ہوں لیکن اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔ اسی طرح میں دوسروں کی بات کو غلط کہتا ہوں مگر اس میں صحت کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔"


16 اپریل، 2013

زلزلہ



آج خبر  ھے کہ بہت شدید زلزلہ آیا۔ شدت 
7.9  تھی۔


میں حسن کوسکول سے  لینے کے لیے گھر کے دروازے  سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ  ایک گورے پڑوسی  کو ننگے پاؤں کاریڈور میں بھاگتے دیکھا۔ پوچھا تو کہنے لگا کہ زلزلہ آرھا ھے۔ میں نے کہا کہ بلڈنگ کی کنسٹرکشن بڑی گھٹیا ھے۔ کسی نے دو فلور نیچے اپنا دروازہ ذرا زور سے بند کر دیا ہوگا، جس کی شاک ویو  کو جناب  زلزلہ سمجھ رہے ھیں۔ لیکن گورا    اپنے زلزلے والے بیان پر اڑا رہا۔ میں نے سوچا سالا  چریا ہو گیا ھے۔ آج صبح صبح ہی شراب چڑھا لی ھوگی۔ اسی لیے اس کو ساری دنیا ڈولتی نظر آ رہی ہوگی۔


واپس آ کر ٹی وی سے پتہ لگا کہ ایران پاکستان کے بارڈر پر زلزلہ آیا تھا، جس کی شاک ویو کافی دور دور تک محسوس کی گئی۔


2005 کا زلزلہ بھی اسی شدت کا تھا۔


غالباً رمضان کے دن تھے۔ میں ننگے فرش پر سویا ہوا تھا۔ اور ایک عجیب سا خواب دیکھ رہا تھا۔


ایک  بگولا  (ٹارنیڈو) بہت ہی تیزی سے عجیب سے انداز میں  گھومتا ہوا اور گڑگڑاہٹ بھری آواز نکالتا  میری  طرف آ رھا تھا۔  یہ آواز ایسی ہی تھی جیسی مسلسل آسمانی بجلی کڑک رہی ہو۔جب اس بگولے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کی چیخ نما کڑکڑاتی آواز اتنی شدید ہو گئی کہ مجھے لگا کہ میرے کان کا پردہ پھٹ جائے گا۔   خوف اتنا شدید تھا کہ میری آنکھ فوراً کھل گئی۔ پتہ لگا کہ زمین زور زور سے ہل رہی  ھے، اور میں زمین پر کان لگائے زلزلے کی آواز سُن رہا ہوں۔


مجھے عموماً  اپنی گزری ہوئی زندگی کے وہی  واقعات یاد رہتے ھیں، جن میں کوئی چیزاتنی  اچھوتی اور مختلف ہو، جس سے ذہن کی سلیٹ پر گہرا نشان جائے۔


یہ آواز اتنی عجیب اور اتنی شدید تھی کہ میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی۔


11 اپریل، 2013

کچھ اکثریت کے حقوق کے بارے


آپ استنبول کو لے لیں۔


یہ 1453 تک عیسائیوں کا گڑھ تھا۔ لیکن 1453 میں ترکوں کے قبضے میں جانے کے بعد اس شہر کی اہمیت اور بھی دو چند ھو گئی ۔ اگلے دو سو سال عثمانی سلطنت  ایشیا اور یورپ کی سب سے مضبوط طاقت رہی، سو استنبول  پورے یورپ  و ایشیا کی سب سے بڑی تجارتی و فوجی  بندرگاہ بن گیا۔
یہ اس زمانے میں یورپ کا سب سے امیر اور گنجان آباد شہر تھا۔ یہاں کی گلیوں میں آپ بہتر مختلف زبانیں سُن سکتے تھے۔ قبطی مبلغوں سے لے کر یہودی شیشہ گر، ایرانی ریشم کے تاجروں سے  لے کر برف پر ھزاروں میل چل کر پہنچنے والے سکینڈے نیوین  کرائے کے فوجیوں تک بھانت بھانت کے لوگ ملتے تھے۔ یہاں آرامک بولنے والے شامیوں ، لاطینی بولنے والے افریقیوں ، آرمینیا غرض ھر علاقے ھر زبان  کے لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا۔ یہ سب لوگ عثمانی سلطنت کے متاثر کن  پھیلاؤ میں کسی نہ کسی صورت حصہ دار تھے۔

10 اپریل، 2013

وزن کہانی - 1


لیں جی۔ بایاں گوڈا جواب دینے لگا ھے۔ اب وزن کم کرنا ہی پڑے گا۔
2001 سے میری اور وزن کی جنگ جاری ھے، جس میں عموماً وزن کی ہی جیت ہوئی ھے۔

9 اپریل، 2013

مد و جزر


بات ہو گی سال دو ہزار چار کے اگست کی۔


رات  کو سب باجماعت داتا صاحب گئے اور وہاں کی مسجد میں نوافل ادا کیے ۔باہر نکلنے کے بعد سب  نے چندہ ڈال کر دربار کے ساتھ والی دکانوں سے   چنے والے چاولوں کی دو  دیگیں خرید کرلنگر کے حوالے کیں۔
پیسے تو ایک دیگ کے اکٹھے ہوئے تھے، لیکن باورچی نے اصرار کے ساتھ ایک اور دیگ  آدھے  سے بھی کم پیسوں میں دے  دی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں دیگوں کے چاول ایک بڑی سی دیگ میں ملا دیے ۔تاکہ باسی یا تازہ چاولوں کا فرق محسوس نہ ہو سکے۔ اب چونکہ صدقے کا مال بندہ خود نہیں کھاتا سو ہم نے بھی اعتراض نہیں کیا کہ چل کوئی کھائے گا تو دعا ہی دے گا۔

7 اپریل، 2013

نسلی حکمران ہم پر مسلط کیوں؟



پیامی صاحب
  کے زبردست اور زور دار بلاگ  میں مختلف سپاس ناموں کو بنیاد بنا کر اس بات کا ماتم کیا گیا کہ اپنی قوم پر کیوں نسلی حاکم مسلط ھیں۔

چھ کلمے

نوائے وقت کے سر راہے کو پڑھتے ھوئے سلطان راہی والے لطیفے کا لطف آ گیا۔

فلم میں سلطان راہی سکھ سے مسلمان ھو کر پاکستان آیا، تو پولیس نے پکڑ لیا۔تھانے میں تھانیدار نے اسے چھ کلمے سنانے کو کہا تو سلطان راہی نے فر فر سنا دیے۔جس پر تھانیدار کہنے لگا کہ تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کسی مسلمان کو پورے چھ کلمے نہیں آتے۔

بات تو ٹھیک ھے۔ عموماً زیادہ تر لوگوں کو چار یا پانچ کلمے آتے ھیں۔

مجھے خود چار کلمے یاد تھے۔پانچواں اس چکر میں یاد ہوا کہ جس زمانے میں قرآن کا ترجمہ پڑھا تو تبھی کسی کتاب میں پانچویں کلمے کا ترجمہ دیکھا۔اتنی مکمل دعا دیکھ کرٹھٹک گیا۔

"میرے رب، میں معافی مانگتا ہوں اپنے تمام گناہوں کی ، جو  میں نے جان بوجھ کر کیے یا انجانے میں غلطی سے ہو گئے۔جو میں نے چھپ چھپا کر کیے یا سب کے سامنے۔اور( مستقبل کے لیے )  میں توبہ کرتا ہوں   تمام گناہوں سےجن کا مجھے پتا ھے  کہ گناہ ھیں اور ایسےجن کا   نہیں پتہ۔ بے شک تو غیب جاننے والا ، عیب چھپانے والا اور گناہ معاف کرنے والا ھے۔اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی حالت تبدیل کرنے والا اور طاقتور نہیں۔"

میں اس دن کے بعد سے نماز کے بعد دعا میں پانچواں کلمہ ہی دعا کے طور پر  پڑھ رھا ہوں۔

چھٹا کلمہ  مجھے ہمیشہ بھولتا ھے۔

اوپر والا آزاد  ترجمہ میری ٹوٹی پھوٹی عربی  سے ہوا ھے۔ لیکن اگر  عربی رج کر بھی  آتی ہو تو یقین کریں کہ اردو ترجمہ  کافی بے روح سالگتا  ھے۔ ویسے انگریزی میں بھی یہی کوالٹی ھے۔ دوسری زبان کی ترجمہ شدہ چیز میں "وہ بات " نہیں رہتی۔


آج کل الیکشن امیدواری کی درخواستیں جا رہی ھیں تو مجھے یقین ھے کہ امیدواران دھڑا دھڑ رٹًے لگا رھے ہوں گے چھ کلموں کو۔

کئی لوگوں کی جلًی حروف میں خبریں چھپی ھیں کہ لو جی ۔  ان سے فلاں کلمہ پوچھا گیا  اور ان کو یاد ہی نہیں تھا۔ کئی حضرات نے رٹرنگ آفیسرز کی منًت بھی کی کہ کلمے یاد کر کے آئے ھیں، اس لیے سُن لیں۔لوگ یقیناً محظوظ ہو رھے ہوں گے ان زبردستوں کی بیچارگی کے آگے، جن  کے لیے عوام اور ڈگریاں بھیڑ بکریوں کا درجہ رکھتی ھے (جب چاہا خرید لیا)۔


لیکن الیکشن کمیشن کے ان انٹرویوز نے میرے دماغ میں بہت عرصے سے موجود  ایک سوال کو پھر سے سامنے لا کھڑا کیا ھے۔

ان کلموں کو چھ کلموں کی موجودہ سٹینڈرڈ  شکل میں کب اور کس نے مرتب کیا؟   
ان کا ماخذ کیا ھے آخر؟


کچھ لوگ کہتے ھیں کہ یہ کلمات مکمل شکل میں قرآن و حدیث میں نہیں آئے، بلکہ بعد میں کسی نے اسلام کے عقائد کا خلاصہ چند عبارات میں کرنے کے لیے مختلف آیات و احادیث سے لے کر بنائے گئے ھیں۔

پہلا کلمہ  دو مختلف ٹکڑوں کی شکل میں قرآن میں ہے ۔ (لا الہ الااللہ – محمد رسول اللہ)

دوسرا کلمہ ایک ذرا سی مختلف شکل میں نماز میں التحیات میں پڑھا جاتا ھے۔

تیسرا کلمہ  تسبیح کے مفہوم کا  ھے۔تیسرے کلمے سے متعلق ایک دلچسپ بات ھے۔ آنحضرت ﷺ نے جو مختلف اذکار و تسبیحات بتائی ھیں۔ان کے عموماً تین حصے ہوتے ھیں۔ پہلے حصے میں اللہ کی سبحانیت کا ذکر۔دوسرے میں اللہ کی حمد۔اور تیسرے میں  اللہ کی کبریت۔ (سبحانیت کا اردو ترجمہ عموماً اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرنا کیا جاتا ھے۔یہ ایک صاحبہ نے سبحانیت کی تشریح کی ھے۔  مجھے پسند آئی۔ نہیں معلوم ٹھیک ھے کہ نہیں۔ لیکن تشریح زوردار بلکہ لچھے دار  ھے۔ سوچ رھا ھوں کہ  ان کا بلاگ اِن ایکٹو ھے اور نہ جانے کب غائب ہو جائے۔ اس لیے پوسٹ کا ترجمہ کر کے بلاگ پر سیو کرلوں۔ چند مثالوں پر  غور کریں۔

سبحان اللہ ۔ الحمد للہ۔ اللہ اکبر

سبحان اللہ۔ وبحمدہ۔ سبحان اللہ العظیم۔

سبحان اللہ ۔ والحمدللہ۔ ولا اللہ الا اللہ واللہ  اکبر۔ ولا حول ولا قوۃ ال باللہ العلی العظیم۔

سبحانک اللہم ۔ و بحمدک۔ و تبارک اسمک۔ و تعالی جدک۔ ولا اللہ غیرک۔

سبحان ربی ال اعلٰی اور سبحان ربی العظیم ۔  (ایک  کتاب میں پڑھا کہ شیعہ اس کے آخر میں "وبحمدہ" کا اضافہ کرتے ھیں )

یہ تین کا  پیٹرن تیسرے کلمے سمیت کافی اذکار و تسبیحوں میں نظر آتا ھے۔

چوتھا کلمہ پڑھتے ھوئے مجھے  ایک عجیب سی مسرت ہوتی ھے، جس کا کلمے سے کوئی تعلق نہیں نظر آیا مجھے۔ یہ کلمہ اللہ کی محتلف صفات کا خلاصہ بیان کرتا ھے۔ اللہ کے بارے کسی اجنبی  کو بتانا ہو تو چوتھے کلمے کا ترجمہ سنا دیں۔

پانچواں اور چھٹا کلمہ  دعائیں ھیں۔ جن میں  محتلف گناہوں سے بچنے کی دعا مانگی گئی ھے۔

چونکہ زیادہ تر لوگوں کو بچپن میں کلمے یاد کروائے جاتے ھیں، اس لیے عموماً چھٹے کلمے سے پہلے ہی بس ہو جاتی ھے۔ چھٹا کلمہ یاد کرنا پی ایچ ڈی کے برابر تھا۔


ذہن بھی پتہ نہیں کدھر سے کدھر نکل جاتا ھے۔ بات ہو  رہی تھی کہ کسی کو معلوم ھے یہ کیسے  اور کب   وجود میں آئے۔؟  
اور یہ الیکشن کمیشن والے اچھے مسلمان کی تعریف کا ٹیسٹ  چھ کلمے پوچھ کر کیوں لے رہے ہیں۔؟؟  
یہ باقی قوموں میں بھی ہیں یا بس بر صغیر والے ہی پڑھتے ھیں؟ ۔

28 مارچ، 2013

چھوٹا


2001 میں میری کمپنی نے ہمیں  ایک خفیہ مشن پرمیموریل کرسچن ہسپتال، سیالکوٹ  میں بھیجا۔ یہاں ہمیں تین چار ماہ تک  ہسپتال کے خرچے پر یہاں رھنا تھا۔ یہ میرا سیالکوٹ کا پہلا دورہ تھا اور عیسائی برادری کے ساتھ  زندگی کا پہلا ٹاکرا تھا۔

27 مارچ، 2013

گروپ بازی

عجیب سا مشاہدہ ہے، پتہ نہیں ٹھیک ھے کہ غلط ۔ ۔
پاکستان میں صرف اقلیتوں کے ہی جملہ حقوق محفوظ ھیں۔
اکثریت کو ادھر کوئی نہیں پوچھتا۔
اقلیتوں سے مراد صرف مذہبی اقلیتیں نہیں بلکہ ہر قسم کے وہ لوگ جن کی تعداد تھوڑی ہے۔

22 مارچ، 2013

1857 - بھائی چارہ


بقر عید آنے کو تھی۔

ماضی میں شاہی دربار نے ہمیشہ بھرپور کوشش کی تھی کہ شہر کے  مکین کسی حالت میں بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہ ھوں۔ لیکن جہادیوں نے جان بوجھ کر ہندوؤں کے جذبات کو مجروح کرنے کی ٹھانی۔

عموماً مسلمان بقر عید پربھیڑ یا بکری ذبح کرتے تھے۔ لیکن اس دفعہ:

"ٹانک سے آئے غازیوں نے فیصلہ کیا ھے کہ عید والے دن جامع مسجد کے سامنے کھلی جگہ پر گائے ذبح کی جائے گی۔وہ کہتے ہیں کہ اگر ھندوؤں نے روکنے کی کوشش کی تو ان کو مار ڈالیں گے۔ ھندوؤں سے نپٹنے کے بعد فرنگیوں سے نپٹا جائے گا۔ہم شہادت کے لیے آئے ھیں ، اور اس کے لیے ھندوؤں سے جہاد کریں یا فرنگیوں سے  - دونوں برابر ھیں۔"
(مولوی محمد باقر -  دہلی اردو اخبار)

تھوڑے دنوں بعد 19 جولائی کو، چند ہندو سپاہیوں نے پانچ مسلمان قصائیوں کو گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر مار ڈالا۔

19 مارچ، 2013

سرمایہ داری نظام - شروعات


سرمایہ دار اور امیر آدمی میں ایک بڑا باریک سا فرق ہوتا ھے۔

سرمایہ دار کے پاس اپنا پیسہ ھونا ضروری نہیں۔

6 مارچ، 2013

حمزہ کا سکول


شوئیفات سکول نے ھمارے ساتھ عجیب دھوکہ کیا۔

شوئیفات یہاں دبئی میں کافی اچھا سکول مانا جاتا ھے کہ یہ ھوم ورک بھی کلاس میں ہی کرواتے ھیں اور ھر مہینے بار بار ٹیسٹ لیتے ھیں۔ ان کے اکثر بچے اچھی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں کامیاب ھو جاتے ھیں۔ ۔ پچھلے سال اس کی برانچ نے ڈی آئی پی میں کام شروع کیا تو حسن کو اس میں داخل کروا دیا کہ پچھلے سکول نے فیسیں  میرے بجٹ سے زیادہ بڑھا دی تھیں۔  (ویسے پچھلا سکول بھی بہت اچھا تھا۔ حسن نے دوسرے سال یعنی کے جی ٹو میں انگریزی کتابیں خود سے پڑھنا شروع کر دی تھیں)۔ 

28 فروری، 2013

کام ھونے کی شرطیہ گارنٹی


پاک وطن کے لوگ اپنے  پیسے کسی کو ادھار دیتے اکثر یہ نہیں سوچتے کہ یہ واپس کیسے آئیں گے۔

ھم لوگ من حیث القوم جذبات کے دھارے میں بہتے رھتے ھیں۔ کوئی بھی چلتا پھرتا شخص سچی چھوٹی جذبات بھری کہانی سنا دے، ھم فوراً اپنا کلیجہ اور اپنے بچوں کے منہ کا نوالہ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے ھیں۔اور امید کرتے ھیں کہ جب ھم کو مال کی ضرورت ھوگی تو دوسرا آدمی بھی اسی بے وقوفی اور  جذباتی پن کا اظہار کرے گا۔  لوگوں میں رنجشوں اور خونی جھگڑوں کی بنیادی وجہ اندھے اعتقاد پر دوسروں کو پیسے دے دینا  ھے۔یہ تو خیر ایک عام چلتے پھرتے آدمی کی بات تھی کہ وہ کیسے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر اپنی باری آنے پر جذباتی ھونے سے انکار کر کے اپنا فون نمبر اور مکان بدل لیتا ھے۔

3 فروری، 2013

ادھار نہ دینے کا صحیح طریقہ


ایک سیانے  کے پاس ایک قریبی رشتہ دار آیا۔۔۔

رشتہ دار بولا کہ فلاں مقام پر زرعی زمین خریدنے لگا ھوں۔ سودا طے ھو گیا ھے۔ 60 لاکھ بینک میں ھیں۔ صرف  مزید 30 لاکھ ادھار  چاھیئں۔بڑی زبردست زمین ھے۔ کچھ عرصہ میں اُس زمین سےفصل آنے پر فوراً واپس ادا کردوں گا۔

سیانے نے پوچھا کہ زمین کس کے نام ھوگی۔ ؟

حضرت بولے کہ میرےنام، اور کس کے؟!!۔ 

اس پر سیانےنے جواب دیا کہ تو پھر مَیں تیری زمین کے لیے کیوں پیسے دوں؟؟۔ جتنے پیسے جیب میں ھیں، اتنے کی ہی زمین خریدلے۔ خوامخواہ خود کو اور دوسروں کو ادھار مانگ کر ٹینشن نہ دے۔۔۔۔۔!!!


21 جنوری، 2013

سٹاک مارکیٹ - فرسٹ بلڈ


پیسہ پیسے کو کھینچتا ھے۔  
پیسے میں مقناطیسیت ھے۔   
سٹاک مارکیٹ میں جسکے پاس بڑا مقناطیس ھوتا ھے، وہ  باقی لوگوں کے سارے چھوٹے  چھوٹے مقناطیسوں کو کھینچ کر لے جاتا ھے۔

17 جنوری، 2013

سُومنات


انیس سو ستر سے لے کر نوّے کے عشرے تک وہ دور تھا کہ ہرمتوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے  ماں باپ کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجنینئر بنانے کا شوق ہوتا تھا۔ پیدا ھوتے ہی خواب دیکھ لیےجاتے کہ ڈاکٹری کی طرف لے جانا ھے یا انجنینئرنگ کرانی ھے۔
اس معاشرتی رویے کی کچھ خاص وجوہات تھیں۔ 
ایک تو یہ کہ  ڈاکٹروں، انجینئروں اور مقابلے کے امتحان پاس کرنے والے جیالوں کو معاشرے میں قابل تحسین نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ ابھی ان کی عزت کرتے تھے (بلکہ نکّے ہُندیاں ہی عزّت شروع کر دیتے تھے)۔
خاندانوں کی سب سے خوبصورت لڑکیوں کے رشتے بھی یہی صاحبان گھیر کر لے جاتے تھے۔

5 جنوری، 2013

پُونڈی نامہ


سین نمبر ایک: سن دوھزار تین۔ موسٰی پاک ٹرین


شادا :  
چودھری! ٹرین آوے تو ایویں کسی بوگی میں نہیں چڑھنا۔۔۔میرے پیچھے پیچھے آتا رھیں۔ بوگی مَیں سلیکٹ کروں گا۔۔۔
آھاھاھا ، ھائے اوئے چودھری، قسمے سواد آگیا، اج تے ٹرین وچ بہت پُونڈی اے۔۔۔
کہا تھا ناکہ ایسی بوگی میں بٹھاؤں گا کہ جنت کی حوریں بھول جائے گا۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
خبردار جوکسی خالی سیٹ پر بیٹھا۔ بوگی کے درمیان میں کھڑے ھو کر جائیں گے۔ بیٹھنے سے پُونڈی کا اینگل خراب ھوتا ھے۔ ۔۔
آھاھا ھا! چودھری۔۔! وہ سبز چادر والا پیس چیک کر ۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
لوگ  گھور رھے ھیں تو گھورنے دے، یہ سارےخود پُونڈ ھیں، سڑنے دے ان بے غیرتوں  کو۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
استاد! چیک کر۔ بچّی لفٹ کروا  رہی ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
اگلے سٹیشن سے اور بھی رش بڑھے گا بوگی میں۔۔۔ خیال رکھیں کہ ھم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
چودھری، پینسل ھے؟ فون نمبر پکڑانا ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔ ۔۔۔
یہ ان  بے غیرت لڑکوں کو اور کوئی جگہ نہیں ملی ؟ادھر ھمارے ساتھ کھڑے ھو گئے کمینے ! ۔۔۔ 
یار  کُڑی ان کی وجہ سے اب اِدھر نہیں دیکھ رھی۔۔۔کمینے لوگ۔۔۔
او بھائی جان ، ذرا ھٹ کر اُدھر کھڑے ھوں، ھماری جگہ پر مت آئیں۔۔۔
کمینے لوگ، سارا کام خراب کر رھے ھیں۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
یار یہ کڑی تو اب ان کو لفٹ کروانے لگ گئی ھے۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
اوبھائی صاب، صاف صاف بتا رھا ھوں، یہ شوہدی حرکتیں یہاں نہیں چلیں گی۔ ۔۔۔
بندہ بن اوئے!! ماں بہن نہیں ھے تیرے گھر ؟۔ چڑھ جاتے ھو جینزیں کَس کے ٹرینوں پر۔ چلو دفعہ ھو جاو یہاں سے، ورنہ ٹانگیں توڑ دیں گے تمہاری، لڑکیاں تاڑتے ھیں بے غیرت لوگ!!۔۔۔
بالکل چاچا جی، ایہناں کمینے لوگاں دے نال ایہو ای کرنا چاھیدا اے، بے شرم لوگ، حیا نئیں آندی ایہناں نوں۔۔۔
۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔۔ھائے اوئے!! 
اوکاڑے سے چڑھنے والا پیس چیک کر چودھری !!!!۔
۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔


ــــــــــــــــــــــ

سین نمبر دو: سن دو ھزار سات۔ میونسپل سٹیڈیم


شادا:
خیر مبارک ۔۔۔۔بس یار ابھی صبح آیا ھوں لاھور سسرال سے ۔۔۔۔ 
میں اور میری بیگم اکیلے ھی آئے ھیں ٹرین میں ۔۔۔۔
کیا بتاؤں ،موڈ سخت خراب ھے یار۔۔
نہیں وہ والی بات نہیں  ۔۔۔
بس چودھری کیا بتاؤں۔لوگوں میں شرم حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی۔
ٹرین میں سارے بے غیرت شوہدے لوگ میری بیوی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئے۔۔۔
چودھری میرا دل کر رھا تھا کہ ان کی آنکھیں نکال دوں، بے غیرت بے شرم لوگ۔۔۔
میں نے تو بیوی کو کہ دیا ھے خبردار جو یہ فیشن ایبل بننے کی کوشش کی۔ بلکہ  آئندہ اگر منہ ڈھکے بغیر گھر سے باہر نکلی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔۔۔