ساری عمر پیسے جوڑو۔
پھر تمام جمع پونجی بچوں کی تعلیم اور شادیوں پر خرچ کردو۔
اور آخر میں۔ ۔ ۔
اولاد کے ٹکڑوں پر جیو۔
کسمپرسی کی زندگی گزارو۔
پھر تمام جمع پونجی بچوں کی تعلیم اور شادیوں پر خرچ کردو۔
اور آخر میں۔ ۔ ۔
اولاد کے ٹکڑوں پر جیو۔
کسمپرسی کی زندگی گزارو۔
یا پھر ۔ ۔
جوانی میں خوب اینجوائے کرو۔
ایک پیسہ بھی مت جوڑو۔
اور آخر میں ۔ ۔ ۔
اولاد کے ٹکڑوں پر جیو۔
کسمپرسی کی زندگی گزارو۔
جوانی میں خوب اینجوائے کرو۔
ایک پیسہ بھی مت جوڑو۔
اور آخر میں ۔ ۔ ۔
اولاد کے ٹکڑوں پر جیو۔
کسمپرسی کی زندگی گزارو۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خرم ابن شبیر کی پوسٹ پر ایک تبصرہ
کاش آپ کوئی حل ہی بتا دیتے اس کسمپرسی سے بچنے کا، سوال ایسا کیا ہے کہ کوئی بھی نیڑے ہی نہیں لگ رہا آپ کے، حالانکہ پڑھ سب نے ہی لیا ہوگا میری طرح۔ میں آج تیسری بار یہاں آیا ہوں یہ دیکھنے کیلئے کہ کسی نے شاید کوئی حل نکالا ہو
جواب دیںحذف کریںبات یہ ہے کہ ہم خوشی سے لبریز باتیں پڑھنا سننا پسند کرتے ھیں۔ جو باتیں سوچ میں ڈال دیں، اُن سے کنارہ کرنا ہی بہتر ہے۔
حذف کریںسر جی۔ جتنے بھی حل ھیں ، وہ غیر جزباتی اور خود غرضانہ رویہ مانگتے ھیں۔جو کہ ہم لوگوں کے لیے ناممکن ہے۔ ویسے بھی جیسے جیسے بڑھاپا طاری ھوتا جاتا ہے، آدمی جزبات کے گھیرے میں اور زیادہ پھنستا جاتا ہے۔
Theek kaha.......apni apni nigah or zaraf ki baat hy
جواب دیںحذف کریںSarwataj.wordpress.com
حل بڑا آسان ہے
جواب دیںحذف کریںجو بھی کرنا ہے رب کی مرضی کے مطابق کرنے کی کوشش کریں
کسی بھی قسم کی مایوسی پاس نہیں لگے گی
آزمودہ نسخہ۔۔
اور میں واقعی آپ کی تحاریر کو پسند کرتا ہوں۔
تبصرہ شاید پہلی دفعہ کررہا ہوں۔
سر جی۔ اگر رب کی مرضی سے آپ کی مراد اپنی قسمت پر شاکر ہو کر پڑے رہنا ہے، تو بات ٹھیک ہے کہ مایوسی قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ لیکن ایسے لوگ اپنی پارسائی کے زعم میں مبتلا ھو کر شکایات اور اعتراضات کا مرقّع بنے رہتے ھیں۔
حذف کریںمایوس لوگوں کی نگاہ اپنے گریبان سے نہیں اٹھتی تو شکایت کرنے والوں کا ہاتھ دوسروں کے گریبانوں سے ہی نہیں اٹھتا۔
لیکن دونوں میں ایک بات مشترک ھے۔ دنیا دونوں کی پرواہ نہیں کرتی۔ بلکہ کوسوں دور بھاگتی ھے ایسے لوگوں سے۔
بلاگ پر تبصرہ کرنے کا شکریہ۔ میں بھی آپ کا بلاگ وزٹ کرتا رہتا ہوں۔ لیکن سچی بات یہ ھے کہ تبصرہ کرتے وقت دماغ یکدم خالی ھو جاتا ھے۔ محض حاضری لگوانے واسطے چند لفظوں کا تبصرہ کرتے وقت میری زبان اور کی بورڈ دونوں اڑنے لگتے ھیں۔
حذف کریںبس جی۔
جواب دیںحذف کریںیہ اک سلسلہ ہے۔
جو سمجھنے کے باوجود توڑا نہیں جاسکتا۔
اور حل کرنے کے باوجود حل نہیں کیا جا سکتا۔
اگر باپ اپنی فنانشل انڈیپنڈنس ختم نہ کرے تو یہ سلسلہ بہت آسانی سے ٹوٹ سکتا ہے۔
حذف کریںاگر باپ بعد میں اولاد کے ٹکڑوں پر پلا تو پہلے اولاد بھی باپ کے ٹکڑوں پر پلی ہے ۔
جواب دیںحذف کریںانکل۔
حذف کریںدونوں ٹکڑوں میں فرق ھوتا ہے۔
باپ کے ٹکڑے بہت محبت کے ساتھ سونے کا نوالہ بنا کر کھلائے جاتے ھیں۔
اسی لیے مال اور اولاد کو آزمائش کہا گیا ہے ۔۔۔ دور اندیش والدین اس مسئلے سے بچنے کے لئے بڑھاپے سے پہلے ہی اپنی آمدنی کا بندوبست کرلیتے ہیں کیونک دینے والا ہاتھ کبھی لینے والا ہاتھ بننا گورا نہی کرتا ۔۔۔ بہت اچھی تحریر ہے۔
جواب دیںحذف کریں