سرمایہ دار اور امیر آدمی میں ایک بڑا باریک سا فرق ہوتا
ھے۔
اس کے پاس صرف نت نئے پراجیکٹ شروع کرنے کی ہمت ھونی چاھئے۔
یعنی رسک لینے کی قابلیت۔اسی لیے انگریزی میں ایسے آدمی کو (Entrepreneur) بھی کہا جاتا ھے، جس کا لفظی مطلب رسک ٹیکر
ھوتا ھے۔
سرمایہ دارانہ نظام جس کو انگریز (Capitalism) کہتے ہیں،
زیادہ پرانا نہیں ھے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک
تمام دنیا کسی نہ کسی طرح زراعت سے منسلک تھی۔
دیہی معاشروں کی
ایک خصوصیت ھمیشہ رہی ھے کہ یہ روایات کے قیدی ھوتے ھیں اور بدعات یعنی نئے کاموں اور چیزوں سے پرے پرے ہی
رہتے ھیں۔ اور جب تک بدعات کا فائنل رزلٹ
نہ دیکھ لیں، ان میں نہیں پڑتے۔ اسی لیے اب بھی زرعی پیشے سے منسلک لوگ اس شعبے کی
یونیورسٹیوں میں ھونے والی نت نئی تحقیق
کی نسبت اپنے اور اپنے باپ دادا کے تجربات
اور زرعی علم پر زیادہ بھروسہ کرتے ھیں۔
پرانے زمانے کی زرعی معیشیتوں کے لوگ اپنی اسی روائتی سوچ
کے باعث اپنے مال کو تجارت میں لگانے یا
دوسروں کو ادھار دینے میں لیت لعل کرتے۔ اسی لیے مال ہانڈیوں میں بند کرکے زمینوں میں دبا دیا جاتا۔
اور اوپر گندا قالین بچھا کرساری زندگی پتلی دال کے
ساتھ روٹی کھائی جاتی۔
(جنوبی پنجاب میں ابھی بھی اسی قسم کا رواج ھے۔ ""بوڑھا" پیسے کے اوپر ساری زندگی سانپ بن کر بیٹھا رھتا ھے اور اس کی
اولاد اس کے مرتے ہی بندر بانٹ کر کےکچھ عرصے میں ہی سارے پیسے کو کھا پی جاتی ھے۔
شائد اسی کفائت شعاری کی عادات کی وجہ سے
جنوبی پنجاب میں عام رھن سہن، طرز تعمیر وغیرہ بہت سادہ بلکہ تقریباً غریبانہ ھے۔ یاد رھے
جنوبی پنجاب میں اکثریت کا معاش ابھی بھی کسی نہ کسی طرح زراعت سے منسلک ھے، اس
لیے زرعی نظام والی ذھنیت اور خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ھیں۔)
سرمایہ دارانہ نظام کا روائیتی زرعی معاشروں میں جڑیں پیدا
کرنا آسان نہیں تھا۔ لوگوں کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ زمینوں میں دبائے مال اپنے آپ سے جدا کریں اور اس کو دوسروں کو ادھار
دے کر سود کمائیں یا پھر نت نئی چیزوں پر خرچیں تاکہ پیداوار زیادہ ھو ، یہ سب آسان
نہیں تھا۔ کہ لوگ فطرتاً رسک لینے سے گھبراتے ھیں۔
شائد اسی لیے ان معاشروں میں مہاجن ایک مکمل
پیشہ تھا۔جو لوگوں کی چیزیں گروی رکھ کر ان کو اپنا مال ادھار دیتا اور سود
در سود کماتا تھا اور اسی سے ہی اپنی گزر بسر کرتا تھا۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس اپنا مال
ایک محدود مقدار میں ھوتا تھا، اس لیے یہ اس سے سود بھی بس اسی حد تک ہی کما سکتے تھے۔ اس لیے ہوس پرست لوگوں نے پیسہ کمانے کے نت نئے
آئیڈیاز تلاش کئے گئے۔ اور ان میں سے سب سے موثر آئیڈیا بینکنگ تھا ۔
بینکنگ ایک بہت سادہ سا کانسیپٹ تھا۔لوگ اپنی جمع پونجی
زمینوں میں دبانے کی بجائے بینک میں امانتاً جمع کرواتے۔اور بینک ان کو مختلف
کاروباروں/ضرورت مندوں میں انویسٹ کر
دیتا۔ اور ان سے آنے والے نفع /سود سے بینک اور لوگ دونوں فیض یاب ھوتے۔ چونکہ تمام کے
تمام کاروبار ایک ساتھ فیل ھونے اور تمام قرض خواہ ایک ساتھ بھاگ جانے کا چانس بہت کم تھا اس لیے لوگوں کو اپنے پیسے پر کچھ نہ کچھ منافع ملنا ہی تھا۔
اس چیز نے لوگوں کی رسک نہ لینے والی سوچ کو کچھ کچھ بدل دیا اور ان کو بھی ادھا پورا مہاجن بنا دیا۔
یہیں سے سرمایہ داری نظام کی بنیاد پڑی۔ جس میں لوگوں نے
اپنے پیسے کو اپنے پاس سنبھالنے کی بجائے کماؤ پوت بنا لیا اور مزید پیسہ بنانے کے
لیے گھر سے باہر روانہ کر دیا۔
بہترین سر ، بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔ ایسے ہی پوسٹتے رہیں ۔
جواب دیںحذف کریں