سین نمبر
ایک: سن دوھزار تین۔ موسٰی پاک ٹرین
شادا :
چودھری! ٹرین آوے تو ایویں کسی بوگی میں نہیں چڑھنا۔۔۔میرے پیچھے پیچھے آتا رھیں۔ بوگی مَیں سلیکٹ کروں گا۔۔۔
آھاھاھا ، ھائے اوئے چودھری، قسمے سواد آگیا، اج تے ٹرین وچ بہت پُونڈی اے۔۔۔
کہا تھا ناکہ ایسی بوگی میں بٹھاؤں گا کہ جنت کی حوریں بھول جائے گا۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
خبردار جوکسی خالی سیٹ پر بیٹھا۔ بوگی کے درمیان میں کھڑے ھو کر جائیں گے۔ بیٹھنے سے پُونڈی کا اینگل خراب ھوتا ھے۔ ۔۔
آھاھا ھا! چودھری۔۔! وہ سبز چادر والا پیس چیک کر ۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
لوگ گھور رھے ھیں تو گھورنے دے، یہ سارےخود پُونڈ ھیں، سڑنے دے ان بے غیرتوں کو۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
استاد! چیک کر۔ بچّی لفٹ کروا رہی ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
اگلے سٹیشن سے اور بھی رش بڑھے گا بوگی میں۔۔۔ خیال رکھیں کہ ھم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
چودھری، پینسل ھے؟ فون نمبر پکڑانا ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔ ۔۔۔
یہ ان بے غیرت لڑکوں کو اور کوئی جگہ نہیں ملی ؟ادھر ھمارے ساتھ کھڑے ھو گئے کمینے ! ۔۔۔
یار کُڑی ان کی وجہ سے اب اِدھر نہیں دیکھ رھی۔۔۔کمینے لوگ۔۔۔
او بھائی جان ، ذرا ھٹ کر اُدھر کھڑے ھوں، ھماری جگہ پر مت آئیں۔۔۔
کمینے لوگ، سارا کام خراب کر رھے ھیں۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
یار یہ کڑی تو اب ان کو لفٹ کروانے لگ گئی ھے۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
اوبھائی صاب، صاف صاف بتا رھا ھوں، یہ شوہدی حرکتیں یہاں نہیں چلیں گی۔ ۔۔۔
بندہ بن اوئے!! ماں بہن نہیں ھے تیرے گھر ؟۔ چڑھ جاتے ھو جینزیں کَس کے ٹرینوں پر۔ چلو دفعہ ھو جاو یہاں سے، ورنہ ٹانگیں توڑ دیں گے تمہاری، لڑکیاں تاڑتے ھیں بے غیرت لوگ!!۔۔۔
بالکل چاچا جی، ایہناں کمینے لوگاں دے نال ایہو ای کرنا چاھیدا اے، بے شرم لوگ، حیا نئیں آندی ایہناں نوں۔۔۔
۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔۔ھائے اوئے!!
اوکاڑے سے چڑھنے والا پیس چیک کر چودھری !!!!۔
۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔
چودھری! ٹرین آوے تو ایویں کسی بوگی میں نہیں چڑھنا۔۔۔میرے پیچھے پیچھے آتا رھیں۔ بوگی مَیں سلیکٹ کروں گا۔۔۔
آھاھاھا ، ھائے اوئے چودھری، قسمے سواد آگیا، اج تے ٹرین وچ بہت پُونڈی اے۔۔۔
کہا تھا ناکہ ایسی بوگی میں بٹھاؤں گا کہ جنت کی حوریں بھول جائے گا۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
خبردار جوکسی خالی سیٹ پر بیٹھا۔ بوگی کے درمیان میں کھڑے ھو کر جائیں گے۔ بیٹھنے سے پُونڈی کا اینگل خراب ھوتا ھے۔ ۔۔
آھاھا ھا! چودھری۔۔! وہ سبز چادر والا پیس چیک کر ۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
لوگ گھور رھے ھیں تو گھورنے دے، یہ سارےخود پُونڈ ھیں، سڑنے دے ان بے غیرتوں کو۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
استاد! چیک کر۔ بچّی لفٹ کروا رہی ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
اگلے سٹیشن سے اور بھی رش بڑھے گا بوگی میں۔۔۔ خیال رکھیں کہ ھم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
چودھری، پینسل ھے؟ فون نمبر پکڑانا ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔ ۔۔۔
یہ ان بے غیرت لڑکوں کو اور کوئی جگہ نہیں ملی ؟ادھر ھمارے ساتھ کھڑے ھو گئے کمینے ! ۔۔۔
یار کُڑی ان کی وجہ سے اب اِدھر نہیں دیکھ رھی۔۔۔کمینے لوگ۔۔۔
او بھائی جان ، ذرا ھٹ کر اُدھر کھڑے ھوں، ھماری جگہ پر مت آئیں۔۔۔
کمینے لوگ، سارا کام خراب کر رھے ھیں۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
یار یہ کڑی تو اب ان کو لفٹ کروانے لگ گئی ھے۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
اوبھائی صاب، صاف صاف بتا رھا ھوں، یہ شوہدی حرکتیں یہاں نہیں چلیں گی۔ ۔۔۔
بندہ بن اوئے!! ماں بہن نہیں ھے تیرے گھر ؟۔ چڑھ جاتے ھو جینزیں کَس کے ٹرینوں پر۔ چلو دفعہ ھو جاو یہاں سے، ورنہ ٹانگیں توڑ دیں گے تمہاری، لڑکیاں تاڑتے ھیں بے غیرت لوگ!!۔۔۔
بالکل چاچا جی، ایہناں کمینے لوگاں دے نال ایہو ای کرنا چاھیدا اے، بے شرم لوگ، حیا نئیں آندی ایہناں نوں۔۔۔
۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔۔ھائے اوئے!!
اوکاڑے سے چڑھنے والا پیس چیک کر چودھری !!!!۔
۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔
ــــــــــــــــــــــ
سین نمبر
دو: سن دو ھزار سات۔ میونسپل سٹیڈیم
شادا:
خیر مبارک ۔۔۔۔بس یار ابھی صبح آیا ھوں لاھور سسرال سے ۔۔۔۔
میں اور میری بیگم اکیلے ھی آئے ھیں ٹرین میں ۔۔۔۔
کیا بتاؤں ،موڈ سخت خراب ھے یار۔۔
نہیں وہ والی بات نہیں ۔۔۔
بس چودھری کیا بتاؤں۔لوگوں میں شرم حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی۔
ٹرین میں سارے بے غیرت شوہدے لوگ میری بیوی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئے۔۔۔
چودھری میرا دل کر رھا تھا کہ ان کی آنکھیں نکال دوں، بے غیرت بے شرم لوگ۔۔۔
میں نے تو بیوی کو کہ دیا ھے خبردار جو یہ فیشن ایبل بننے کی کوشش کی۔ بلکہ آئندہ اگر منہ ڈھکے بغیر گھر سے باہر نکلی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔۔۔
خیر مبارک ۔۔۔۔بس یار ابھی صبح آیا ھوں لاھور سسرال سے ۔۔۔۔
میں اور میری بیگم اکیلے ھی آئے ھیں ٹرین میں ۔۔۔۔
کیا بتاؤں ،موڈ سخت خراب ھے یار۔۔
نہیں وہ والی بات نہیں ۔۔۔
بس چودھری کیا بتاؤں۔لوگوں میں شرم حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی۔
ٹرین میں سارے بے غیرت شوہدے لوگ میری بیوی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئے۔۔۔
چودھری میرا دل کر رھا تھا کہ ان کی آنکھیں نکال دوں، بے غیرت بے شرم لوگ۔۔۔
میں نے تو بیوی کو کہ دیا ھے خبردار جو یہ فیشن ایبل بننے کی کوشش کی۔ بلکہ آئندہ اگر منہ ڈھکے بغیر گھر سے باہر نکلی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔۔۔
آپ نے زبردست عکاسی کی ہے ماحول کی
جواب دیںحذف کریںدرد اسی وقت ہوتا ہے جب خود پر چوٹ پڑے
واہ واہ جی، خوب نقشہ کھینچا ہے عمل اور مکافاتِ عمل کا۔
جواب دیںحذف کریںزبردست
جواب دیںحذف کریںایک دم فنٹاسٹک
میں ایویں سی ون تھرٹی کے چکروں میں پڑا رہتا ھوں
اگلا سفر ٹرین میں ہی کروں گا
ہی ہی ہی ہی ہی ھاھاھاھاھاھا
:D
پائن۔ سی ون تھرٹی میں تو عموماً لاشیں لے کے جاتے ھیں۔ وہ بھی جھنڈوں میں لپیٹ کر۔
حذف کریںبہت ہی اعلی ۔۔۔۔۔ اللہ سب کو پونڈی کے آفٹر افیکٹس سے بچائے ۔۔۔ ہی ہی ہی
جواب دیںحذف کریںاچھی نقشہ کشی ہے بھونڈوں کی
جواب دیںحذف کریںجیسے کو تیسا۔۔۔ یا۔۔۔ جیسا بوئے ویسا کاٹے۔۔۔۔ لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ پونڈی میں آخر ایسی کیا خاص بات ہے جو لوگ اس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ :)
جواب دیںحذف کریںنشے کی خصوصیات پر صرف نشئی حضرات ہی اندھیرا ڈال سکتے ھیں۔
حذف کریںاعلی ہے۔
جواب دیںحذف کریںعمدہ بات ہے، ہمارے معاشرے میں یہ چوول نظارے عام ہین
جواب دیںحذف کریںبہت خوب ۔۔مزا آیا پڑھ کر ۔۔۔اور خوشی بھی ہوئی کہ آپ بھی کھلے ڈلے لکھتے ہو
جواب دیںحذف کریںاس طرح کے پونڈوں سے اکثر زمانہ طالب علمی میں واسطہ پڑتا رہتا تھا لیکن پھر عادت پڑ گئ ان کے وجود کی ہیی سوچ کر کہ کنجروں کی اپنی ماں بہنیں نہیں ہیں نا
جواب دیںحذف کریں:)
اچھی تحریر ہے۔
جواب دیںحذف کریںخؤب مشاہدہ ہے بھیا:)
جواب دیںحذف کریںکسی بزرگ نے کہا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی
جواب دیںحذف کریںاپنی واری غیرت، تے اگلے دی واری بے غیرتی۔
ھاھاھا۔
گڈ جوک
ہمارے ایک استاد فرماتے تھے۔
جواب دیںحذف کریں"زیادہ بچیاں بچیاں مت کیا کرو۔ کل آپ کی بچی بھی کسی کی بچی ھوگی"