22 دسمبر، 2013

لال مسجد کے لال ہونے کے اسباب

یونانی دیومالا کی جس کہانی /محاورے کو عموماً پڑھے لکھے اردو دان طبقے  میں سب سے آسانی سے جانا جاتا ہے۔ اس کا نام ہے  پنڈورا باکس۔
پنڈورا  نامی خاتون کو ایک جار دیا گیا ، جس پر لکھا تھا کہ اسے مت کھولنا۔ اس میں برائیاں بھری ہوئی ھیں۔تجسس کے ہاتھوں جار کُھل گیا، تو برائیاں تمام دنیا میں پھیل گئیں۔ پنڈورا باکس کا محاورہ ہر اس معاملے کے بارے میں  استعمال کیا جاتا ہے، جس کو چھیڑنے سے کئی دوسرے معاملات بھی خراب ہونے کا خدشہ ہو۔
لال مسجد کے واقعے کے بارے جب بھی سوچتا ہوں۔ صرف پنڈورا باکس کا لفظ ذہن میں آتا ہے۔

وجہ یہ کہ  اس واقعے سے پہلے پاکستان میں پرویزی خلافت کی وجہ سے نسبتاً امن، باہمی  رواداری  اور معاشی آسودگی  کا دور دورہ تھا۔ تمام پاکستانی بلا تخصیص شیعہ سُنی قادیانی ہندو عیسائی  ایک ہی دیگ سے کانی آنکھوں کے ساتھ پلاؤ میں سے بوٹیاں چن چن کر  کھا رہے تھے۔ شازیہ منظور اور نرما  کی زندگی میں بہت عرصے بعد تین وقت کے  کھانے کا بندوبست  ہوا تھا۔ علامہ اقبال کا نواسہ یوسف صلّی اپنے ماتھے پہ پڑی اپنے بالوں کی لٹ کو بار بار پھونک مار کر اڑانے کے بعد بسنت  کے موقع پر آب مقدس کے ساتھ چکن تکے نگلنے (اور اس عمل کے دوران کبھی کبھار پتنگ کی ڈور کو ٹچ کرنے ) کے فضائل پر وعظ دے دے کر پھاوا  ہوچکا تھا۔

اس ایک واقعے کے بعد ملک میں منتخب حکومتوں  کے خلاف  ایک عجیب  افراتفری اور بھگدڑ  کا آغاز ہوا، جو اب تک  کنٹرول نہیں ہو سکی۔ اس کیفیت کو غالباً عربی زبان میں حکومت کے خلاف  خروج کہتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ  اس واقعے کے آفٹر شاکس نے پاکستانی  معاشرے کے اکثر پاپی افراد کو  پاپ مولوی بنا دیا ، جو رشوت اور بے ایمانی  سے بڑھے اور بھرے  پیٹ  پر بار بار ہاتھ پھیر کر فرما رہے ہیں کہ فلانا فلانا اور خاص طور پر فلانا  کافر ہے۔ وہ  حضرات تکفیریوں کا پراپیگنڈا آب زم زم سمجھ کرسوشل میڈیا میں  شئیر کر رہے ہیں، جن کی ساری  زندگی کا مطلوب و مقصود ہی امریکہ و برطانیہ کا پاسپورٹ رہا  ہے۔ وہ لوگ  خواتین کو پردے کی تلقین کر رہے ھیں جن کی آنکھیں اور انگلیاں تمام عمر پرائی خواتین کے لمس سے  آلودہ  رہیں۔  مجھے انہی ننھی ننھی معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے لال مسجد کے واقعے کے اسباب جاننے  بارے کافی تجسس رہا ہے۔

 1979 کے روسی حملے کے بعد شائد لال مسجد ہی وہ واحد قابل ذکر واقعہ ہے جس کو پاکستان کی معاشرتی تاریخ کا اہم سنگ میل سمجھا جا سکتا ہے۔

اس بارے بہت سے باخبر حضرات  کا لکھا پڑھا۔ اکثر کا رونا پیٹنا  اس بات سے نہیں ہٹتا کہ معصوم بچیاں اور  قرآن فاسفورس کے بم مار کر بخارات میں تبدیل کردیے گئے۔ تقریباً  تمام افراد واقعے کے اسباب کا  دھاگہ عموماً اسلام آباد نامی شہر میں اسلام کی غیر موجودگی اور مختلف اقسام کے اسلام (اور جوڈو کراٹے ) سکھانے والے مدرسوں کی زیادتی  سے جوڑتے ہیں۔ لیکن شکی ذہن پتہ نہیں کیوں ہمیشہ اس کے پیچھے ایک نادیدہ سازش کو ڈھونڈتا ہے۔ شائد اس لیے کہ پاکستان نامی  اسلامی ملک کے صحافیوں کے بارے  ایک ہی بات سچ پائی ہے ۔ وہ یہ کہ واقعے کے فوری بعد  سچ بولنا اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی  اور جانی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔  مرشد ڈیل کارنیگی کے فرمودات کے عین مطابق شعبہ صحافت  لوگوں کو وہی بات سناتا  ہے ،  جو وہ سننا چاھتے ھیں۔ اصل بات کا علم عوام کو پچیس تیس سال بعد تب ہوتا ہے جب  اسباب زوال امت  بیان کرنے اور اپنے سینے سے نام نہاد پچھتاوے کو اتارنے کے لیے شہاب نامے ٹائپ کی سوانح حیات لکھی جاتی ھیں۔ لیکن خیر شائد کچھ واقعات اتنے پیچیدہ ہوتے ھیں کہ تصویر کے تمام ٹکڑے اکٹھے کرتے کرتے کافی سال لگ جاتے ھیں۔

کیا وجہ تھی کہ مبینہ طور پر پاک فوج  کے حامی  عبدالعزیز نے  یکدم پینترہ بدل کر  پاک فوج کے خلاف ہی بندوق اٹھا لی؟؟

کیا اس کی وجہ واقعی اسلام آباد میں  اسلام کی کمی تھی؟ اگر ہاں، تو برسوں سے سویا مرد مجاہد اچانک کس کے پانی کا جگ پھینکنے سے جاگ اٹھا؟ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ لال مسجد کے واقعہ کس کس  کو فائدہ دے سکتا تھا؟

میری رائے میں ان سوالوں کےسب سے ٹھوس  جواب   ایک نسبتاً گمنام صحافی  ایشیا ٹائمز آن لائن کے نمائندے سید سلیم شہزاد نے اپنی کتاب "(Inside Al Qaedaand the Taliban)"  میں دیے  ہیں۔ اس کتاب کی تیاری میں جن  ذرائع سے مدد لی گئی ان میں  القاعدہ کے پاکستانی اراکین (اورپاک فوج کے سابقہ کمانڈوز) کیپٹن خرم عاشق، میجر ہارون عاشق اور میجر عبدالرحمٰن پاشا  بھی شامل ہیں، جن کا نام ممبئی حملوں کی سازش کرنے والوں میں آتا ہے۔

سید سلیم شہزاد کتاب کی اشاعت کے کچھ عرصہ بعد  2010 میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہید ہوچکے ھیں۔ ان کے قتل کا شبہ حسب معمول  آئی ایس آئی پر ظاہر کیا جاتا ہے۔

سلیم شہزاد کے مطابق  لال مسجد واقعے کے پیچھے القاعدہ ہے۔

القائدہ کے ایک صاحب ھیں  عبدالحکیم حسان۔ شیخ عیسٰی اور ابوعمرو کے نام سے بھی مشہوری ہے۔نیشنیلٹی مصر، لیکن کاروبار زندگی  کے سلسلہ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں قیام ہے۔ اب یہ صاحب  ستر اسی  کے پیٹے میں ہیں اور قبائلی علاقوں میں اکثر جہادیوں کے پیر ہیں۔

یہ صاحب پہلے اخوان کے رکن تھے۔ پھر انور سادات کا تختہ الٹنے کی سازش میں  نام آیا۔ آخر انور سادات کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ رہائی کے بعد اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے الازہر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر سیدھا افغانستان میں قدم رنجا فرمایا جہاں القائدین سے ملاقات ہوئی۔ متفرق جسمانی وجوہات کی بناء پر بندوقیں نہیں چلائیں، لیکن قلم کے ذریعے  کام چُک کے رکھا۔ ان کی کتاب  "الولاء والبراء"  (دوستی اور دشمنی کے اصول)تکفیریوں کی فضائل اعمال سمجھی جاتی ہے۔ ان کے مطابق  جمہوریت کفر ہے کیونکہ اگر مذہبی حلقے جمہوریت میں اقتدار میں آبھی جائیں تب بھی مکمل طور پر شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی۔ اور جب تک شریعت نافذ نہیں ہوگی، ثمرات سرحدوں سے نکل کر ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتے۔ ان صاحب  کے فتوے کے مطابق  چونکہ پاکستان نے افغان طالبان کی شرعی حکومت کے خلاف امریکہ اور نیٹو فورسز  کا ساتھ دیا، اس لیے یہ داراالسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے۔ یعنی ادھر جہاد فرض ہے۔ اسی طرح جو مسلمان کفار کا ساتھ دیں، وہ زندیق  و مرتد ھیں  اور ان کے ساتھ لڑنا چاھیئے اور ان کی عورتوں بچوں کو  ۔ ۔ ۔ خیر اس ذکر کو چھوڑیں۔ ویسے یاد آیا، طالبان کے بنوں جیل حملے میں اغواء کی گئی خواتین پولیس وومن واپس آ گئی ھیں یا نہیں؟ 

ان کا یہ بھی فرمانا ہے کہ تکفیر کے فتوے بہت ضروری ہیں، کیونکہ حق صرف اس وقت سامنے آتا ہے جب تکفیر کا فتوٰی لگایا جاتا ہے۔(دوسرے لفظوں میں حق اور کفر کے علاوہ  کوئی درمیانی موقف نہیں)۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کسی طرح پاکستان کے مذہبی طبقات و لیڈر شپ کو حکومت اور فوج کے خلاف خروج پر راضی کر لیا جائے۔تو القائدہ اور جہادیوں کو تین فائدے ہونگے۔
ایک۔ پاکستان افغانستان میں امریکی جنگ میں تعاون کے قابل نہیں رہے گا۔
دو۔ اہم عہدوں پر فائز اسلامی ذہن کے لوگ جہادیوں کی مدد کرینگے۔
تین۔ اگر خروج کامیاب رہا، تو پاکستان کی صورت میں عالمی جہاد کے لیے ایک زرخیز لانچنگ پیڈ مل جائے گا۔

شیخ صاحب ایجنسیوں کی ہٹ لسٹ پر تھے لیکن پھر بھی 2003 میں  انہوں  نے کتاب کی پروموشن کے لیے پاکستان میں طوفانی دورے کیے۔ ان کی ملاقات ڈاکٹر اسرار، قاضی حسین احمد اور حافظ سعید سمیت بہت سے لوگوں سے ہوئی۔ ان کو کتاب کے مختلف حصے پڑھ کر سنائے اور پوچھا کہ کیا میں نے کچھ غلط کہا؟ شنید ہے کہ کتاب کے مواد کو کسی نے بھی نہیں جھٹلایا ۔ "اگر یہ سب سچ ہے تو پھر تم لوگ پاک فوج کو زندیق و کفار کیوں ڈکلیئر نہیں کرتے، جو مجاہدین کے خلاف جنوبی وزیرستان میں آپریشن کررہی  ہے۔؟" قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ اصولاً آپ کی بات ٹھیک ہے، لیکن آج کل کے حالات میں یہ نظریات انڈیا اور امریکہ جیسے دشمنوں کو فائدہ پہنچائیں گے۔

اسی بک ٹور پر  شیخ عیسٰی کی ملاقات لال مسجد کے خطیب  عبدالعزیز صاحب سے بھی ہوئی، جو سادہ اور کھرا آدمی ہونے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی آنکھوں کا تارا تھے۔  وجہ؟ ایک ان کے والدمولانا عبداللہ کے فوج سے تعلقات۔ دو ۔ جہاد کشمیر کی  ریکروٹمنٹ کے لیے ان کی خدمات۔ کشمیری تنظیم حرکت المجاہدین کے کمانڈر فضل الرحمٰن  خلیل ہر سال ان کے در پر حاضری دیتے تھے اور پھر عبدالعزیز صاحب کی اپیل پر مدارس سے سینکڑوں نوجوان حاضر ہو جاتے۔ تین۔ اسلام آباد و راولپنڈی کے تمام لوگوں میں ان کی عزت و مقام تھا۔ آرمی اور سول کے اکثر باثروت وعزت دار گھرانے  ان کے پاس اپنی بچیوں کو اسلام سکھانے بھیجتے تھے۔

شیخ عیسٰی کی خصوصی آنکھ لال مسجد پر تھی، کیونکہ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے  ادھر کچھ گڑ بڑ ہونے کی صورت میں پورا پاکستان ہل جاتا۔ اور القائدہ کا معاشرے میں افراتفری اور حکومتوں کو کمزور کرنے کا مشن کامیاب ہو سکتا تھا۔ اسی لیے شیخ جی نے  عبدالعزیز صاحب کو قرآن و سنت کی روشنی میں لیکچر دے کر معمول کا سوال  "کیا پاکستانی فوج مسلمان فوج ہے" پوچھنے کے ساتھ ہی یہ بھی زور ڈالا کہ اگر عبدالعزیز صاحب نے سچ جانتے بوجھتے  پاک فوج پر تکفیر نہ کی، تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا۔

عبدالعزیز صاحب سیدھے سادے اچھے مسلمان تھے اور ہر سیدھا سادا اچھا مسلمان شدید جذباتی ہوتا ہے۔ شائد اسی لیے چکر میں آ گئے۔

مبینہ طور پر  کسی کے ہاتھ اپنے ہی  دارالفتاء کے نام سوال بھجوایا گیا  کہ جنوبی وزیرستان میں مجاہدین کے خلاف لڑنے والے پاکستانی فوجیوں کی  ایمانی و مسلمانی حالت کیا ہے۔ جواباً فتوٰی دیا گیا کہ زندیق و مرتد  ہیں ۔ نہ ان کا جنازہ پڑھا جائے اور نہ ہی مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفنایا جائے۔

پاکستانی مسلم  معاشرے میں سب سے زیادہ ذلت آمیز بات مولوی کا کسی کا جنازہ پڑھنے سے انکار ہے۔  اسی لیے اس فتوے کا خاطر خواہ اثر ہوا۔اس قدر کہ بہت سے فوجیوں نے وزیرستان میں اپنے "مسلمان" بھائیوں کے خلاف لڑنے سے انکار کردیا اور سینکڑوں کے حساب سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی درخواستیں دی گئیں۔ نتیجتاً صورتحال اتنی خراب ہو گئی کہ  پاک فوج کو وزیرستان میں صلح کرنی پڑگئی۔(اور یہی وجہ ہے کہ بعد میں بھی آپریشن کرنے سے حتی المکان گریز کیا جاتا رہا۔)۔

یہی وہ موقع تھا جب اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے قاری طاہر یلدوشیف نے عبدالعزیز صاحب سے رابطے بڑھانے شروع کر دیے۔ یہ صاحب بھی  ہر مرد مجاہد کی طرح وزیرستان میں قیام پزیر تھے۔ قاری طاہر  نے عبدالعزیز صاحب کو" حق بات" پر مبنی فتوٰی دینے پر مبارک باد پیش کی اور ان پر زور دیا کہ وہ اس فتوے کو پاکستان آرمی کے خلاف ایک منظم تحریک میں بدلنے کی کوشش کریں۔ اور مدارس کے علماء و طلباء کو کافر آرمی کے خلاف  اکسائیں ۔ شیخ صاحب نے بھی ہدایت دی کہ نوجوانوں کو کشمیر بھیجنے کی بجائے پاکستان آرمی کے خلاف  تحریک کے لیے استعمال کریں۔ تھپکی دینے والے ہوں تو بندہ شیر ہو جاتا ہے۔

2007 میں عبدالعزیز صاحب نے سلیم شہزاد کو بتایا کہ وہ پاکستان میں طالبان طرز کی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ھیں کیونکہ ملک سیاسی اور نسلی بنیادوں پر افراتفری اور بگاڑ  کی وجہ سے طوائف الملوکی کا شکار ہو رہا ہے۔ گو کہ عبدالعزیز صاحب کا دعوٰی تھا کہ وہ پاکستان میں شرعی نظام لانا چاھتے ھیں، لیکن سلیم شہزاد کے خیال میں یہ القاعدہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے کیونکہ القائدہ  ان کو پاکستان میں شرعی بحالی کی تحریک کا قائد بنا کران کے ذریعے ملک بھر کے ہزاروں مدارس کو کنٹرول کرنا چاھتی تھی۔ مقصد شریعت کا نفاذ نہیں بلکہ معاشرے کے مذھبی طبقوں اور پاک فوج کے درمیان ٹینشن پیدا کرنا تھا تاکہ کسی طرح پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کی حمایت سے دستبردار ہو جائے۔

تکفیریوں سے تعلقات استوار ہوئے تو عبدالعزیز صاحب بھی آہستہ آہستہ تکفیری عقائد کے قریب ہو کر شدت پسند ہوتے چلے گئے۔ اسی بناء پر ان کی ہدایت پر  قحبہ خانوں پرحملے شروع کردیے گئے۔ ان کو جب حکومت کی طرف سے سمجھایا گیا کہ یہ کام پولیس کا ہے۔ آپ مہربانی کریں، تو بجائے رکنے کے ان کے جانثاروں نے انارکی کو مزید پھیلاتے ہوئے مارکیٹوں  میں گشت اور وڈیو شاپس پر حملے شروع کردیے۔ وجہ ؟ کیونکہ مقصد ٹینشن پیدا کرنا تھا۔

اسی اثناء میں عبدالعزیز صاحب خود  ہر روز بہت سے مدارس میں بھی لیکچر دینے اور پاکستان آرمی کے خلاف تکفیری فتوے کی حمایت حاصل کرنے بھی  جارہے تھے۔

جب اعجاز الحق اور چوہدری شجاعت ان صاحب کو منانے میں ناکام ہو گئے تو مفتی تقی عثمانی صاحب کو ان کے پاس بھیجاگیا۔

مفتی صاحب نے عبدالعزیز صاحب  سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہتے ہو؟ عبدالعزیز صاحب کا جواب تھا "شریعت کا نفاذ!"
پوچھا کہ نفاذ کے لیے طریقہ کونسا استعمال کرو گے؟ آنحضرت ؐ والا یا  اپنا؟ بولے "ظاہر ہے سنت کی ہی اتباع کروں گا۔"
پوچھا کہ پھر آپ وضاحت کرسکتے ھیں کہ چلڈرن لائبریری پر قبضہ، فاحشہ عورتوں اور پولیس والوں  کا اغواء،   وڈیو شاپس کو آگ لگانا اور شہر میں بدامنی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوئی مثال حضورؐ کے دور میں ملتی ہے؟ یا اسلاف میں سے کسی  نے جدوجہد کا یہ طریقہ اختیار کیا؟ کیا تمہیں شریعت نافذ کرنے کی جدوجہد اور ملک میں بدامنی قائم کرنے میں فرق معلوم  ہے؟ عبدالعزیز صاحب سر نیچے کر کے چپ چاپ کھڑے رہے۔ مفتی صاحب نے زور دے کر جواب مانگا تو بولے" آپ میرے استاد محترم ہیں۔ میں آپ سے بحث نہیں کروں گا۔"۔مفتی صاحب نے پوچھا کہ پھر تم وعدہ کرتے ہو کہ مستقبل میں اس قسم کی حرکتوں سے باز رہو گے؟ عبدالعزیز صاحب بولے " میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہی صحیح طریقہ ہے۔"۔  مفتی صاحب نے پوچھا کہ یعنی  کہ قرآن اور سنت سے کوئی دلیل نہ ملنے کے باوجود تم اسی طرح کرتے رہو گے؟ عبدالعزیز صاحب خاموش رہے۔

مفتی صاحب نے پھر اٹھتے ہوئے فرمایا کہ میں نے سنا ہے تم لوگوں کو کہتے پھرتے ہو کہ میرا اور تمہارا تعلق استاد شاگرد کا ہے اور تم مجھ سے دینی رہنمائی حاصل کرتے ہو۔  لیکن اب یاد رکھو کہ یہ رشتہ ٹوٹ چکا۔ آئندہ لوگوں کو مت کہنا کہ میرا تمہارا کوئی تعلق ہے!" کسی بھی طالب علم کے لیے استاد  کی طرف سے  اس سے بڑی سزا اور کوئی نہیں۔

عبدالعزیز نے مفتی صاحب کو روکنے یا منانے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔

بعد میں حکومت امام کعبہ اور عبدالعزیز صاحب کے پرانے یار فضل الرحمٰن خلیل  کو بھی  بیچ میں لے کر آئی۔ لیکن   ۔ ۔ ۔

اور پھر سب نے دیکھا  سنا کہ گیارہ کلاشنکوف ہونے کے باوجود مسجد کے میناروں سے اسلحے کا ذخیرہ ہونے اور خودکش بمباروں کی موجودگی کے دعوے کیے گئے۔ آپریشن کے دوران مولوی عبدالعزیز  کی برقعے میں فرار کی کوشش نے وزیرستان میں القائدہ کو فکرمند کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ آپریشن کے دوران قاری طاہر ازبک  نے خود عبدالرشید غازی اور ان کے ڈپٹی عبدالقیوم کو فون کیا کہ ان کا آخری گولی تک جنگ کرنا بہت ضروری ہے۔ (کیونکہ فلانےشہید۔ تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔) اور ان کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے آسانی سے ہتھیار ڈال دیے تو اسلامی تحریک کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ اور پھر ۔ ۔ ۔

اس واقعے کے بعد پاکستان کا سیاسی و مذہبی منظرنامہ الٹ پلٹ ہو گیا۔ لیکن القائدہ اور عبدالعزیز کی توقعات کے برعکس ملک کے مدارس سے ایک بھی طالب علم شریعت کے نفاذ اور لال مسجد کی حمایت میں کھڑا نہیں ہوا۔ حتٰی کہ اسلام آباد راول پنڈی کے اٹھارہ مدرسے بھی اس بابت خاموش رہے۔

سلیم شہزاد کی کتاب پڑھیں تواپنے آس پاس ہونے والے ان عجیب واقعات کے بارے ذھن میں بکھرے سوالوں کے بہت سے ڈاٹس  آپس میں جڑتے نظر آتے ھیں۔ یہ کتاب پاکستان میں جاری دھشت گردی کے تانے بانے جاننے کے لیے معلومات کا اہم خزینہ ہے جو شائد محض اس وجہ سے اکثر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے کہ سلیم شہزاد ایک نسبتاً گمنام صحافی تھے جو ایک گمنام سے آن لائن اخبار کے لیے لکھتے لکھتے کچھ گمنام افراد کے ہاتھوں شہید ہو گئے، اور شائد اس لیے بھی کہ کتاب کو  میڈیا میں توجہ نہیں دی گئی کیونکہ یہ کتاب دونوں انتہاؤں یعنی پاک فوج کی دھشت گردی کے خلاف  مضبوط جنگی  قوت اورالقائدہ و اس کے پاکستانی اتحادیوں  کا تذکرہ کچھ زیادہ مثبت الفاظ میں نہیں کرتی۔

معلوم نہیں، پچھلے چھ سات سال میں دونوں اطراف کے  اتنے سارے لوگ مروا کر عبدالعزیز صاحب  اب کیا سوچتے  ہیں ۔ ۔ ۔؟ ؟

ویسے اگر مولوی عبدالعزیز کی جگہ آپ ہوتے، تو کیا کرتے؟ گلی میں پھیلتے غلاظت بھرے پانی کو دیکھ کر واسا کے خاکروبوں کا انتظار کرتے یا "لوگوں" کے اصرار کرنے پر بانس پکڑ کر خود ہی گٹر میں چھلانگ مار دیتے ؟؟۔۔ ۔ یہ بہت اہم سوال ہے ، جس کا جواب آسان نہیں۔

اس کتاب پر مستقبل  قریب میں  انشاءاللہ دو چار بلاگ اور ہونگے۔

57 تبصرے:

  1. سلیم شہزاد صاحب بارے میں پہلے پڑھ چکا ہوں انکی کتاب کا تعارف کرانے کا شکریہ
    ویسے میرے خیال میں تو انہوں نے لال مسجید مخالف لکھا پھر ان کے قتل کا الزام فوج کے سر دینا سمججھ نہیں آیا۔ مستبل میں اس بارے بھی مزید بات کریں الٹا میرے خیال میں تو انہوں نے طالبان مخالف لکھا ہے نہ کہ فوج مخالف

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ایڈمرل مائیک مولن نے ان کے قتل کا شک پاک فوج پر ظاہر کیا۔ گوگل سرچ کر کے دیکھیں۔

      حذف کریں
  2. مولوی عبدالعزیز اور ان کے دوستوں کی اپروچ ٹاپ ڈاون اپروچ ہے کہ شریعت صرف اقتدار کے ڈنڈے سے نافذ ہو سکتی ہے نہ صالحین کا معاشرہ پیدا کرنے سے۔ کیونکہ لوگوں کو تبلیغ اور عملی مثال سے صالح بنانے میں وقت صرف ہوتا ہے اور اس کے لیئے عقل و فہم اور برداشت کی بھی ضرورت پڑتی ہے اس لیئے شارٹ کٹ ٹو شریعت ان کی چوائس یہی راستہ تھی ۔ شریعت کے نفاذ میں محض ضیاء الحق کے زکوۃ آرڈیننس کی مثال ہی کافی ہے جس میں شیعہ حضرات سراپا احتجاج بن گئے کہ ان کہ شریعت کے مطابق زکوہ کا مطلب کچھ اور ہے ۔آخر کار انہیں زکوۃ سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ آج بھی آپ ایک سرٹیفیکیٹ بنک میں پیش کر کے اس سے بچ سکتے ہیں ۔
    میری نظر میں یہ قبائلیت اور گلوبلائزیشن کا ٹکراو ہے اور اس پر میں اپنے بلاگ پر تحاریر پیش کرنے جا رہا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  3. اس داستان کو دنیا کی لغو ترین داستان کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
    اس میں جہاں پاک فوج کے بارے میں لن ترانی کی گئی ہے وہاں لال مسجد کے تمام واقعات کے تانے بانے گمراہ کن واقعات سے جوڑنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔
    لال مسجد کا واقعہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ان دو مولویوں ( مولوی عبدالعزیز اور غازی ) کی ناعاقبت اندیش اقدامات کا مرہون منت تھا ۔اس جلتی ہوئی آگ پر ہمارا میڈیا اور اس کے نامور اینکر تیل چھڑکتے رہے جس کی وجہ سے یہ آگ کا گولہ بن گیا۔۔۔ آخر کار اسے بجھانا تو تھا سو اسے بجھا دیا گیا۔۔۔یہ الگ بحث ہے کہ بجھانے کا طریقہ صحیح تھا یا غلط ۔۔۔۔۔
    باقی رہی آپ کی یہ کتاب والی تحریر ۔۔۔ تو یہ جھوٹ کا عظیم پلندہ ہے

    جواب دیںحذف کریں
  4. ہم بھی اوپر کیے تبصروں کی تائید کرتے ہیں۔ آپ نے موجودہ معاشرتی بگاڑ کا سارا الزام لال مسجد پر ڈال دیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ یہ بگاڑ افغانستان پر پہلے روس اور بعد میں اتحادیوں کی چڑھائی کی وجہ سے ہوا۔ اس سے پہلے ہمارا معاشرہ مذہبی رواداری کا نمونہ ہوا کرتا تھا۔ نہ ایم کیو ایم تھی، نہ سپاہ صحابہ، نہ لشکر جھنگوی اور نہ طالبان۔ شیعہ سنی ٹکراؤ کے اکا دکا واقعات ہو جایا کرتے تھے یا پھر مرزائیوں کیخلاف نفرت کافی پائی جاتی تھی۔ لیکن قبائلی علاقوں میں امن تھا۔ لوگ ادھر سیروتفریح کیلیے جایا کرتے تھے۔
    اگر لال مسجد اور اس کے امام مولانا عبدالعزیز آج کے حالات کے ذمہ دار ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ مولانا عزیز کی یہ ساری کارستانی ہے تو پھر مولانا عزیز کو عدالتوں نے چھوڑ کیوں دیا، وہ آج بھی لال مسجد کے خطیب کیوں ہیں اور اب اسلامی نظام کا نعرہ کیوں نہیں لگا رہے۔
    سچ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلیے اس طرح کے حالات پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اب آپ دیکھ لیں نواز شریف نے پرویز مشرف کی غداری کا کیس کھول دیا ہے تا کہ عوام کی توجہ لوڈشیڈنگ، گیس اور مہنگائی جیسے مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ یہ ہم ہی بیوقوف ہیں جو تھڑوں کی سیاست میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بس لال مسجد، پرویز مشرف کے مقدمے جیسے موضوعات پر بحث کرتے ہیں اور اصل مسائل پر حکومت کو ٹارگٹ نہیں کرتے۔ جب تک ہم نہیں بدلیں گے کچھ نہیں ہو گا۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. اگر یہ ہجو ہے تو بھی میری سمجھ میں کم کم ہی آئی ہے ۔ بہرحال حقہقت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔ لال مسجد یا جامعہ حفصہ میں کبھی بھی اسلحہ کی موجودگی کا ذکر نہیں ہوا تھا سوائے مولوی عبدالعزیز کی گرفتاری کے بعد جب اُس نے خود ہی ٹی وی پر افتخار احمد کے سوالوں کے جواب میں بتایا تھا کہ 14 بندوقیں اُن کے پاس دوستوں نے پہنچائیں تھیں لال مسجد پر یلغار سے قبل ۔ یہ چلائی گئیں یا نہیں اُس کے علم میں نہ تھا ۔ یہ دوست کون تھے جنہوں نے پولیس اور فوج کے محاصرہ کے دوران بندوقیں مسجد میں پہنچائیں ؟ اس سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ لال مسجد پر قبضہ کے بعد وہاں پڑا بہت سا جو اسلحہ دکھایا گیا تھا وہ چند صدیاں قبل کے دور سے تعلق رکھتا تھا اور چمک رہا تھا جیسا کہ عام طور پر عجائب گھروں میں ہوتا ہے ۔ زیرِ استعمال اسلحہ چمک نہیں رہا ہوتا
    بچوں کی لائبریری پر قبضہ کسی نے نہیں کیا تھا ۔ البتہ یہ اُن طالبات کے محاصرے میں آ گئی تھی جو اپنے مدرسہ حفصہ کو ممکنہ حملہ سے بچانے کیلئے لاٹھیاں یا درختوں کی شاخیں لے کر اسلئے کھڑی تھیں کہ پچھلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان اچانک جامعہ حفصہ پر پولیس یا ایجنسی والے مولوی عبدالعزیز کی تلاش میں چڑھ دوڑے تھے اور سوئی ہوئی جوان طالبات کی بے پردگی اور گھسیٹا گھسیٹی کی تھی ۔ یہ محاصرہ صرف دو یا تین دن رہا تھا کیونکہ جامعہ حفصہ کی عمارت گرانے کی دھمکی دی گئی تھی مگر ٹی چینلز اسے کئی ہفتے دکھاتے رہے تھے ۔
    لال مسجد اور ملحقہ جامعہ حفصہ پر حملہ سے کے دوران ان کے اُوپر ایک بڑا ڈرون منڈلاتا رہا تھا ۔ اس کا میں بھی شاہد ہوں ۔ ایسا ڈرون آج بھی پاکستان کے پاس نہیں ہے اور امریکہ کے پاس ایسے بہت ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  6. اس تحریر سے ہٹ کر آپ کے بلاگ کے بارے میں ایک سوال۔ آپ کی اس ٹیگ لائین "مصنّف کا اپنی ھی رائے سے متّفق ھونا ضروری نہیں" کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔ ایسا تو ہو نہیں سکتا مگر کیوں۔ ذرا تشریح تو کر دیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. مولويوں کی دم پہ پاؤں رکھ ديا ہے- اب يہ کتاب ميں ديئے گئے حقائق کو جھٹلا کر ڈينائيل ميں چلے گئے ہيں اور من گھڑت واقعات گھڑ رہے ہيں-

    جواب دیںحذف کریں

  8. میں آنجناب سے پوچھ سکتا ہوں کیا آج تک بھی مفتی تقی عثمانی نے لال مسجد اور مولانا عبدلعزیز کی رد میں عوام کے سامنے ایک جملہ بھی ارشاد کیا ؟؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جی ہاں پوچھ سکتے ہیں۔
      میرا خیال ہے کہ ان کے مذمت نہ کرنے کے پیچھے عوامی دباو ہوگا۔
      لال مسجد کے بعد جس طرح عوامی جذبات ایک دم لال مسجد والوں کے حق میں تبدیل ہوئے۔۔۔ مفتی صاحب کو چھوڑیں٬ کوئی بھی شخص عوامی و جہادی جذبات کے آگے کلمہ حق کہ کرجامعہ نعیمیہ والے مفتی سرفراز نعیمی کی طرح اپنی زبان کے ہاتھوں خودکشی نہیں کر سکتا۔
      مفتی تقی عثمانی صاحب ویسے بذات خود نرم خو شخص ھیں۔ ڈاکٹر امجد کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی کے ساتھ شادی میں یہ رشتہ کروانے والے اور نکاح خواں تھے٬ نکاح میں عافیہ کی طرف سے شرط جہاد افغانستان میں شرکت کی تھی۔ جس کو ڈاکٹر صاحب کی درخواست پر مفتی صاحب نے "جب توفیق ہوگی" میں بدلوا دیا

      حذف کریں

    2. بھائی یہ کمروں میں مجاہد ہوتے ہیں عوام کے سامنے کبھی حق بات نہیں کرتے ... اگر مولوی عبدلعزیز کو عاق کیا تھا تو بتا دیتے ... اب ہوتا یہ ہے کے معصوم قسم کے لوگ سمجھتے ہیں کے اگر تقی عثمانی غلط سمجتھے تو انسے برات کردیتے اور جاملتے ہیں طالبان سے ... یہ بھی حق چھپانے کے ذمہ دار ہیں

      حذف کریں

  9. حقیقت سے آنکھیں چرانا ، ضد اور طاقت کا نشہ بنیادی وجوہات تھیں اس سانحے کی ، پورا محلہ کہہ رہا تھا آنٹی شمیم اچھی عورت نہیں لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ بہت سے بڑے لوگوں کی عیاشیوں کے قصے سامنے آ سکتے تھے ، لال مسجد والوں نے اپنی ضد میں نرمی کی بجائے سختی شروع کر دی ، طاقت کے نشے میں مشرف چڑھ دوڑا اور نقصان ہمیشہ کی طرح پاکستان ہی کا ہوا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات

    1. بھائی مسلہ آنٹی شمیم یا مساج کا نہیں تھا، برقع آونجر کسی بھی طرح خبروں میں آنا چاہتے تھے ... انکا موقف مسجد شہید ہونے سے شروع ہوا، اور پاکستان میں شریعت کے نفاذ تک گیا اور آخر اخیر روجھان تک محفوظ راستہ دینے تک سکڑ گیا.
      مسلہ یہی ہے کے جس بندے کی ٢ لوگ سننے لگتے ہیں وہ خود کو مسیحا سمجھنا شروع کردیتا ہے

      حذف کریں

  10. “جو شخص کسی ایسے بادشاہ کو دیکھے جو اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دے، سنت رسول اللہ کی مخالفت کرے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم و عدوان کا معاملہ کرے اور یہ شخص اس کے ایسے افعال و اعمال کو دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اسی ظالم بادشاہ کے ساتھ اسی کے مقام (دوزخ) میں پہنچا دے۔”

    حضرت حسین ؓ کے میدان جہاد میں ایک خطبہ سے اقتباس۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات

    1. میرا خیال ہے یہ بنو امیہ کے بارے میں کہا گیا ہے . آپ لوگ حضرت حسین کے خلاف توہین صحابہ کا مقدمہ کر واؤ گے ؟؟؟

      حذف کریں
    2. حضرت امیر معاویہ کی بیت کے بعد حسنین کریمین کا معاویہ رضی الله سے نظرانے وصول کرنا
      صحابہ کا آپس میں باہم اتفاق و اتحاد کا پتا دیتا ہے

      سمجھدار کو اشارہ کافی ، اور یقیناً ان کا مذہب " تقیہ / منافقت " نہیں ہو سکتی

      حذف کریں
    3. آپ لوگوں کے دل سے صحابہ کرام کا بغض نہیں نکل سکتا۔

      حذف کریں
    4. اپنا حق لینا ظلم سے ظلم کی تائید کرنا نہیں ہے ... باقی آپ ہی بتا دو کس ظلم بادشاہ کے خلاف اشارہ ہے ؟؟؟ کیوں کے متن سے یہ لگتا ہے کوئی مسلمان بادشاہ ہی ہے

      حذف کریں
    5. بھائی میرے یہ کسی ایسے حکمران کے بارے میں ہے جو مسلمان ہے ، اور مسلمانوں پر ظلم کر رہا ہے . اب اللہ کے رسول کی سنت فرضی چیز پر فتوے نہیں دینے کی ہے اس لیے کوئی ایسا بادشاہ ہے جو امام حسین کے دور میں ہی الله کے عہد کو توڑ رہا ہے ...اب آگے کی بات تو سپاہ صحابہ کی گرفت میں آنے والی ہے

      حذف کریں
    6. باقی اب میں تو مفتی تقی عثمانی، جنہوں نے مشرف یا اس کے بعد آنے والے ظالموں کے خلاف خروج نہیں کیا، کو کوئی خاص فتوٰی نہیں لگانا چاھتا۔

      حذف کریں
    7. اگر بات یزید سے متعلق ہو اور آپ پورے بنی امیہ پر لعن طعن شروع کر دیں تو یہ صرف صحابہ سے آپ کی نفرت کی وجہ سے ہے۔ باقی ہمیں پتہ ہے یہ آپ کے مذہب کا لازمی جز ہے کہ صحابہ کو برا بھلا کہو، تو اس کا علاج تو گورنمنٹ ہی کرسکتی ہے۔

      حذف کریں
    8. aray ghaday baat sun liya karu jawab denay say pehlay..mufti taqi usmani kanjar kay baray kiya kahu gay jis nay koi kharooj nahin kiya? galban aaj kal kay hukran baray paarsa hu gai hain keh taqi usmani ku in main kopi aib nahin nazar aaya..

      حذف کریں
    9. حضرات، ادھر بات القائدہ کے لال مسجد والوں سے کنکشن کی ہو رہی ہے۔ آپ صحابہ کی طرف نکل گئے۔

      حذف کریں
  11. عزیز برادران نے بھی شدت پسندی شو کی لیکن مشرف نے بھی ہٹ دھرمی دکھائی ، انا اور ضد کو پاکستان کے مفاد کا نام دے کے چھوٹے سے مسلے کو سانحہ بنا دیا ، فوج کی ٹریننگ ہی مرنے مارنے کی ہے ، مشرف خود اپنے انٹرویو میں کہہ رہا تھا ہمیں پہلا سبق ملا تھا .......مارو یا مر جاؤ ، حکومت بھی اس نے اسی فلسفے پہ کی اور انجام آپ کے سامنے ہے

    جواب دیںحذف کریں
  12. The time have passed long ago now in Pakistan. A Dictator is needed to kill all ulemas and students of madrasss of Pakistan from A to Z. For some time Religion should be banned at all. When all the bull **** dust is subside a limited practice of personal religion should be allowed under-strict laws. There is no other way. So many faces of Islam in Pakistan....That is complete bull **** now. Otherwise no future of Pakistan and Afghanistan for next hundred years of sure. Religion is for human , but we made human for religion.

    جواب دیںحذف کریں

  13. القائدہ کا اصل مقصد شریعت کا نفاز ہی ہے اگر وہ اس عظیم مقصد کے لئے کسی شخص کو استمال کرتے بھی ہے تو اس میں کوئی خسارے والی بات نہیں ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  14. اسلام آباد میں قائم ہونے والے مساج سینٹروں اور جنسی تسکین کے اڈوں کیخلاف صدائے حق پرستاں کا ذکر شاید قابل سنسر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرویز مشرف کی طرف سے نجم سیٹھی برانڈ دانشوروں کی " ایمان افروز مشاورت " کا ذکر بھی شاید معیوب ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. زیادہ تر مبصرین کے نام مسلمانوں والے ہونے کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ نماز پڑھتے ہوں گے مسلمان کو نماز سوائے بے ہوشی (جسے کوما کہتے ہیں) کے معاف نہیں ہے ۔ نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اھدنا صراط المستقیم ۔ یعنی اللہ سے التجاء کی جاتی ہے کہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے ۔ میری تمام مبصرین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اپنے تبصرے پڑھ کر اپنے کردار پر غور کریں اور اسے درست کریں ۔ باقی دنیا خود بخود درست ہو جائے گی

    جواب دیںحذف کریں
  16. افتخار ساحب کا یہ تبصرہ کمال ہے۔
    پوسٹ بھی کمال ہے۔ مجھے تو یہ کہانی بالکل لاجیکل لگتی ہے۔ لاجیکل کا مطلب سچ نہیں ہے۔،
    سوائے ایک چیز کہ جسے سے مجھے اختلاف ہے۔
    مولانا عبد العزیز کے فوج سے اچھے تعلقات تھےکشمیر جہاد کی وجہ سے۔ تو مولانا کسی کی باتوں میں اتنی جلدی کیسے پھنس گئے کہ فوج جو کہ کشمیر جہاد میں ان کی سپورٹ کرتی ہے،اس کے اس حد تک خلاف ہو جائیں کہ " ان کے خلاف منظم تحریک شروع کریں ، مدارس کے علما اور طلبا کو ان کے بارے میں اکسائیں ، اور جوان کشمیر بھیجنے کے بجائے کافر فوج کے خلاف استعمال کریں۔"
    پھر ان کے بھائی بھی تو اان کے ساتھ تھے مظلب ہم اسے فردِ واحد کی نفسیاتی غلطی بھی نہیں کہہ سکتے۔
    تحریر کے آخر میں بہت زبر دست سوال دیا گیا ہے۔ اخیر ہی کر دی آپ نے لکھتے وقت! میں ابھی کم علم ہوں۔ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔
    دوسرے تبصرہ نگاروں نے پتہ نہیں کیوں اس سوال کو نظر انداز کر دیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  17. Awesome work. This the first article which clearly describe the mindset of extremism and there causes.

    جواب دیںحذف کریں
  18. عامر صاحب کی بات سچ ہے اور تاریخ کا حصہ ہے کہ بات آنٹی شمیم اور مساج سنٹروں کیخلاف احتجاج سے شروع ہوئی تھی جس کا حکومت نے نوٹس نہیں لیا اور بڑھتے بڑھتے اسلامی شریعت کے نفاذ کے مطالبے تک جا پہنچی۔ پھر وہی بات ہے کہ اگر مولانا عبدالعزیز مجرم تھے تو پھر انہیں سزا کیوں نہیں ہوئی اور وہ اب تک مسجد کے امام اور خطیب کیوں ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  19. The blogger forgot to write this line in the end.

    Inspired by Razia Butt.

    جواب دیںحذف کریں
  20. سوال یہ ہے کہ پیٹرول چور چیف جسٹس نے جامعہ حفصہ کو واپس برقعے والے بھگوڑے اور ام حسان چڑیل کو دینے کا حکم کیوں دیا، حالانکہ یہ ثابت ہو چکا تھا کہ فتنہ کا اڈا ناجائز زمین پر تعمیر کیا گیا۔؟؟

    لیاقت بلوچ نے لال مسجد آپریشن کے بعد ان آفیشلی کہا کہ جماعت نے آپریشن میں مرنے والی عورتوں اور بچوں کے کوائف اکٹھے کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی بھی ایسی عورت یا بچے کا سراغ لگانے میں ناکام رہے۔

    لال مسجد عرف فتنے کا اڈا آپریشن سو فیصد صحیح تھا۔ آپریشن کے بارے غلط بات صرف یہ تھی کہ اس کو اتنا طول کیوں دیا گیا۔ اور اب برقعے والا بھگوڑا اور ام حسان چڑیل آزاد کیوں پھر رہے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. bsobaid,
      Which bench ordered the re-construction of Jamia Hafza ? Who were the judges on the bench ?

      حذف کریں
    2. Sharif, Supreme Court ordered it. Bench was headed by petrol chor.

      حذف کریں
    3. IMC (Petro chor) headed the bench. ook. who were other members of the bench? My understanding is that CJ is first among the brother judges and carries the same weight as of other judges.

      Please correct me if wrong.

      حذف کریں
  21. Very informative blog...look forward to seeing more of these.

    جواب دیںحذف کریں
  22. Must be brought forward. Also I'm very much interested in this petrol chor's real business. He seems to have disappeared altogether. Perhaps on holidays with son's funny money to USA.

    جواب دیںحذف کریں
  23. خوبصورت اور پر مغز موضوع ہے اور شاندار خیالات بھی لیکن حوالہ جات کی انتہائی کمی اور انداز بیان کے ناموافق طرز کے ساتھ

    جواب دیںحذف کریں
  24. باتیں اگرچہ بغیر حوالہ جات ہیں مگر حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ واقعی سلیم شہزاد نے حالات بتانے کی حد تک ٹھیک لکھا ہے
    اگرچہ کچھ لوگ ایک قسم کے حالات بتا کر جو نتیجہ نکالتے ہیں دوسرے انہیں حالات سے کھینچ تان کر دوسرا نتیجہ نکال لیتے ہیں اب مجھے دونوں نتیجہ نکالنے والوں سے انکے دلائل پوچھنیں ہیں کیونکہ میرے علم کے مطابق ان باتوں کا رد نہیں
    کیا تمام تکفیر کرنے والے خارجی ہیں اس پر امت کا اتفاق ہے اور اس بارے معلومات چاہیئں کیونکہ دوسرے پھر یہی سوال پوچھتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  25. بہت پیار ا اور اچھوتا انداز بیان ہے۔حقائق کو جس طرح پیش کیا گیا کوئی جاہل ہی ہو گا جو ان سے انحراف کرےگا۔مولویت کی سوچ اور مولویت کے کرتوت ہمیشہ سے ہی اسلام اور پاکستان کے لئے نقصان دہ رہے ہیں۔مولانا تقی عثمانی صاحب کی گفتگو بڑی پیاری اور پر مغز ہے اور جو سوالات انہوں نے غازی صاحب سے کئے ہیں یہی سوالات ہر محب وطن پاکستانی اور مدبر مسلمان کی زبان پہ ہیں۔
    یقیناًمولانا کی یہ حرکت اسلام اور پاکستان کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کے سوتے بھی دیارغیر سےملتےہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ممکن ہے۔
      جو بھی ہے میرے خیال میں انہی فتنوں میں شامل ہے جن میں پڑنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔
      جب تک واضح اطلاعات نہ ہوں ہمیں بیچ میں نہیں گھسنا چاہیے۔

      حذف کریں
    2. القاعدہ اپنا خونی کھیل پاکستان میں کھیل رہی ہے اور اس کی تقلید میں طالبان کشت و خون کی دوکان چمکا رہے ہیں - بدنامی اسلامی کے حصے میں آرہی ہے اور بربادی پاکستانیوں کے حصے میں -

      حذف کریں
  26. بہت خوب جوانی پٹا صاحب۔
    آپ کے دلائل کے ماخذ نقل کرنے میں انتہائی کمی ہے۔
    جوانی پٹا صاحب!۔
    جماعت الدعوۃ کے زیر انتظام دارالاندلس کے اس وقت کے مدیر صاحب نے آپ کی بیان کردہ کتاب خود شائع کروائی تھی۔ (یہ ماخذ تو ان گنہگار ہاتھوں میں بھی آیا تھا)۔
    اس کے بعد مذکورہ کتاب جہاد منزل پشاور کے ایڈریس سے چھپی۔ (یہ ماخذ بھی ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا تھا)۔
    اس کے بعد جماعت الدعوۃ کے اراکین پر مذکورہ کتاب کو اپنے پاس رکھنا یا پڑھنا گناہِ عظیم قرار دے دیا گیا تھا۔ (اور یہ پابندی ما شاء اللہ ابھی تک قائم و دائم ہے)

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. محترم آصف بھائی, آپ اوپر جوانی پٹا بھائی کی باتیں پڑھ کر ہماری جماعت کے بارے جو کہنا چاہتے ہیں ہو سکتا ہے وہ آپ کے مطابق ٹھیک ہو مگر انتہائی معذرت کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی اس بارے معلومات کم ہیں میں اس کو بھی ثابت کروں گا اور جوانی پٹا بھائی کی غلط فہمیاں بھی دور کرنے کی کوشش کروں گا آپ اصلاح کر دیں اللہ جزا دے امین
      محترم بھائی میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ اس کتاب کے پس منظر میں ہماری جماعت پر دو طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں
      1-ہماری جماعت اس کتاب کو چھپوا کر اس سے اب انکاری ہو گئی ہے یعنی خود یوٹرن لے لیا ہے
      2-اگر انکاری نہیں ہوئی اور یو ٹرن نہیں لیا تو اس پر عمل کیوں نہیں ہے

      پہلے الزام کا جواب
      محترم بھائی واقعی ہماری جماعت نے اس کتاب کا ترجمہ ابو سیاف اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ نے کیا جو جرار اور دعوہ ٹاک پاک پر سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں اور کہا ہے کہ میں نے اسکا ترجمہ نہیں بلکہ ترجمانی کی ہے اور ایک ایک بات کو قرآن و حدیث کے دلائل سے سمجھ کر آگے لکھا ہے اور اسی طرح تائید محترم سیف اللہ خالد مدیر دارالاندلس حفظہ اللہ وغیرہ نے بھی کی ہے تو اب بتائیں کسی جماعت پر غلط گمان کرنے کا کیا گناہ ہوتا ہے آپ آج بھی جا کر ہمارے عالم محترم ابو سیاف اعجاز احمد تنویر حفظہ اللہ سے جا کر پوچھ لیں اگر وہ اس کا انکار کر دیں تو پھر بتائیں البتہ ہمارے کچھ بھائی اس کتاب کا جب انکار کرتے ہیں تو اسکے پیچھے کچھ اور وجوہات ہوتی ہیں مثلا کوئی بچہ جب اللہ کے بارے کوئی ایسا سوال پوچھتا ہے جس کا مکمل پس منظر اسکو پتا نہیں ہوتا تو پھر اسکو درست جواب نہیں دے سکتے ورنہ وہ الٹا غلط مطلب لے لے گا پس میری نیچے لکھی وجوہات سے لاعلمی کی وجہ سے عامی کے سامنے ہمارے بھائی کبھی اسکا انکار بھی کر دیتے ہیں جو غلط نہیں
      دوسرے الزام کا جواب
      محترم بھائی اللہ کے نبی سے جب صلح حدیبیہ کے وقت مطالبہ کیا گیا کہ رسول اللہ کا لفظ معاہدے سے مٹا دیں تو علی رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا مگر آپ نے کہا کہ اگرچہ میں اللہ کا نبی ہوں مگر یہاں پر مٹانا ہے اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے جب کہا کہ کیا ہمارے شہید جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا وہ جہنم میں نہیں جائیں گے تو پھر ہم کیوں ڈر کر صلح کریں مگر اللہ کے نبی نے پھر بھی ایک حق بات کو کسی دین کی مصلحت کی وجہ سے ہی موخر کیا اس دوستی دشمنی کا حوالہ دینے والے بھی کبھی دنیاوی مصلحتوں کے تحت بہت کچھ قربان کر جاتے ہیں پس ہمارے علماء نے کتابیں لکھیں ہیں جن کے نام طاغوت کے ساتھ تعاون ہے تو اس سے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کیا ہمارے علماء انکو طاغوت نہیں سمجھتے-
      اصل چیز حق کو ماننا ہے اللہ سمجھ دے امین

      حذف کریں
    2. اس میں امیر محترم کا اور قاضی حسین احمد وغیرہ کا موقف میرے خیال میں بالکل ٹھیک ہے جیسے میں اوپر دوسرے الزام کے جواب میں وضاحت کی ہے کیونکہ اس طرح دشمنوں کو ہی فائدہ ہو گا
      دوسرا جہاں تک اس سے پاکستان فوج سے لڑائی کی بات آتی ہے تو یہی وہ موقع ہے جس پر امیر محترم اور قاضی حسین احمد وغیرہ کی راہیں شیخ عیسی سے جدا ہو جاتی ہیں- یاد رکھیں کافر یا طاغوت کہنے کا خروج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں
      آپ نے لکھا کہ القائدہ سمجھتی ہے کہ اس سے تین فائدے ہوں گے تو یہی سوچ انکی غلط ہے پس ہماری سمجھ ہمارے لئے انکی کی سوچ انکے ساتھ- مگر جہاں سے راہیں جدا ہوتی ہیں اس سے پیچھے بھی انکی ضد میں راہ کو جدا کرتے ہوئے غلط راستہ اپنا لینا بھی بیوقوفی ہو گی

      حذف کریں
  27. آپ نے لکھا ہے کہ:
    "وجہ یہ کہ اس واقعے سے پہلے پاکستان میں پرویزی خلافت کی وجہ سے نسبتاً امن، باہمی رواداری اور معاشی آسودگی کا دور دورہ تھا۔ تمام پاکستانی بلا تخصیص شیعہ سُنی قادیانی ہندو عیسائی ایک ہی دیگ سے کانی آنکھوں کے ساتھ پلاؤ میں سے بوٹیاں چن چن کر کھا رہے تھے۔"

    آپ کی اس تحریر سے مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ یہ سب کے سب اسی طرح چلتے رہیں تاکہ
    ایمان
    اور
    کفر
    میں تمیز نہ ہو
    نیز
    پاک خلافت پھلتی پھولتی رہے
    بوٹیاں کھانے والوں کو
    بوٹیاں کھانے سے غرض ہونی چاہیئے
    نہ
    کہ
    وہ یہ دیکھنا شروع کر دیں کہ
    جانور گائے کی نسل سے ہے
    یا
    خنزیر کی نسل سے
    حالانکہ آپ نے
    پس منظر پر نظر دوڑائی ہیں
    ثبوت یہ ہے (آپ کی تحریر سے اقتباس حاضر خدمت ہے)

    ۔"وہ لوگ خواتین کو پردے کی تلقین کر رہے ھیں جن کی آنکھیں اور انگلیاں تمام عمر پرائی خواتین کے لمس سے آلودہ رہیں۔ مجھے انہی ننھی ننھی معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے لال مسجد کے واقعے کے اسباب جاننے بارے کافی تجسس رہا ہے۔"۔

    یعنی آپ خود تو تجسس کرتے ہیں
    جبکہ
    دوسروں کو اس سے منع کرتے ہیں
    اسی پس منظر میں دو آیاتِ قرآنی پڑھ لیجیے
    مَا كَانَ اللہُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْہِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ۝۰ۭ
    (لوگو) جب تک خدا ناپاک کو پاک سے الگ نہ کردے گا مومنوں کو اس حال میں جس میں تم ہو ہرگز نہیں رہنے دے گا۔
    لِيَمِيْزَ اللہُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيْثَ بَعْضَہٗ عَلٰي بَعْضٍ فَيَرْكُمَہٗ جَمِيْعًا فَيَجْعَلَہٗ فِيْ جَہَنَّمَ۝۰ۭ
    تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر ایک ڈھیر بنا دے۔ پھر اس کو دوزخ میں ڈال دے۔
    آیات پیش کرنے کا مقصد آپ کے ویژن کو تیز کرنا ہے
    فتوی لگانا
    ہرگز
    ہرگز
    نہیں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  28. The question is that why Musharaf indulge Army to kill hundreds of people inside Lal Masjid. Their was other ways and means to negotiate or arrest all Armed persons inside. The Operation was the biggest blunders Musharaf and open the suicide justification. By doing so...He help achieved the Goal of all Anti-Pakistan elements. If one person become stupid….but "Why Pakistan Army ignore the consequence" of Lal Musjid Operation.

    جواب دیںحذف کریں
  29. #1 : Saleem Shahzad is not a less-known journalist
    #2 : Both Molana Abdula Aziz and General Marasi took extreme measures, only a bit of restraint from any side could have made events controllable

    جواب دیںحذف کریں
  30. کچھ حقائق ہیں مگر فوج اور لال مسجد والوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا
    دین کا غالبہ حکمت اور نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق ہونا چاہیے اس طرح نہیں جس طرح لال مسجد والوں نے کیا
    ظلم پر مبنی ہے کیونکہ یہ اسلاف کا طریقہ نہیں تھا
    اس طرح ہمارے صدر کی بھی غلطی تھی کیونکہ یہ لوگ مکمل ناکے میں تھے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جاسکتے تھے مگر اس وقت کی قیادت نے جلد بازی کی تھی اور معصوم لوگ کے قتل کے ذمہ دار ہیں
    اس طرح فوج کے خلاف بولنا اور لکھنا بھی غلط ہےکیونکہ یہ بدبختی کی طرف دعوت دینا ہے یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی بات ہے
    ہماری فوج کے دو قسم لوگ بولتے ہیں
    1زیادہ علم والے علماء حکمت سے خالی
    2میڈیا کے لوگ جو اپنے سستی شہرت کی خاطربولتے ہیں
    دراصل ان لوگوں نے ہماری ایجنسی اور فوج کی پالیسی کو سمجھنے نہیں ہیں
    فوج اس پاکستان کی فوج ہے اور فوج ہر اس بندے کی دشمن ہے جو اس ملک کے خلاف کام کرے گا یا اس ملک دشمن لوگوں کے ساتھ تعاون مدد کرے گا وہ کسی صورت میں بھی ہوں
    فوج کا کام اس ملک کو جوڑنا ہے توڑنا نہیں ہے
    فوج نے اس تحریک کو ختم کرنا ہے جو اس ملک میں ذرہ بھی دشمن عناصر سے ملی ہوں
    یہ تحریک کس صورت میں بھی ہوسکتی ہے (لسانی مذہبی یا سیکولریشن میں ہوں)وغیرہ
    فوج ان کی دشمن ہے یہ بات ہر کس کو معلوم ہونی چاہیے
    فوج کے ہر سپاہی نے اس ملک کی حفاظت کے لیے حلف اٹھایا ہے
    میں صرف اتنا جانتا ہوں فوج کے خلاف جہاد کرنا شرعی نہیں ہے
    کیونکہ یہ مسلم ہیں
    چند لوگوں کی خراب پالیسیوں وجہ سے فوج خراب نہیں ہوسکتی
    وضاحت اگر کسی کو غلط لگے توناراض نہ ہوں یہ میری ذاتی اپنی رائے ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ نے کہا ہے: ↑ کہ "وضاحت اگر کسی کو غلط لگے توناراض نہ ہوں یہ میر ذاتی اپنی رائے ہے"
      محترم بھائی اس میں وضاحت کی کیا ضرورت ہے ہم سب اپنی رائے ہی تو دیتے ہیں تاکہ ہماری اصلاح یا اگلے کی اصلاح ہو سکے اللہ آپ کو لوگوں کی اصلاح پر حریص ہونے پر اجر عظیم عطا فرمائے امین
      آپ کی اوپر والی بات کی وجہ سے میں آپ کی ایک ایک بات پر اپنی رائے بھی دے دیتا ہوں آپ اصلاح کر دیں اللہ جزا دے امین

      آپ نے کہا ہے:
      "کچھ حقائق ہیں مگر فوج اور لال مسجد والوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا دین کا غالبہ حکمت اور نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق ہونا چاہیے اس طرح نہیں جس طرح لال مسجد والوں نے کیا ظلم پر مبنی ہے کیونکہ یہ اسلاف کا طریقہ نہیں تھا"

      محترم بھائی آپ نے دین کے غلبے کے لئے حکمت والی بڑی اچھی بات کی ہے اور یہی میں نے اوپر بتایا ہےکہ یہیں سے ہماری جماعت کا راستہ شیخ عیسی سے جدا ہو جاتا ہے البتہ دین کے غلبہ کے لئے لال مسجد والوں کے عمل کو ظلم کی بجائے اجتہادی غلطی سمجھتا ہوں

      آپ نے کہا: "اس طرح ہمارے صدر کی بھی غلطی تھی کیونکہ یہ لوگ مکمل ناکے میں تھے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جاسکتے تھے مگر اس وقت کی قیادت نے جلد بازی کی تھی اور معصوم لوگ کے قتل کے ذمہ دار ہیں"۔

      یہ بات بھی آپ کی سو فیصد ٹھیک ہے البتہ صدرصاحب کے نزدیک وہ معصوم نہیں تھے اور میرے نزدیک اجتہادی غلطی پر تھے


      آپ نے کہا : "میں صرف اتنا جانتا ہوں فوج کے خلاف جہاد کرنا شرعی نہیں ہے کیونکہ یہ مسلم ہیں چند لوگوں کی خراب پالیسیوں وجہ سے فوج خراب نہیں ہوسکتی"۔

      اس کے پہلے جملے پر میں آپ سے متفق ہوں کہ فوج کے خلاف جہاد شرعیت کے تمام اصولوں کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو غلط ہے جیسا کہ ہمارے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کا بھی اسی پر فتوی ہے البتہ شیخ صاحب نے اس کے لئے آپ کے دوسرے جملے والی دلیل کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنے فتوی میں دوسرے دلائل کا سہارا لیا ہے اور غالبا وہ فتوی اس فورم پر بھی موجود ہے کیونکہ کچھ لوگوں کو اختلاف ہے کہ جیسے آپ نے اوپر بتایا ہے کہ وہ وطن کے لئے سب کچھ کرتے ہیں یعنی سب سے پہلے پاکستان ہوتا ہے تو اس وجہ سے کچھ لوگ اختلاف کرتے ہیں واللہ اعلم

      حذف کریں
  31. گندگی اور بے راہ روی ہر معاشرے میں ہوتی ہے مگر کسی تنظیم یا جماعت کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ اصلاح کی خاطر قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں ؟ اسلام اگر ڈنڈے کے زور پر رائج ہوتا تو اسوۃ رسول ۖ سے ثابت ہوتا -

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. محترم بھائی اوپر یہی بحث ہو رہی ہے کہ جامعہ حفصہ والوں کا کام شریعت کے مطابق ٹھیک نہیں تھا اور اس میں محترم عبد القیوم بھائی کی تمام باتوں سے میں نے اتفاق کیا ہے صرف ایک بات سے اختلاف تھا کہ ہمارے شیخ امین اللہ پشاوری کے مطابق اسکی وجہ کچھ اور ہے
      اب محترم بھائی آپ نے بھی ایک ایسی بات مطلقا لکھی ہے کہ جس سے میں اتفاق نہیں کرتا
      آپ کی رائے
      اصلاح یا اسلام کی خاطر کوئی بھی ڈنڈا استعمال نہیں کر سکتا خاص طور پر اسلام یا اصلاح کے لئے قانون کو تو بالکل ہاتھ میں نہیں لے سکتے
      میری رائے
      سلف میں سے اور اس فورم پر موجود کوئی بھی اہل علم آپ کی اس طرح مطلقا بات سے اتفاق نہیں کرے گا کیونکہ مطلقا تو قرآن و حدیث اور نبی اکرم کی سنت سے متفقہ طور پر یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق ڈنڈا استعمال کریں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تو مقصد ہی یہی تھا کہ لیظھرہ علی الدین کلہ
      البتہ جامعہ حفصہ کے واقعہ میں جو مسئلہ ہے وہ استطاعت نہ ہونے کا ہو سکتا ہے یا پھر مصلحت اور اس سے پیدا شدہ مفسدہ کا موازنہ غلط کرنے کا-
      یہاں وضعی قانون کے مقدس ہونے کی وجہ سے ان کا عمل غلط کوئی بھی اہل علم نہیں کہتا- میرے خیال میں تو اس سے بھی کوئی عالم اختلاف نہیں کرے گا کہ صاحب استطاعت اگر استطاعت کے باوجود وضعی قانون توڑنا ناجائز سمجھے تو وہ مسلمان ہی نہیں رہتا تو قانون تو ہمارے جوتے کہ نوک پر ہوتا اگر ہماری طاقت ہوتی

      حذف کریں
    2. میں اپنی رائے کی تشریح کردیتا ہوں - دیکھیئے اگر کوئی شخص پاکستان میں اصلاح کے لئے تو وضعی قانون توڑنے پر راضی ہے مگر کسی اور ملک میں (چاہے وہ مشرق وسطی ہو یا مغرب) قانون کا احترام کرتا ہے تو یہ اس کی منافقت ہے - اور اس عمل میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شامل ہیں -
      آنحضرت ۖ نے مکہ میں بارہ سال دعوت و اصلاح کا کام کیا مگر صرف قول وعمل کے ذریعے سے ؛ قانون شکنی نہیں کی - پھر اپنی ریاست قائم کی اور اپنے قانون وضع کئے اور ان کا اطلاق بطور نرمی اور بزور طاقت فرمایا -
      عاملین لال مسجد اور ان کے مقلدین اپنے مدرسے اور اپنی قیام گاہوں کے ذمہ دار ہیں لہذا وہ وہاں تو ڈنڈا استعمال کرسکتے ہیں مگر ریاستی معاملات میں مداخلت میں انہیں تدبیر سے کام لینا چاہئیے - میری رائے میں اگر ایک شخص مملکت غیر میں قانون شکنی کی استطاعت نہیں رکھتا اسے یہاں بھی قانون کی پاسداری کرنی چائیے کیونکہ ڈنڈا برداری فقط درون عمل داری -

      حذف کریں
    3. محترم بھائی آپ نے پہلے بغیر تشریح کے بات مطلقا بات لکھی تھی اسلئے میں نے تدبیر اختیار کرنے کا ذکر کیا تھا اب کی پوسٹ کا نچوڑ بھی یہی تدبیر کی بات ہے جو جامعہ حفصہ والوں نے اختیار نہیں کی باقی یہاں کا یا غیر کا قانون بذات خود کسی بھی عالم کے لئے مقدس یا اس کو توڑنا گناہ نہیں مثلا یہی قانون پاکستان بننے سے پہلے جب تھا تو انگریز کو قانون کہلاتا تھا اور اس وقت اسی قانون کو غازی علم دین نے توڑا تھا جس کے توڑنے کی حمایت علامہ اقبال اور قائد اعظم نے بھی کی تھی پس آج اس قانون کے مقدس نہ ہونے پر ہم علماء کے علاوہ سیکولر لوگوں کو بھی علامہ اقبال اور قائد اعظم کی بات سے دلائل دے کر منوا سکتے ہیں
      اللہ آپ کو تشریح کرنے پر اجر عطا فرمائے اور ہم سب کو اصلاح کے ساتھ ساتھ اس سے پیدا ہونے والے مفسدہ کا بھی صحیح ادراک عطا فرمائے امین

      حذف کریں
    4. مضمون موجودہ دہشت گردی اور جہاد کے تناظر میں ہے مگر اس مضمون میں میرے خیال میں سوکھے کے ساتھ گیلے کو بھی جلانے کی کوشش کی گئی ہے
      اللہ تعالی نے ہر طرح کے غلو سے منع فرمایا چاہے یہودیوں کی طرح عیسی علیہ السلام کو نعوذ باللہ ولد الزنا کہ کر (انکی شان گھٹا کر) ہو یا عیسائیوں کی طرح نعوذ باللہ خدا کہ کر (شان بڑھا کر) ہو اسی طرح پاؤں سے پاؤں ملانے والے غلو کرتے ہیں یعنی کوئی اتنا کھول دیتے ہیں کہ کندھے نہیں مل سکتے اور کوئی اتنا اکٹھے کر لیتے ہیں کہ مضحکہ خیز ہی ہو جاتا ہے
      یہاں بھی دہشت گردی کو رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے اور ہماری جماعت الدعوۃ اور قاضی حسین احمد وغیرہ کو بھی رگڑنے کی کوشش ہوئی ہے حتی کہ بہت سے حقائق کا انکار کر دیا گیا
      اللہ اگر کہے کہ والفتنۃ اشد من القتل تو اسکو ہماری عقل نہیں مانتی اور ہم سمعنا و عصینا کہ دیتے ہیں مگر امریکہ کہے کہ فتنہ افغانستان میں ہے ان پر ڈرون مارنا حلال ہے اور یہ افغان تفنہ افغانیوں کے قتل سے زیادہ شدید ہے تو ہم سمعنا و اطعنا کہ دیتے ہیں
      اصل میں ہم اہل سنت معتزلہ کی طرح عقل کو مقدم نہیں رکھتے بلکہ وحی کو مقدم رکھتے ہیں البتہ عقل کا انکار نہیں کیونکہ اللہ نے قرآن میں بار بار عقل کے استعمال کرنے والوں کو ہی کامیاب کہا ہے مگر یاد رکھیں اکثر معاملات میں واقعی ایسا ہے کہ عقل اور وحی میں اختلاف نہیں ہوتا مگر انتہائی چند معاملات میں ہماری عقل عاجز آ جاتی ہے پھر ہمیں عقل کو چھوڑ کر وحی کو ہی ماننا پڑتا ہے
      مثلا وحی نے چودہ سو سال پہلے بتایا تھا کہ کل فی فلک یسبحون کے تحت ہر چیز اپنے مدار میں حرکت کر رہی ہے مگر قدیم یونانیوں کا عقل کے تحت یہ عقیدہ تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج گھوم رہا ہے پھر عقل نے ترقی کی اور زمین کی گردش اور سورج کا سکون سمجھ لیا پھر آجکل سورج کی بھی کہکشاں میں گردش مان لی گئی ہے حتی کہ گلیکسی کی بھی حرکت مان لی گئی ہے
      نوٹ: جامعہ حفصہ کے تناظر میں فتنے کا خاتمہ اور قتل کا موازنہ کرنے میں مصلحت (یعنی پیدا شدہ مفسدہ) کو دیکھنا ایک علیحدہ موضوع ہے

      حذف کریں