29 اپریل، 2013

اختلاف اور برداشت


مفتی  محمد شفیع ؒ فرماتے تھے کہ
"انسانوں کی کسی مجلس میں اگر اختلاف نہ ہو تو اس کے دو ہی اسباب ہو سکتے ھیں۔ شرکاء اتنے غبی ھیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ھیں، یا پھر اتنے مفاد پرست ھیں کہ دانستہ اختلاف سے گریز کرتے ھیں۔"

امام شافعیؒ کا قول ہے کہ
" میں اپنی بات کو درست کہتا ہوں لیکن اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔ اسی طرح میں دوسروں کی بات کو غلط کہتا ہوں مگر اس میں صحت کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔"


16 اپریل، 2013

زلزلہ



آج خبر  ھے کہ بہت شدید زلزلہ آیا۔ شدت 
7.9  تھی۔


میں حسن کوسکول سے  لینے کے لیے گھر کے دروازے  سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ  ایک گورے پڑوسی  کو ننگے پاؤں کاریڈور میں بھاگتے دیکھا۔ پوچھا تو کہنے لگا کہ زلزلہ آرھا ھے۔ میں نے کہا کہ بلڈنگ کی کنسٹرکشن بڑی گھٹیا ھے۔ کسی نے دو فلور نیچے اپنا دروازہ ذرا زور سے بند کر دیا ہوگا، جس کی شاک ویو  کو جناب  زلزلہ سمجھ رہے ھیں۔ لیکن گورا    اپنے زلزلے والے بیان پر اڑا رہا۔ میں نے سوچا سالا  چریا ہو گیا ھے۔ آج صبح صبح ہی شراب چڑھا لی ھوگی۔ اسی لیے اس کو ساری دنیا ڈولتی نظر آ رہی ہوگی۔


واپس آ کر ٹی وی سے پتہ لگا کہ ایران پاکستان کے بارڈر پر زلزلہ آیا تھا، جس کی شاک ویو کافی دور دور تک محسوس کی گئی۔


2005 کا زلزلہ بھی اسی شدت کا تھا۔


غالباً رمضان کے دن تھے۔ میں ننگے فرش پر سویا ہوا تھا۔ اور ایک عجیب سا خواب دیکھ رہا تھا۔


ایک  بگولا  (ٹارنیڈو) بہت ہی تیزی سے عجیب سے انداز میں  گھومتا ہوا اور گڑگڑاہٹ بھری آواز نکالتا  میری  طرف آ رھا تھا۔  یہ آواز ایسی ہی تھی جیسی مسلسل آسمانی بجلی کڑک رہی ہو۔جب اس بگولے نے مجھے اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کی چیخ نما کڑکڑاتی آواز اتنی شدید ہو گئی کہ مجھے لگا کہ میرے کان کا پردہ پھٹ جائے گا۔   خوف اتنا شدید تھا کہ میری آنکھ فوراً کھل گئی۔ پتہ لگا کہ زمین زور زور سے ہل رہی  ھے، اور میں زمین پر کان لگائے زلزلے کی آواز سُن رہا ہوں۔


مجھے عموماً  اپنی گزری ہوئی زندگی کے وہی  واقعات یاد رہتے ھیں، جن میں کوئی چیزاتنی  اچھوتی اور مختلف ہو، جس سے ذہن کی سلیٹ پر گہرا نشان جائے۔


یہ آواز اتنی عجیب اور اتنی شدید تھی کہ میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی۔


11 اپریل، 2013

کچھ اکثریت کے حقوق کے بارے


آپ استنبول کو لے لیں۔


یہ 1453 تک عیسائیوں کا گڑھ تھا۔ لیکن 1453 میں ترکوں کے قبضے میں جانے کے بعد اس شہر کی اہمیت اور بھی دو چند ھو گئی ۔ اگلے دو سو سال عثمانی سلطنت  ایشیا اور یورپ کی سب سے مضبوط طاقت رہی، سو استنبول  پورے یورپ  و ایشیا کی سب سے بڑی تجارتی و فوجی  بندرگاہ بن گیا۔
یہ اس زمانے میں یورپ کا سب سے امیر اور گنجان آباد شہر تھا۔ یہاں کی گلیوں میں آپ بہتر مختلف زبانیں سُن سکتے تھے۔ قبطی مبلغوں سے لے کر یہودی شیشہ گر، ایرانی ریشم کے تاجروں سے  لے کر برف پر ھزاروں میل چل کر پہنچنے والے سکینڈے نیوین  کرائے کے فوجیوں تک بھانت بھانت کے لوگ ملتے تھے۔ یہاں آرامک بولنے والے شامیوں ، لاطینی بولنے والے افریقیوں ، آرمینیا غرض ھر علاقے ھر زبان  کے لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا۔ یہ سب لوگ عثمانی سلطنت کے متاثر کن  پھیلاؤ میں کسی نہ کسی صورت حصہ دار تھے۔

10 اپریل، 2013

وزن کہانی - 1


لیں جی۔ بایاں گوڈا جواب دینے لگا ھے۔ اب وزن کم کرنا ہی پڑے گا۔
2001 سے میری اور وزن کی جنگ جاری ھے، جس میں عموماً وزن کی ہی جیت ہوئی ھے۔

9 اپریل، 2013

مد و جزر


بات ہو گی سال دو ہزار چار کے اگست کی۔


رات  کو سب باجماعت داتا صاحب گئے اور وہاں کی مسجد میں نوافل ادا کیے ۔باہر نکلنے کے بعد سب  نے چندہ ڈال کر دربار کے ساتھ والی دکانوں سے   چنے والے چاولوں کی دو  دیگیں خرید کرلنگر کے حوالے کیں۔
پیسے تو ایک دیگ کے اکٹھے ہوئے تھے، لیکن باورچی نے اصرار کے ساتھ ایک اور دیگ  آدھے  سے بھی کم پیسوں میں دے  دی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں دیگوں کے چاول ایک بڑی سی دیگ میں ملا دیے ۔تاکہ باسی یا تازہ چاولوں کا فرق محسوس نہ ہو سکے۔ اب چونکہ صدقے کا مال بندہ خود نہیں کھاتا سو ہم نے بھی اعتراض نہیں کیا کہ چل کوئی کھائے گا تو دعا ہی دے گا۔

7 اپریل، 2013

نسلی حکمران ہم پر مسلط کیوں؟



پیامی صاحب
  کے زبردست اور زور دار بلاگ  میں مختلف سپاس ناموں کو بنیاد بنا کر اس بات کا ماتم کیا گیا کہ اپنی قوم پر کیوں نسلی حاکم مسلط ھیں۔

چھ کلمے

نوائے وقت کے سر راہے کو پڑھتے ھوئے سلطان راہی والے لطیفے کا لطف آ گیا۔

فلم میں سلطان راہی سکھ سے مسلمان ھو کر پاکستان آیا، تو پولیس نے پکڑ لیا۔تھانے میں تھانیدار نے اسے چھ کلمے سنانے کو کہا تو سلطان راہی نے فر فر سنا دیے۔جس پر تھانیدار کہنے لگا کہ تو مسلمان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کسی مسلمان کو پورے چھ کلمے نہیں آتے۔

بات تو ٹھیک ھے۔ عموماً زیادہ تر لوگوں کو چار یا پانچ کلمے آتے ھیں۔

مجھے خود چار کلمے یاد تھے۔پانچواں اس چکر میں یاد ہوا کہ جس زمانے میں قرآن کا ترجمہ پڑھا تو تبھی کسی کتاب میں پانچویں کلمے کا ترجمہ دیکھا۔اتنی مکمل دعا دیکھ کرٹھٹک گیا۔

"میرے رب، میں معافی مانگتا ہوں اپنے تمام گناہوں کی ، جو  میں نے جان بوجھ کر کیے یا انجانے میں غلطی سے ہو گئے۔جو میں نے چھپ چھپا کر کیے یا سب کے سامنے۔اور( مستقبل کے لیے )  میں توبہ کرتا ہوں   تمام گناہوں سےجن کا مجھے پتا ھے  کہ گناہ ھیں اور ایسےجن کا   نہیں پتہ۔ بے شک تو غیب جاننے والا ، عیب چھپانے والا اور گناہ معاف کرنے والا ھے۔اور اللہ کے علاوہ کوئی بھی حالت تبدیل کرنے والا اور طاقتور نہیں۔"

میں اس دن کے بعد سے نماز کے بعد دعا میں پانچواں کلمہ ہی دعا کے طور پر  پڑھ رھا ہوں۔

چھٹا کلمہ  مجھے ہمیشہ بھولتا ھے۔

اوپر والا آزاد  ترجمہ میری ٹوٹی پھوٹی عربی  سے ہوا ھے۔ لیکن اگر  عربی رج کر بھی  آتی ہو تو یقین کریں کہ اردو ترجمہ  کافی بے روح سالگتا  ھے۔ ویسے انگریزی میں بھی یہی کوالٹی ھے۔ دوسری زبان کی ترجمہ شدہ چیز میں "وہ بات " نہیں رہتی۔


آج کل الیکشن امیدواری کی درخواستیں جا رہی ھیں تو مجھے یقین ھے کہ امیدواران دھڑا دھڑ رٹًے لگا رھے ہوں گے چھ کلموں کو۔

کئی لوگوں کی جلًی حروف میں خبریں چھپی ھیں کہ لو جی ۔  ان سے فلاں کلمہ پوچھا گیا  اور ان کو یاد ہی نہیں تھا۔ کئی حضرات نے رٹرنگ آفیسرز کی منًت بھی کی کہ کلمے یاد کر کے آئے ھیں، اس لیے سُن لیں۔لوگ یقیناً محظوظ ہو رھے ہوں گے ان زبردستوں کی بیچارگی کے آگے، جن  کے لیے عوام اور ڈگریاں بھیڑ بکریوں کا درجہ رکھتی ھے (جب چاہا خرید لیا)۔


لیکن الیکشن کمیشن کے ان انٹرویوز نے میرے دماغ میں بہت عرصے سے موجود  ایک سوال کو پھر سے سامنے لا کھڑا کیا ھے۔

ان کلموں کو چھ کلموں کی موجودہ سٹینڈرڈ  شکل میں کب اور کس نے مرتب کیا؟   
ان کا ماخذ کیا ھے آخر؟


کچھ لوگ کہتے ھیں کہ یہ کلمات مکمل شکل میں قرآن و حدیث میں نہیں آئے، بلکہ بعد میں کسی نے اسلام کے عقائد کا خلاصہ چند عبارات میں کرنے کے لیے مختلف آیات و احادیث سے لے کر بنائے گئے ھیں۔

پہلا کلمہ  دو مختلف ٹکڑوں کی شکل میں قرآن میں ہے ۔ (لا الہ الااللہ – محمد رسول اللہ)

دوسرا کلمہ ایک ذرا سی مختلف شکل میں نماز میں التحیات میں پڑھا جاتا ھے۔

تیسرا کلمہ  تسبیح کے مفہوم کا  ھے۔تیسرے کلمے سے متعلق ایک دلچسپ بات ھے۔ آنحضرت ﷺ نے جو مختلف اذکار و تسبیحات بتائی ھیں۔ان کے عموماً تین حصے ہوتے ھیں۔ پہلے حصے میں اللہ کی سبحانیت کا ذکر۔دوسرے میں اللہ کی حمد۔اور تیسرے میں  اللہ کی کبریت۔ (سبحانیت کا اردو ترجمہ عموماً اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرنا کیا جاتا ھے۔یہ ایک صاحبہ نے سبحانیت کی تشریح کی ھے۔  مجھے پسند آئی۔ نہیں معلوم ٹھیک ھے کہ نہیں۔ لیکن تشریح زوردار بلکہ لچھے دار  ھے۔ سوچ رھا ھوں کہ  ان کا بلاگ اِن ایکٹو ھے اور نہ جانے کب غائب ہو جائے۔ اس لیے پوسٹ کا ترجمہ کر کے بلاگ پر سیو کرلوں۔ چند مثالوں پر  غور کریں۔

سبحان اللہ ۔ الحمد للہ۔ اللہ اکبر

سبحان اللہ۔ وبحمدہ۔ سبحان اللہ العظیم۔

سبحان اللہ ۔ والحمدللہ۔ ولا اللہ الا اللہ واللہ  اکبر۔ ولا حول ولا قوۃ ال باللہ العلی العظیم۔

سبحانک اللہم ۔ و بحمدک۔ و تبارک اسمک۔ و تعالی جدک۔ ولا اللہ غیرک۔

سبحان ربی ال اعلٰی اور سبحان ربی العظیم ۔  (ایک  کتاب میں پڑھا کہ شیعہ اس کے آخر میں "وبحمدہ" کا اضافہ کرتے ھیں )

یہ تین کا  پیٹرن تیسرے کلمے سمیت کافی اذکار و تسبیحوں میں نظر آتا ھے۔

چوتھا کلمہ پڑھتے ھوئے مجھے  ایک عجیب سی مسرت ہوتی ھے، جس کا کلمے سے کوئی تعلق نہیں نظر آیا مجھے۔ یہ کلمہ اللہ کی محتلف صفات کا خلاصہ بیان کرتا ھے۔ اللہ کے بارے کسی اجنبی  کو بتانا ہو تو چوتھے کلمے کا ترجمہ سنا دیں۔

پانچواں اور چھٹا کلمہ  دعائیں ھیں۔ جن میں  محتلف گناہوں سے بچنے کی دعا مانگی گئی ھے۔

چونکہ زیادہ تر لوگوں کو بچپن میں کلمے یاد کروائے جاتے ھیں، اس لیے عموماً چھٹے کلمے سے پہلے ہی بس ہو جاتی ھے۔ چھٹا کلمہ یاد کرنا پی ایچ ڈی کے برابر تھا۔


ذہن بھی پتہ نہیں کدھر سے کدھر نکل جاتا ھے۔ بات ہو  رہی تھی کہ کسی کو معلوم ھے یہ کیسے  اور کب   وجود میں آئے۔؟  
اور یہ الیکشن کمیشن والے اچھے مسلمان کی تعریف کا ٹیسٹ  چھ کلمے پوچھ کر کیوں لے رہے ہیں۔؟؟  
یہ باقی قوموں میں بھی ہیں یا بس بر صغیر والے ہی پڑھتے ھیں؟ ۔