میں اگلے ہی دن مولانا مودودی کے پاس پہنچ گیا۔ ایک عرصہ
گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے
کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا۔ "مولانا، ایک آرٹسٹ ہیں
عنایت حسین بھٹی، بہت اچھے اور مشہور گلوکار بھی ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں"۔۔۔ بستر
پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔"رات
کو لائیے گا" ۔۔۔"رات کو کیوں مولانا؟؟" ۔۔۔’’دن میں لائے تو لوگ کہیں
گے کہ اب مولانا سے ملنے کنجر بھی آتے ہیں؟؟؟‘‘
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شو بز کے ایک فری لانس جرنلسٹ نے ایک دن بتایا کہ اس نے
اپنے جریدے میں لیلٰی کا انٹر ویو چھاپا۔ وہ رسالے کی کاپیاں دینے اس کے گھر گیا تو
اس کی خوب آؤ بھگت کی گئی۔ واپسی کے لئے اٹھا تو لیلٰی نے پوچھا "پیسے لو گے
یا پیسے پورے کرو گے؟" میں سوچ میں پڑ گیا کہ نجانے کتنے لوگوں کے پیسے پورے کرانے
پڑتے ہوں گے اسے روزانہ ــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لوگ جن کے ساتھ راتیں بسر کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں، سہیل
وڑائچ انکے ساتھ دن گزارنے پر ہی اکتفا کر جاتا ہے۔
یہ سہیل وڑائچ کے انتہائی سادگی
سے سوال کرنے کا کمال ہے یا زارا اکبر کا کھلا پن کہ وہ پروگرام "ایک دن جیو کے ساتھ" میں
کہہ رہی تھی کہ ٹی وی ہو ، تھیٹر ہو یا فلم۔ عام طور پر نئی لڑکیوں سے کام دینے سے پہلے
ہر قسم کی ڈیمانڈز کی جاتی ہیں۔ لڑکیوں کو اپنے خوابوں کو تعبیر دینے اور کیرئیر بنانے کیلئے
سب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لڑکیاں اس فیلڈ میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور بہت ساری ڈیمانڈز
پوری کرنے کے باوجود اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔
زارا اکبر نے بلاجھجک اعتراف کیا
کہ اس کے ساتھ بھی یہ سب ہوا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمر کے آخری سالوں میں ان کی راتیں باری علیگ صاحب
کے پرانی انارکلی والے چوبارے اور مصطفی قریشی کے گھر بھی بسر ہوئیں، باری علیگ کا
یہ چوبارہ ان کے بڑے بیٹے مسعود باری کے تصرف میں تھا، ان کے چوبیس گھنٹے مہمانوں کو
ویلکم اور خدا حافظ کہنے میں گزرتے تھے۔
ایک بار جالب صاحب نے وہاں روزانہ جانا شروع
کر دیا، جالب صاحب جب پرانی انار کلی چوک میں پہنچتے تو وہاں پان شاپ پر ایک نوجوان
انکے استقبال کے لئے کھڑا ہوتا ، وہ جالب صاحب کو پان اور سگریٹ کی ڈبیہ دیتا، ان کا
بستہ ان ک بغل سے اپنے ہاتھ میں لیتا اور انہیں مسعود باری تک پہنچاتا، یہ معمول ایک
عرصے تک جاری رہا ، ہم سب اس کو جالب صاحب کا دیوانہ سمجھتے رہے۔
ایک دن کیا ہوا کہ
جالب صاحب اپنا بستہ خود بغل میں دبائے وہاں پہنچے ، ان کا دیوانہ ان کے پیچھے تھا،
وہ بہت غصے میں تھا اور بری طرح جالب صاحب کو گھور رہا تھا، جالب صاحب کے بھی ہوش اڑے
ہوئے تھے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ، بڑی مشکل سے اس نوجوان کو بولنے پر آمادہ کیا
گیا، باقی بات آپ اسی نوجوان کی زبانی سنئیے: "آپ لوگوں نے مجھے ان پڑھ سمجھا
ہواتھا، اور میرے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا تھا۔ ہاں! میں ان پڑھ ہوں مگر میری باجی نے
تو بی اے کیا ہوا ہے۔کل رات میں نے گھر میں ذکر کر دیا کہ آجکل "غالب صاحب"
کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں وہ تو میری باجی نے بتایا کہ غالب کو مرے ہوئے تو سو سال
سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں!!۔"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
انجمن مبین ملک کا عشق تھی، شادی ہوتے ہی سازشیں شروع ہو
گئیں، سونے کی چڑیا کے اڑ جانے سے انجمن کی فیملی بہت اپ سیٹ تھی، انجمن کے دونوں بھائی
ناصر اور ارشد سر توڑ کوششیں کرتے رہے کہ باجی واپس گھر آ جائے، اس حوالے سے بہت پلان
بنے، کئی بار انجمن ان کے شکنجے میں بھی آئی، انہی سازشوں کے باعث دونوں میاں بیوی
کے مابین لڑائی جھگڑے طول پکڑنے لگے،بات عدالتوں تک بھی پہنچی،ایک مقام ایسا آیا جب
مبین ملک نے انجمن کو طلاق دینے کاحتمی فیصلہ کر لیا۔
منور انجم ایک دن اسے میرے پاس
لے آیا، ان دونوں کے ساتھ ایک تیسرا بھی تھا، جسے میں نہیں جانتا تھا، منور انجم نے
مجھ سے کہا ، مبین انجمن کو طلاق دے رہا ہے، اسے سمجھاؤ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے
اس کے بطن سے. کیا یہ بیٹی کو انجمن اور اسکی فیملی کے کلچر کے سائے میں جوان کرے گا؟
دلیل بہت مضبوط تھی، میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے مبین ملک کی سرزنش بھی کی، مبین
ملک کہنے لگا میں تو یہ شادی کرکے خود آدھا کنجر بن گیا ہوں، میں باہر بیٹھا ہوتا ہوں
اور اندر کمرے میں اس کے ساتھ عاطف چوہدری اور شاہد میو جیسے بدمعاش رنگ رلیاں منا
رہے ہوتے ہیں، یہ سب شادی سے پہلے بھی وہ کرتی تھی، میرے اس جواب پر منور انجم اور
مبین ملک کے ساتھ آنے والا بھڑک اٹھا، "آپ ایک کنجری کی وکالت کر رہے ہیں۔۔ آپ کو کیا
پتہ کہ کنجری کی فطرت کیا ہوتی ہے؟ آپ کو یہ پتہ ہے کہ کنجری کبھی وفا نہیں کرتی؟"
میں
اس کے لہجے اور انداز گفتگو پر حیران ہوا، مبین، تمہارے ساتھ آنے والا یہ کون ہے، تم
نے تعارف نہیں کرایا؟ مبین بولا، "یہ ارشد ہے، انجمن کا بھائی!!!!"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
منیر نیازی صاحب میرے بیٹے کی پہلی سالگرہ میں شریک ہوئے تو ٹرپل ایس سسٹرز کے بھائی خلیل احمد نے پہلی بار ان کی اجازت سے کسی محفل میں اپنی آواز کا جادو دکھایا ، اس کے چند مہینوں بعد اس کی غزل بہت پاپولر ہوئی "--کپڑے بدل کے جاؤں کہاں --"،نیازی صاحب نے خلیل کو داد اس کی ایک ایس(سسٹر) کو گلے لگا کر دی۔۔۔
نرگس نے کئی سال پہلے فیروز پور روڈ اچھرے والا شمع سینما
ٹھیکے پر لیا اور سٹیج ڈرامے پروڈیوس کرنے لگی ، جب بھی ملتی تھیٹر دیکھنے کی دعوت
دیتی کئی ماہ بعد رات گیارہ بجے کے قریب شمع سینما والی سڑک سے گزر ہوا تو یہ سوچ کر
گاڑی روک لی کہ چلو آج تھوڑا سا ڈرامہ ہی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔۔ اس وقت وہاں کوئی آدمی
موجود نہ تھا ، تمام لائٹس بند تھیں ، داخلی دروازے پر ایک دربان کھڑا تھا، میں نے
دربان سے سوال کیا کہ کیا آج ڈرامہ نہیں ہو رہا ،؟ اس نے بتایاکہ ڈرامہ تو آدھا ختم
بھی ہو چکا ، میرے کہنے پر وہ اندر گیا اور داخلے کی اجازت لے آیا۔
سینما ہال کے تمام
دروازوں پر بڑے بڑے تالے لگے ہوئے تھے، مجھے چور دروازے سے ایک چھوٹے سے کیبن میں لیجایا
گیا ، جہاں سے اسٹیج اور ہال کو دیکھا جا سکتا تھا ، اس وقت نرگس کسی گانے پر پرفارم
کر رہی تھی، کیبن میں نرگس کی ماں اور باپ اسٹیج پر نظریں جمائے بیٹھے تھے، ہال تماش
بینوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ، مجھے بھی ایک کرسی پیش کی گئی ، گانا ختم ہوا اور
نرگس اسٹیج سے آؤٹ ہو گئی۔ چند ہی لمحوں بعد وہ تیزی سے ہمارے والے کیبن میں آئی اور
واش روم میں گھس گئی۔اس کے پیچھے تیزی سے ایک آدمی بھی کیبن میں داخل ہوا اور سانس
لئے بغیر نرگس کے باپ سے مخاطب ہوا۔ "ابا جی۔ ابا جی۔ دیکھیں ، اب لوگوں کا
موڈ بنا ہے اور یہ کہہ رہی ہے اور ڈانس نہیں کرے گی؟؟"
یہ تھا ، نرگس کا خاوند۔
یہ تھا ، نرگس کا خاوند۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سن 1992 میں میرا تبادلہ جنگ لندن
میں ہو گیا تو وہاں اطلاع ملی کہ جالب صاحب بہت بیمار ہو گئے ہیں، بیماری بڑھ گئی تو
جنگ گروپ نے بیرون ملک علاج کی ذمے داری لے لی اور انہیں کرامویل اسپتال لندن پہنچا
دیا گیا، میری رات سات بجے تک ڈیوٹی ہوتی تھی ، چھٹی کے بعد اکثر جالب صاحب کی عیادت
کو پہنچ جاتا، ایک دن جالب صاحب نے کچھ پینے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے ان کے ڈاکٹر
سے بات کی ، ڈاکٹر نے ایک ڈبہ بئیر کی اجازت دیدی۔۔۔۔
ایک روز دوپہر کے قریب کوئی پاکستانی
صاحب مجھ سے ملنے آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں حبیب بنک کے سربراہ ہیں اور
مجھ سے دریافت کرنے آئے ہیں کہ لندن میں کوئی پرابلم تو نہیں؟ اور ان کے لئے کوئی خدمت
ہو تو بتا سکتا ہوں اسی دوران کرامویل اسپتال سے میرے لئے ارجنٹ کال آئی، کال کرنے
والا کوئی گورا ڈاکٹر تھا، اس کا کہنا تھا کہ جالب صاحب کو ایک اٹینڈنٹ کی ضرورت ہے
اور ان کا اصرار ہے کہ آپ ان کے پاس ہوں میں نے "اوکے" کہہ کر فون بند کیا تو ایک
خیال میرے دماغ میں کوندا۔ کیوں نہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے مہمان کو جالب صاحب کے پاس بھجوا
دوں؟ میں نے حبیب بنک کے اس سربراہ سے کہا،، مجھے تو ابھی آپ کی مدد کی ضرورت پڑ گئی،
وہ صاحب ہمہ تن گوش ہوئے، آپ مہربانی فرما کر کرامویل اسپتال چلے جائیں ، وہاں جالب
صاحب کو میرے وہاں آنے تک کمپنی دیٕں، وہ صاحب رضامندی ظاہر کرکے میرے افس سے چلے گئے۔
رات سات بجے کاپی پریس میں بھجوانے کے بعد میں ٹیوب میں بیٹھ کر اسپتال پہنچ گیا ،
جالب صاحب کا روم دوسرے فلور پر تھا، لفٹ جب اس فلور پر رکتی تو بائیں جانب یہ پورا
کمرہ نظر آجاتا ، میں نے لفٹ سے اترتے ہی دیکھا کہ میرا بھجوایا ہوا آدمی کرسی پر بیٹھا
ہے، وہ جونہی میرے استقبال کے لئے کرسی سے اٹھا ، میں کمرے میں داخل ہو گیا، بستر پر
پڑے جالب صاحب اس شخص کی جانب منہ کئے پوری طاقت سے چلا رہے تھے۔ "اوئے بھین (سنسر) تو
بار بار کیوں کھڑا ہو جاتا ہےِ؟ تو آرام سے بیٹھ نہیں سکتا" اس کے بعد ایک گالی اور۔
وہ آدمی پھر کبھی مجھے نہیں ملا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تین چار دہائیاں پہلے تک طول و ارض سے لوگ اپنی فلمی
محبوباؤں کی ایک جھلک دیکھنے نگار خانوں کے باہر کھڑے ہوا کرتے تھے، نگار خانوں کے
چوکیدار اور ملازمین رشوت لے کر ان عاشقوں کو ان کی محبوب ایکٹرسوں کی ایک جھلک دکھلا
دیا کرتےتھے ، ان فلمی محبوباؤں میں رانی نے بھی لاکھوں دلوں پر کئی سال راج کیا، حسن
طارق کی فلموں میں رانی کے ڈانسز نے اس کے مداحوں کو بہت متاثر کیا، رانی کا ایک ایک
پوز ایک ایک انگ دوسری ہمعصر ایکٹرسوں کے پورے پورے ڈانسز پر بھاری ہوتا، طوائف کے
کرداروں نے تو رانی کو دل کی رانی بنا دیا،حالانکہ اس کا تعلق مزنگ کے ایک انتہائی
شریف اور غریب گھر سے تھا، اس کاباپ مختار بیگم کا ڈرائیور تھا،غریب ڈرائیور نے اپنی
بیٹی اچھی تربیت کی خواہش میں مختار بیگم کی جھولی میں ڈال دی تھی، رانی طبلے سارنگیوں
کے سائے میں جوان ہوئی، اسے بہترین اساتذہ نے رقص کی تعلیم دی، فلم نگر میں آئی تو
منحوس قرار پائی لیکن پھر قدم ایسے جمے کہ لوگ عش عش کر اٹھے، حسن طارق سمیت تین چار
خاوند بھگتانے اور ایک بیٹی کی ماں بن جانے کے باوجود رانی کے چاہنے والوں کی تعداد
کم نہ ہوئی۔
ایک دن رانی کا ایک عاشق باری اسٹوڈیو کے گیٹ پر پہنچا، کئی گھنٹوں کی
خواری کے بعد اسٹوڈیو کے ایک ملازم نے مٹھی گرم کرکے اسے رانی کی ایک جھلک دکھانے کی
حامی بھری اور اسٹوڈیو کے اندر لے گیا، ایک فلور پر مظہر شاہ کی ذاتی فلم "محرم
دل دا" کی شوٹنگ ہو رہی تھی، رانی سیٹ پر موجود تھی، اسٹوڈیو ملازم پروڈکشن مینجر کا ترلہ کرکےرانی کے اس عاشق کو سیٹ
پر لے گیا، اگلے شاٹ کی تیاری ہو رہی تھی۔ رانی ایک ہاتھ میں شیشہ پکڑے فلور کے ایک
کونے میں کھڑی تھی ، اس کا پرستار بت بنا اسے دیکھ رہا تھا. اچانک رانی نے بائیں ہاتھ
کی انگلی ناک میں ڈالی۔ سکتے میں کھڑے اس کے پرستار نے اسٹوڈیو ملازم کی جانب منہ کرکے
زوردار چیخ ماری۔ "بھائی جی، رانی بھی ناک سے چوہے نکالتی ہے؟؟"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک دن عجب تماشہ ہوا ، الطاف خان اچانک ہاتھ جوڑے،
منتیں کرتے ہمارے صحن میں گھس آیا، اس سے پہلے وہ کبھی ہمارے گھر نہیں آیا تھا،،بہت
خوفزدہ تھا وہ اس وقت ، باہر گلی میں شور تھا، وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ مالک مکان گھرخالی
کرانے آ گیا ہے ۔ پچھلے تین ماہ کا کرایہ مانگ رہا ہے، میں اس کی مدد کروں اور اسے
کچھ دنوں کی مہلت دلا دوں ، الطاف خان کے مالک مکان کی اسی علاقے میں پرچون کی دکان
تھی ،میں نے گلی میں جا کر اس سے بات کی ،، اس کا کہنا تھا کہ وہ تین ماہ کا کرایہ
معاف کرتا ہے ، یہ آج ہی مکان خالی کر دے میں نے چند دنوں کی مہلت کے لئے کہا تو مالک
مکان نے کہا تو پھر آپ پچھلا کرایہ ادا کر دیں۔ میں نے ایک ماہ کا کرایہ ادا کرکے الطاف
خان کو دو ہفتوں کی مہلت دلا دی، الطاف دو ہفتوں سے پہلے ہی مکان چھوڑ کر کہیں اور
چلا گیا۔
کئی دنوں کے بعد اس کی بیٹی اور بیٹا میرے پاس آئے اور انکشاف کیا کہ ان
کا باپ انہیں دوسرے کرائے کے مکان میں لے گیا تھا، پہلے دن انہوں نے نئے گھر میں بازار
سے آنے والا کھانا ایک ساتھ کھایا، باپ اسٹوڈیو چلا گیا، پھر واپس نہیں آیا، بچوں کو
کھانا نئے گھر کی مالک خاتون کھلا رہی تھی۔ ہفتے سے زیادہ دن گزر گئے تھے، بچوں نے
تینوں اسٹوڈیوز کے کئی چکر کاٹے۔ اس کا کوئی پتہ نہ چل رہا تھا،اس کی تلاش کے لئے میڈیا
کی مدد لی گئی ، الیکٹرانک میڈیا نے رپورٹس چلائیں ، سب بے سود ، بچوں کو ان کا ماموں
لے گیا جو خود ایک کمرے کے گھر میں بیوی اور کئی بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا، کئی ھفتے
گزر گئے الطاف خان کو لا پتہ ہوئے ، میں خود بھی ہر کوشش کر رہا تھا۔
ایک دن مجھے اطلاع
ملی کہ وہ ملتان میں ہے، ایک سینما ہاؤس میں ہونے والے اسٹیج ڈرامے میں کام کر رہا
ہے، اور رات کو وہیں سو جاتا ہے، اس کے دونوں بچے اسے لینے گئے، میں نے ڈرامے کے پروڈیوسر
کے موبائل پر خود بھی اس سے بات کی، وہ واپس آنے کو تیار ہوا نہ بچوں کو اپنے پاس رکھنے
پر۔الطاف خان نے مجھے بتایا کہ اس کی بیٹی نے اس سے کہا تھا کہ آپ تو ہمیں دو وقت کی
روٹی بھی پوری نہیں کھلا سکتے ، لہذا اس کو اجازت دیدیں فلموں میں کام کرنے کی باپ
سے ملاقات کے بعد دونوں بچے اپنے ماموں کے ساتھ آخری بار مجھ سے ملے تو الطاف خان کی
صبح کی طرح اُجلی بیٹی نے مجھے علیحدگی میں لے جا کر کہا "آپ کا کوئی جاننے والا
ہے،جو مجھے رکھیل رکھ لے، میں اپنے بھائی کو پڑھانا چاہتی ہوں"۔ میری آنکھیں یہ
سوال سن کر مارے شرم کے زمین میں گڑ گئیں، دماغ سن ہو گیا،، میرے پاس کوئی جواب نہیں
تھا اس کے اس سوال کا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بےنظیر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ریٹائرڈ جنرل ٹکا
خان کو پنجاب کا گورنر بنا دیا، لاہور کے قربانیاں دینے والے صحافیوں میں جنرل ٹکا
خان کے بارے میں بد گمانیاں پیدا ہونے لگیں، اس وقت میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا
صدر منتخب ہو چکا تھا اور جنرل سیکرٹری تھے روزنامہ مشرق کے سینئیر سب ایڈیٹر محمد
الیاس مغل، ایک انتہائی ایماندار، شریف النفس اور کمٹڈ آدمی۔لاہور کے صحافی گلہ کر
رہے تھے کہ گورنر ہاؤس میں ہونے والی تقاریب میں اب بھی جنرل ضیاء کے گماشتہ صحافیوں
کو مدعو کیا جا رہا ہے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے جرنلسٹوں کو نظر
انداز کیا جا رہا ہے جو ان کی توہین کے مترادف ہے، بات تو درست تھی ان کی۔میں نے الیاس
مغل سے کہا کہ جنرل ٹکا خان سے ملتے ہیں۔
ہم دونوں اگلے روز گورنر ہاؤس کے ایک کمرے
میں بیٹھے تھے، تھوڑے سے انتظار کے بعد جنرل صاحب تشریف لے آئے، سلام دعا کے بعد میں
نے بلا توفق ان کے سامنے مدعا بیان کر دیا، میری بات مکمل ہونے تک ٹکا خان ہمہ تن گوش
رہے، چند لمحے کچھ سوچا اور پھر یوں گویا ہوئے "ہاشمی صاحب، آپ کے خیال میں ، ضیاء
الحق بے وقوف آدمی تھا یا آپ مجھے الو کا پٹھا سمجھتے ہیں؟ جن صحافیوں کے ساتھ جنرل
ضیاء نے گیارہ برس کامیابی سے حکومت کی وہ زیادہ اہم ہیں یا آپ کے ساتھ صحافی؟"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسال پہلے میں صرف تیرہ برس کی تھی ، محلے کے دو لڑکے مجھ
سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے، ماں کو پتہ تھا لیکن وہ ان اوباشوں کا کچھ نہیں کر سکتی تھی
، ماں نے مجھے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ اس کا تذکرہ اپنے اکلوتے بڑے بھائی سے نہ
کروں ، وہی بھائی ہمارا کفیل تھا ، اس دن میں اسکول سے گھر آ رہی کہ ان دونوں محلےدار
لڑکوں نے میرا راستہ روک لیا، مجھے اتنا تنگ کیا کہ میں رو پڑی، روروتے روتے گھر پہنچی
تو بھائی خلاف توقع گھر موجود تھا، اس نے میرے رونے کا سبب پوچھا، میں نے سب بتا دیا،
بھائی غصے میں باہر کی جانب بھاگا، چند ہی منٹ بعد ہمیں اطلاع مل گئی کہ اس نے ایک
اوباش کو چھریاں مار کر قتل کر دیا جبکہ دوسرا بھاگ گیاتھا۔۔۔
بھائی گرفتار ہو گیا
اور چند ماہ بعد ہی اسے سزائے موت سنادی گئی، ہمارے پاس کچھ نہ تھا ، ہم کسی کو وکیل
بھی نہ کر سکے ، سزائے موت کے بعد بھائی کو ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا، ہم اس قابل
ہی نہ تھے کہ اس سے ملاقات کے لئے ساہیوال جا سکتے ، ایک نیک دل نے مشورہ دیا کہ چھوٹی
عدالت میں درخواست دیں کہ بھائی کو لاہور کی جیل میں منتقل کر دیا جائے ، کسی سے عرضی
لکھوائی اور ہم ماں بیٹی کچہری پہنچ گئیں ، وہاں کالے کوٹ پہنے بہت سے لوگ مجھے گھور
رہے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ یہ وکیل ہوتے ہیں ، ایک کالے کوٹ والے نے میری ماں سے
پوچھ ہی لیا کہ مائی ، کیا معاملہ ہے؟؟ ، وہ باتیں میری ماں سے کر رہا تھا اور نظریں
مجھ پر تھیں، بڑی ہمدردی دکھائی اس نے ، مفت کیس لڑنے کا وعدہ کیا، روٹی بھی کھلائی،
اس وکیل نے ہمارے گھر آنا جانا شروع کر دیا ،
میں تھی تو تیرہ برس کی ، لیکن جانتی
سب تھی۔ وہ دن بھی آگیا ، جب وکیل نے بتایا کہ کیس لگ گیا ہے اور کل پہلی تاریخ ہے،
ہم ماں بیٹیاں وکیل کے ساتھ عدالت میں کھڑی تھیں،، جج نے کئی بار مجھے گھورا، پھر میں
بھی اسے رسپانس دینے کے لئے تیا ہوگئی، اب اس نے مجھے گھورا تو میں نے اسے آنکھ مار
دی، جج اٹھ کر پچھلے کمرے میں چلا گیا؟ ایک دو ’’ پیشیاں ‘‘ ہوئیں اور بھائی ساہیوال
سے لاہور جیل واپس آ گیا،، ماں جاتی ہے اس سے ملنے ،، اس نے ماں کو سختی سے کہہ رکھا
ہے کہ مجھے جیل نہ لایا کرے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
داتا دربار بازار کے قریب فٹ پاتھ پر ایک طوطا فال نکالنے
والا بیٹھتا ہے ، ہم کئی دن اس کی روزانہ کمائی کا مشاہدہ کرتے رہے، وہ رات کو ستر
اسی روپے گھر لے کر جاتا۔ اس کی آمدن دو ڈھائی ہزار ماہانہ سے کم نہ تھی۔ ( اس دور میں
اخبارات کے سینئر صحافیوں کی ماہانہ تنخواہ چار سو روپے سے زیادہ نہ تھی)۔ ہم نے اس
کے پاس بیٹھنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ دوستی کر لی۔ طوطا فال نکالنے والے نے ان
دونوں کو بتایا کہ اس کے بچے مہنگے انگلش اسکول میں پڑھ رہے ہیں، یہ انکشاف سامنے آتے
ہی ہم نے "اپنا منصوبہ" تشکیل دیدیا۔
طوطا فال نکالنے والے کو ہم نے سمجھانا شروع
کیا، چاچا جب تمہارے بچے اعلی تعلیم حاصل کرکے بڑے آدمی بن جائیں گے تو دنیا کو اپنے
باپ کے بارے میں کیا بتایا کریں گے، کیا وہ لوگوں سے کہا کریں گے کہ ان کا باپ زمین
پر بیٹھ کر طوطا فال نکالا کرتا تھا؟ فال نکالنے والا ڈر گیا، اس نے تو اس پہلو پر
کبھی سوچا ہی نہ تھا، گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ہم نے اس کی مدد کا وعدہ کیا،
دو دن بعد پھر اس کے پاس پہنچ گئے, چاچا مبارک ہو تمہارا مسلہ حل ہو گیا ہے، ایک افسر
نے وعدہ کیا ہے کہ تمہیں سرکاری ٹھیکیداری کا لائسنس بنا دے گا، تم ایک اور کمائی بھی
شروع کر سکو گے اور گھر کے باہر اپنے نام کے ساتھ ٹھیکیدار لکھ کر نیم پلیٹ بھی لگا
سکو گے، تمہارے محلے دار اور رشتے دار تمہاری بہت عزت بھی کیا کریں گے، افسر کو رشوت
دینے کے لئے طوطا فال والے سے دس ہزار روپے ہتھیا لئے گئے ۔
پھر ہم نے اسے پہلا ٹھیکہ
بھی دلا دیا ، دوہزار رشوت کے عوض، اسے مینار پاکستان پر رنگ روغن(سفیدی) کرنے کا ٹھیکہ
دیا گیا اور یہ بھی بتایا اسے کہ تم وہاں کام شروع کراؤ، سرکار ایک ہفتے بعد ٹھیکے
کی پہلی قسط ادا کر دے گی۔ طوطا فال نکالنے والا ایک ریہڑے پر سامان لادے مینار پاکستان
پہنچ گیا، اس کے ساتھ آٹھ دس کاریگر بھی تھے، جب ریہڑے سے سامان اترنا شروع ہوا تو
مینار پاکستان کے سارے چوکیدار جمع ہو گئے۔ "یہ کیا اتار رہے ہو یہاں؟؟" --"جی سفیدی کرنے
کا ٹھیکہ ملا ہے مینار پاکستان پر" ــــ "اوئے ماما ، یہ تو سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے، یہاں سفیدی کیسے کروگے؟؟؟؟"
خاور نعیم ہاشمی ماضی کے مشہور ایکٹر نعیم ہاشمی کے بیٹے ہیں۔
پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں۔
غالباً جنگ گروپ کے لاہور دفتر کے بیورو چیف رہ چکے ہیں۔
ضیاء دور میں کوڑے کھا چکے ہیں۔ اور آج کل اپنی سوانح حیات لکھ رہے ہیں۔
اوپر دیے گئے تمام اقتباسات اُن کی اسی سوانح حیات سے لیے گئے ہیں۔ جس کاچیدہ چیدہ مواد وہ ایک اردو بلاگ کی صورت اس لنک پر بھی پبلش کررہے ہیں۔
اس بلاگ پوسٹ کا مقصد قاری کا اخلاق خراب کرنا نہیں، بلکہ اصل لاہور کی "انڈرگراؤنڈ" ثقافتی زندگی کی ایک جھلک دکھانا ہے۔
اعلٰی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور آیا تو ایک دو سال بیڈن روڈ پر رہنے کا اتفاق ہوا۔ یہ علاقہ لاہور کا مرکز سمجھا جاتا ہے کہ اس کے اردگرد اسمبلی ہال، چڑیا گھر، مسجد شہداء، مال روڈ، باغ جناح، فوڈ سٹریٹ، کمپنیوں کے دفاتر، شاپنگ مراکز وغیرہ ہیں۔ یہ سب وہ مقامات ہیں جن کی وجہ سے نئے لاہور کے لوگ یا لاہور سے باہر کی عوام اس کو جانتی ہے۔
میں بھی شائد یہی سمجھتا رہتا۔
ایک سال بیڈن روڈ پر رہنے نے میرے لیے اس علاقے کے معنی بدل دیے۔
میں اس علاقے کو ان سوغاتوں کی وجہ سے جانتا ہوں:
میں اس علاقے کو ان سوغاتوں کی وجہ سے جانتا ہوں:
- رائل پارک کے فلمی دفاتر۔
- لکشمی چوک کی کھانوں کی دکانیں (جواکثر اوقات چکن، مٹن کے نام پر گاہکوں کو مبینہ طور پر کچھوے، گدھے اور پتہ نہیں کس کس چیز کا گوشت کھلا جاتے ہیں)
- فیروز سنز بک شاپ (جہاں آپ کھڑے کھڑے کئی کتابیں پھڑکا سکتے ہیں۔ اب شائد جل کر راکھ ہو گئی۔)
- کوزی حلیم (جس زمانے میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ گوشت کے نام پر روئی ڈالتے ہیں۔ تو پہلی بار ان کی حلیم میں اصلی گوشت کے ریشے بھی صاف نظر آئے)۔
- کوپر روڈ کے پبلشنگ پریس اور پرنٹرز (جو ڈگریوں سمیت سب کچھ چھاپ دیتے ہیں)۔
- ایبٹ روڈ کے سینما ہالز (جہاں لوگ عموماً پیشاب کرنے کے لیے نشست سے اٹھنا پسند نہیں کرتے)۔
- الفلاح بلڈنگ کے ٹکّی کباب (جن کو کھانے والے اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ ریڑھی کے بالکل پیچھے لاہور کا سب سے بڑا دریا، یعنی گندا نالہ بہ رہا ہے، اور یہ جو سوندھی سوندھی مصالحے کی خوشبو اٹھ رہی ہے، وہ ان لذیذ ٹکیوں سے نہیں بلکہ ۔ ۔ ۔ )
- شیشے کی بوتلیں چھنکاتے مالشئیے۔ (جن کی اکثریت مردانہ جسم کے کسی بھی حصے کی مالش میں عار نہیں سمجھتی)۔
- ہال روڈ پر ایک عجیب مٹیریل کی اوپن ائیر فیکٹریاں (اس مواد کو لوگ ربڑی دودھ کے نام پر غٹ غٹ پیتے ہیں)۔
- لاتعداد ہیروئنچی اور صمد بونڈ کا نشہ کرنے والے مزدور بچے، (اندرون شہر کے بعد سب سے زیادہ نشہ اس علاقے میں ہوتا اور ملتا ہے۔ ویسے جس نے چرس نہیں پی، لاہوریوں کے نزدیک وہ جمیا ہی نہیں۔ چرس کو لاہور میں نشہ نہیں سمجھا جاتا)۔
- غیر خاندانی طوائفیں، (جو کسی زمانے میں ہیروئن بننے یا عشق کا عین حاصل کرنے کے چکر میں گھروں سے بھاگی تھیں۔ ان میں سے جو خوش قسمت ھیں، وہ کسی نہ کسی کی رکھیل بن کر زندگی کے دن پورے کرتی ہیں۔ باقیوں کا پوچھیں ہی مت)۔
- جعلی اداکاری کرنے والے رنگ باز اداکار اور اپنے آپ کو مہدی حسن سمجھنے والے گلوکار، (جو سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلم انڈسٹری پر ابھی بھی ستر کے عشرے کے عروج سے گزر رہی ہے۔)
- ٹھٹرتی سردیوں کی راتوں میں کُھلی چھت پر کام کرتے موچی۔ (جن کا آرٹ اونچی دکانوں پر لیدر سول کے نام سے بکتا ہے)۔
- اور اصلی قتل و غارت کرنے والے بدمعاش (اس علاقے کے کئی بدمعاشوں نے قیام پاکستان کے دوران لاہور سے جانے والے ہندوؤں کی قتل و غارت و لوٹ مار میں سرغنہ کا کردار ادا کر کے عوام کے دِل جیت لیے۔ اگر مثال سمجھ نہیں آئی تو حکیم اللہ محسودؒ کی شہادت پر غور کریں)۔
مزید کیا فرماؤں۔ بس اتنا ہی کافی ہے کہ یہی وہ علاقہ ہے جدھر رہ کر منٹو نے اپنے بہت سے "شہکار" تخلیق کیے۔
زبردست کاشف صاحب۔۔۔ اس طرح کی "ادبی" تخلیقات شئیر کرتے رہیں۔۔۔ ہم جیسے قاری بھی مستفیذ ہو جاتے ہیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںجس لاہور کا آپ نے ذکر کیا۔۔۔ وہ تو ہم نے اب تک دیکھا ہی نہیں۔۔۔ یعنی اسی جمے ہی نہیں۔۔۔
معذرت جناب۔ کہ "ادبی" تخلیق آپ کے نازک اندام کندھوں پر بھاری پیش آئی۔ مقصد آپ جیسے قاری حضرات کی اینٹرٹینمنٹ نہیں، بلکہ اصل والے قاری صاحبان کی تفریح تھا، جن کی "سیکس ہی سیکس" نما سرچز کے سبب میرا بلاگ کے وزٹس بڑھ رہے ھیں۔ سوچا کہ مایوس جاتے ھونگے، اس لیے کچھ "ادبی" مواد بھی پڑھا دینا چاھیئے۔
حذف کریںویسے آپس کی بات ہے کہ وہ جمنے والی بات لاھور اور نواح کے محلوں کے رھنے والے تمام مردوں اور بعض اوقات عورتوں پر اپلائی ھوتی ہے۔ جن کے والد صاحبان کا ہاتھ بھاری ھوتا ہے، اُن کو جمنے کے لیے چرس کے سوٹوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
یار پاکستان میں اتنا ظلم ہے کہ کبھی میں سوچتا ہوں یہ سدھر نہیں سکتا۔
جواب دیںحذف کریںاللہ معاف کرے
وہ والے قارئین کو پھنسانے کا اچھا طریقہ ہے۔
جواب دیںحذف کریںاور ہاں لاہور کا دوسرا رُخ دکھانے کا شکریہ
اوہ یار تو کیہڑی مصیبت وچ پھسا دتا مینوں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںہاشمی صاحب دا بلاگ پڑھی جاندا واں، پڑھی جاندا واں۔۔۔
بہت اچھے وئی۔۔۔
خوب اور حقیقت
جواب دیںحذف کریںحیرت ہے خاور نعیم ہاشمی تو مولانا کو ملنے دن کی روشنی میں گیا تھا !۔
جواب دیںحذف کریںواہ بہت خوب ۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری کے بھی مزے اور آپ کی ریٹنگ بھی بڑھ گئی
جواب دیںحذف کریںگویا ایک ٹکٹ میں دو مزے
از احمر
جواب دیںحذف کریںجناب عالی
اس نے بلاگ سے آشنا کروانے کا شکریہ
اس قسم کے واقعات کے بارے میں ہمیشہ ایک بحث جاری رہتی ہے کہ انہیں شایع کیا جاے یا نہیں، یعنی وہ لوگ جو اس معاملات سے دور ہیں انہیں آشنا ہونا چاہیے یا نہیں ، تو کم از کم میں اس کا پرجوش حامی ہوں
ویسے اگر پسند کریں تو اس حوالے سے بحث کا آغاز آپ اپنے بلاگ سے کرسکتے ہیں
شکریہ
لوگوں کو معاشرے کا یہ چہرہ دکھانا بلکہ ہر چہرہ دکھانا چاہئے تاکہ لوگ اس سے نصیحت پکڑیں یا اس کا تدارک کرنے کا سوچیں۔ تحریر میں کئی واقعات ایسے ہیں جن میں اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بندوں کے نام نہ لکھے جاتے۔ ویسے بھی کسی کے ذاتی معاملات لکھنے بھی پڑیں تو بندے کا نام نہیں ہونا چاہئے۔ خیر ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہے۔
جواب دیںحذف کریںاب کافی سارے کنجر بغیر اجازت ہی مودودی صاحب کی بیٹھک میں دار اندازی پر اترے ہوئے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںLahore has an established kanjar culture. Unfortunately Lahori politicians have always followed the same culture and like kanjars beat up their own like bengalis, baluchis, sindhis etc and lie down in front of foreigners such as Saudis, Chinese, Americans. This is the irony of Punjabistan.
جواب دیںحذف کریںSearch Google Trends on dog sex and see which city comes on top.
جواب دیںحذف کریںWhat can I say, it s true.
abhi ishtori shoru huiiii hyyyyy ......
جواب دیںحذف کریںفیروز سنز جل گیا تھا لیکن تعمیرنو اور مرمت کے بعد ویسے ہی کام کررہا ہے۔
جواب دیںحذف کریں