موری ارج سُنو دست گیر پیر
مائی ری، کہوں کاسے میں
اپنے جیا کی پیر
نیّا باندھو رے،
باندھو رے کنارِ دریا
مورے مندر اب کیوں نہیں آئے
اس صورت سے
عرض سناتے
درد بتاتے
نیّا کھیتے
مِنّت کرتے
رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمھاری
جس سے دُکھ کا دارُو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تُمھیں تھے
وہ تو تُمھیں تھے
فیض احمد فیض۔ نذرِ خُسرو
واہ فیض صاحب واہ
جواب دیںحذف کریں