30 جنوری، 2014

کرکٹ ھیروز

مختلف لوگوں کی زندگی میں آنے والے حالات یکساں نہیں ھوتے۔
کچھ لوگوں کے منہ میں پیدا  ہوتے ہی سونے کا چمچ ہوتا ہے۔ جبکہ بہت سوں کو گھٹی بھی نصیب نہیں ھوتی۔
کچھ کے والدین انتہائی پیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ جبکہ کچھ کے والدین مختلف وجوہات کی بناء پر ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہیں دے سکتے۔ 
مختلف خانگی و معاشرتی  ماحول و حالات کی بناء پر مختلف لوگوں  کی زندگی میں آنے والے سنگِ میل و مشکلات  مختلف ھوتی ہیں۔
لوگوں سے ملاقات کے دوران میری ذہنی توجہ کا بڑا محور ان وجوہات کی تلاش ھوتی ہے، جن کی وجہ سے وہ  موجودہ نفسیاتی و معاشی و مالی  حالات تک پہنچے۔ان کو کیا سہولتیں حاصل تھیں؟ کن چیلنجز  کا سامنا تھا؟۔ اپنی زندگی کے سفر میں انہوں نے کیا صحیح کیا اور کیا غلطیاں کیں؟ اور کس طرح سے مختلف کامیابیاں و ناکامیاں حاصل کیں؟۔ کس طرح سے مختلف قسم کی مشکلات و حالات سے نپٹا  ہوگا؟۔
یہ انتہائی عجیب سا شغل  ہے، لیکن اس کے پیچھے مقصد دوسروں کی زندگی سے اپنے لیے اسباق تلاش کرنے کی جستجو ہے تاکہ کسی طرح  اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزار سکوں۔لیکن یاد رکھنا چاھیئے ، یہ ضروری نہیں کہ ایک شخص کے ٹوٹکے اختیار کر کے دوسرا شخص بھی وہی نتائج  حاصل کرجائے۔  اس لیے کسی کے ٹوٹکے استعمال کرنے سے پہلے اپنے اردگرد حالات و صورتحال کا ادراک و تجزیہ کرلینا چاھیئے۔

بہت دن پہلے ایک ٹوٹکا  بٹ صاحب سے سیکھا۔
بٹ صاحب ان پاکستانیوں میں سے ہیں جنہوں نے ساری عمر پروفیشنل پڑھائی کے بعد یکسر مختلف پیشہ اپنا لیا۔انجنیئرنگ مکمل ھوئی تو لمز میں  ایم بی اے میں داخلہ لے لیا۔ ایم بی اے کر کے انہوں نے ایک اور سرٹیفیکیشن کی اور کسی طرح انویسٹنمنٹ بنکنگ میں گھس گئے ۔ نتیجتاً ان پر اللہ کا کرم ھوا، اور آمدن انجنئیر کی نسبت کئی گنا زیادہ ھوگئی۔بٹ صاحب  کے باس بھی ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کر کے امریکہ کی ییل یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا اور کسی طرح انویسٹمنٹ بینکر بن گئے۔
میری ان سے  کام کے سلسلے میں ملاقات ہوئی، تو ان کی ایک خصوصیت بڑی ہی شدت کے ساتھ نوٹ کی۔ بٹ صاحب جب بھی کسی نئے بندے سے ملتے ہیں تو شروع میں کام سے غیر متعلقہ بات کرکے ریلکس اور فری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کے درمیان جھجک ختم ہو جائے اور ذرا سی بے تکلفی در آئے، تو ان سے اپنا مطلب نکلوانا آسان ہوجاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے بٹ صاحب کا ٹوٹکا دوسرے آدمی کے ساتھ اس کی دلچسپی کے کھیل پر بات چیت ہے۔مثلاً اگر ملاقاتی عرب ہے تو ملتے ہی فرمائیں گے کہ باقی باتیں چھوڑو، پہلے یہ بتاؤ کہ پرسوں مانچسٹر یونائٹڈ اور آرسینل کے درمیان فٹ بال میچ کا کیا بنا؟۔  اکثر عرب  فٹ بال کے  دیوانے ہیں۔اس لیے فٹ بال پر پانچ دس منٹ کی گفتگو کے بعد  ان کے آفس سے نکلتے نکلتے بٹ صاحب کے بارے بڑی اچھی رائے لے کر نکلتے ہیں۔یعنی کہ   جب دلچسپیاں مشترک نکل آئیں تو انداز گفتگو نرم ، اور دلوں میں  ایک دوسرے کے لیے نرمی پیدا ہو جاتی ہے۔
میں چونکہ پاکستانی تھا،  تو فطری طور پر انہوں نے ہاتھ ملاتے ہی پوچھ لیا کہ سناؤ، کرکٹ میچ کا کیا بنا۔ دیکھنے گئے تھے؟۔
پاکستانیوں کے لیے یہ انتہائی آسان سوال ہے۔ لیکن میں ان کے سوال پر سوچ میں پڑ گیا۔
کیونکہ میں نے انیس سو چھیانوے میں کواٹرفائنل میں پاکستان کی انڈیا کے ہاتھوں شکست اور جسٹس قیوم انکوائری  کے بعد سے کرکٹ سے کسی قسم کا  واسطہ نہیں رکھا۔ مجھے بالکل بھی علم  اور دلچسپی نہیں کہ  کب پاکستان کا میچ  ہے اور آجکل کون پاکستان ٹیم کا حصہ ہے۔!۔

اس کی وجہ بھی جان لیں۔
میں اس نسل میں سے ہوں جو  بانوے کے ورلڈ کپ کے موقع پر ابھی لڑکپن میں ہی تھی۔
جوکرکٹ کو انتہائی لگن کے ساتھ فالو کرتے تھے۔
جن کو اس زمانے کے تمام کرکٹرز کی ہسٹری، سکورز، ریکارڈز وغیرہ ازبر تھے۔
جو جنونیوں کی طرح دن رات کرکٹ کھیلتے تھے۔  
جو ہمیشہ اپنے پسندیدہ کرکٹر کے انداز میں کھیلتے تھے۔  
جن کے شہر کے سٹیڈیم اور میدانوں میں وکٹ گاڑنے کی جگہ نہیں ملتی تھی کہ کرکٹ کھیلنے والوں کا رش ہی اتنا ہوتا تھا۔ 
یہ وہ وقت تھا جب ہمسائے کے خالی پلاٹ کی بنیادوں کی اینٹیں اپنے گھر کے کمرے بنانے کی بجائے، کرکٹ کی وکٹ بنانے کے لیے اکھاڑی جاتی تھیں۔

ہماری نسل کے کسی بھی شخص سے پوچھ لیجیے۔  ہماری زندگی کے خوشی سے پھٹتے فخریہ لمحوں میں سے ایک بانوے کے ورلڈ کپ میں  پاکستان کی جیت تھی۔ اگر پاکستان بانوے کا ورلڈ کپ نہ جیتتا، تو میرا گمان  ہے کہ شائد نہ ہی شوکت خانم ہسپتال بن پاتا اور نہ ہی عمران خان کی تحریک انصاف کا کوئی ایک ووٹر  ہوتا۔ 
وجہ یہ کہ پاکستانی قوم  بلاتخصیصِ رنگ و نسل و علاقہ،  جذباتی لوگوں کا گروہ ہے، جس کی پسندیدگی حاصل کرنے میں وہی کامیاب رہتا ہے، جو اس کو جذباتیت سے بھری ڈوز دے کر مقبول عام تماشا دکھاتا رہے۔ ہم جس کو چاہتے ہیں، اس کی کمیوں کجیوں کو نظر انداز کر کے ان  پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں۔ اور جس سے نفرت کرتے ہیں، اس کی ساتویں نسل تک کے منہ طعنوں کے تیزاب سے گلا مارتے ہیں۔
میں بھی ایسا ہی جذباتی پاکستانی ہوں۔
پاکستانی کھلاڑیوں مثلاً وسیم اکرم، وقار یونس وغیرہ پر انگلش میڈیا ہمیشہ الزامات لگاتا رہا۔ لیکن میں نے کبھی ان کے بارے بدگمانی دل میں نہیں بٹھائی۔ بال ٹمپرنگ ہو، یا پھر چرس و دیگر نشے  کے کیسز۔ نائٹ کلبوں میں راتیں گزارنے کے الزامات ہوں یا ناجائز بچوں کی پدریت۔  پاکستانی کرکٹروں کے بارے کبھی بھی رائے ہیرو سمجھنے سے نیچے نہیں آئی۔
لیکن پھر چھیانوے کے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں پاکستان انڈیا کے ہاتھوں ہار گیا۔  
کھیل کر ہار جاتا تو شائد اتنا دھچکا نہ لگتا۔ لیکن جب ٹیم کے بڑے کھلاڑی مختلف بہانوں کے تحت میدان سے باہر بیٹھے ہوں ، اور کھیلنے والے نیم دلی سے کھیل کر صفر پر آؤٹ ہو  رہے ہوں تو دکھ تو ہوتا ہے۔  
خاص طور پر دل تب تو بالکل ہی ٹوٹ جاتا ہے جب آپ کے "ہیروز" کے خلاف  جوئے اور میچ فکسنگ کے الزامات داؤد ابراہیم جیسا "معتبر" شخص لگا رہا ہو۔
آپ اپنے ہیروز کو تمام عمر آئیڈیلائز کرتے رھیں، اور پھر آخر میں آ کر پتہ چلے کہ یہ تو فراڈیے تھے تو شدید ذہنی  دھچکا لگتا ہے۔

ہیروز  کو چاھیئے کہ ہیروز بن کر جذباتی تماشے دکھاتے رہیں۔  
انسان بن کر بے عزًت ہونے سے گریز کریں۔

3 تبصرے:

  1. آپ کی جستجو والی عادت اچھی ہے اور یہ خیال بھی درست ہے کہ ضروری نہیں کہ ایک ہی ٹوٹکا سب کیلئے مفید ہو ۔ ہموطنوں کے متعلق آپ کا اندازہ بھی بالکل درست ہے کہ جذباتی لوگوں کا گروہ ہے۔ بٹ صاحب سمجھدار آدمی ہیں ۔ اُنہوں نے اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر انجنیئرنگ کے بعد ایم بی اے نہیں کیا ہو گا ۔ آج سے تین چار دہایاں قبل ترقی کیلئے یہ اہم ضرورت ہو گئی تھی ۔ گمان غالب ہے کہ بٹ صاحب نے مکینیکل انجیئرنگ کی ہو گی ۔ رہی ترقی تو اس کے لئے صرف ڈگریاں ہی نہیں مناسب منصوبہ بندی اور ماحول بھی لازم ہیں ۔ آخر میں عمران خان کی بات ۔ تو یہ منہ میں ہیرے کا چمچہ لئے پیدا ہوا جس کی وجہ سے کپتان بنا اور پھر اپنے آمرانہ فیصلے نافذ کرتا رہا ۔ انتظامی صلاحیت اس میں مفقود تھی جو اب آپ نے دیکھ ہی لیا ہو گا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. مجھ جیسے دو جماعت پاس ناتجربہ کار مہمان کیلئے یہاں کی سِم خریدنا مشکل لگتا ہے ۔ پہلے کہا پاسپورٹ کی کاپی لے کر آؤ ۔ دوسری بار کہا کہ کاپی وزارت کی تصدیق شدہ ہو اور اصل پاسپورٹ لے کر آؤ ۔ تیسری بار ناجانے کیا کہیں گے

    کیا آپ کے موبائل فون میں مندرجہ ذیل ایپلیکیشن ہے یا انسٹال کی جا سکتی ہے؟
    Whatsapp
    اگر ایسا ہے تو آپ سے اس کے ذریعہ بات ہو سکتی ہے ۔ میرا پاکستان کا نمبر یہاں اس ایپلیکیشن میں کام کرتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. اعتماد کو ٹهیس پہچے تو وہ جاتی ہی نہیں

    جواب دیںحذف کریں