آج ایک عرب صاحب سے
لبنان میں ہونے والا ایک عجیب واقعہ سُنا۔
دو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لڑکا لڑکی نے ماں باپ کی
مرضی کے بغیر شادی کرلی۔ خاندانوں کی طرف سے مکمل مقاطعہ ہو گیا۔ پھر چھ مہینے سال
بعد لڑکی والوں نے آخر ہتھیار ڈال ہی دیے اور لڑکے لڑکی کو دعوت کے لیے اپنی
طرف بہت عزت و احترام سے لے گئے۔ لڑکی کے گھر کے دروازے پر پندرہ بیس رشتہ داروں نے لڑکے کا پرتپاک استقبال کیا اور اندر لے جاتے ہی لاتوں سے اس کی دعوت شروع کردی۔ کافی دیر بعد بھی جب
غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو لڑکے کے عضو تناسل کو کاٹ کر لڑکے کو دور کہیں پھینک آئے۔ کسی
نے بروقت ایمبولینس کو اطلاع دی تو جان تو بچ گئی ، لیکن ۔ ۔ ۔
لبنان کے لوگ پچانوے فیصد سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور آبادی کا ستر اسّی فیصد ملک سے باہر رہتا ہے۔دبئی سمیت تمام دنیا میں رہنے والے لبنانی مرد اور خواتین عموماً کافی کھلے ڈلے اور آزاد خیال ہیں۔ کم از کم حلیوں سے تو یہی لگتا ہے۔ ان کے لباس و اطوار دیکھ کر یورپ کی یاد آتی ہے۔ اس تناظر میں اوپر کا واقعہ پڑھیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے کہ اس قسم کا واقعہ اور اتنے پڑھے لکھے ملک میں۔؟؟۔
میرے ذہن میں معمہ حل نہ ھوا تو میں نے ان صاحب کو تکلیف
دی۔ کہنے لگے کہ لبنانیوں کے ہاں کھلا ڈلا پن صرف نان سیریس تعلق یعنی شغل میلے کے لیے ہے۔ جب انہوں نے شادی کرنی ہوتی ہے
تو واپس قدامت پسند بن جاتے ہیں اور صرف
اپنے مسلک ، مذہب، ذات برادری وغیرہ سے ہی رشتہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو
خیر کچھ نہیں، فلسطین اور اردن میں ماں باپ لڑکوں لڑکیوں کو شادی سے پہلےپریکٹیکلی کھلا چھوڑ کر رکھتے ہیں جس کا جوان بچے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یہ آزادی تب تک رہتی
ہے جب تک لڑکی کو اس کے ماں
باپ یا خاندان کا کوئی اور فرد رنگے ہاتھوں پکڑ نہیں لیتا۔ پکڑے جانے کی صورت میں
ان کے ہاں "شرف" (غیرت) کا رواج حرکت میں آجاتا ہے، جس کے تحت یہ دونوں کو قتل
کر مارتے ہیں۔
پوچھا کہ پھر تعلیم
کدھر گئی؟ پڑھ لکھ کر ایسے جاہلانہ رواج؟ کیوں ؟۔
کہنے لگے ۔ میاں۔ تم نے سٹاک ہوم سینڈروم کا تو سُن ہی رکھا
ہوگا۔ جب مغوی اغوا کاروں کے چنگل میں بہت عرصہ رہنے کے بعد اغوا کاروں کی طرف نرم پڑ جاتا ہے اور ان کی حرام زدگیوں کو
سپورٹ کرنے کے لیے جواز تلاشنے لگ جاتا ہے۔۔۔ تو جی، یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔جو ان علاقوں سے بھاگنے میں
کامیاب نہیں ہو سکے، وہ جہلاء میں رہ رہ
کر ان کی حرکتوں کی مذمت کرنے کی بجائے اب انہی جیسے بن گئے ہیں۔ ان کو چھوڑیں۔ جہالت
کی ایک اور مثال سناتا ہوں۔ سوڈا ن میں ایک خوبصورت خاتون کے لیے دو پی ایچ ڈی دوستوں نے
رشتہ بھیجا۔ خاتون نے ایک کو قبول کر کے شادی کر لی۔ چار پانچ سال بعد خاوند نے اتفاقاً مارکیٹ میں اپنی
بیوی کو ایک گاڑی میں بیٹھتے
دیکھا، جس کو وہ پہچانتے تھے کہ ان کے اسی دوست کی ہے کہ جو خاتون کے لیے رشتہ
بھجوانے والوں میں تھے۔ خاوند فوراً گھر
پہنچا، خاندان کو اکٹھا کیا اور اپنی بیوی کی کارستانی سنا کر اس کو طلاق دے ماری۔
تھوڑی سی دیر میں خاتون اسی گاڑی میں گھر پہنچی تو معلوم ہوا کہ یہ گاڑی کچھ دن
قبل خاتون کے بھائی نے خرید لی تھی اور وہی اپنی بہن کو مارکیٹ میں خریداری کرتے دیکھ کراپنی نئی خریدی گئی
گاڑی میں گھما نے کی غرض سے بٹھا رہا تھا۔
اپ ڈیٹ:
ان صاحب سے گفتگو کے چند دن بعد میری کچھ لبنانیوں سے بات ھوئی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ لبنان میں اس قسم کے واقعات ھو جاتے ہیں۔ عموماً اس طرح کے زیادہ تر واقعات کی وجہ ناجائز جنسی تعلقات ہوتے ہیں، نہ کہ غیروں میں شادی۔ اس طرح کے "جرائم الشرف" اور "ھتک العرض" قسم کے واقعات کے نتیجے میں معاملہ جب عدالت میں جاتا ہے، تو عدالت، غیرت کے نتیجے ہونے والے قتل کے بارے معاشرتی نرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے، عموماً قاتلوں کو کڑی سزا کی بجائے نرم سزا سُناتی ہے۔
اپ ڈیٹ:
ان صاحب سے گفتگو کے چند دن بعد میری کچھ لبنانیوں سے بات ھوئی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ لبنان میں اس قسم کے واقعات ھو جاتے ہیں۔ عموماً اس طرح کے زیادہ تر واقعات کی وجہ ناجائز جنسی تعلقات ہوتے ہیں، نہ کہ غیروں میں شادی۔ اس طرح کے "جرائم الشرف" اور "ھتک العرض" قسم کے واقعات کے نتیجے میں معاملہ جب عدالت میں جاتا ہے، تو عدالت، غیرت کے نتیجے ہونے والے قتل کے بارے معاشرتی نرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے، عموماً قاتلوں کو کڑی سزا کی بجائے نرم سزا سُناتی ہے۔
سٹاک ہوم سينڈروم تو ہمارے ہاں بھی بہت ہے- ہر دہشتگرد کو ہم نے ماما بنا رکھا ہے چاہے اس نے ہميں کتني ہی پھينٹی کيوں نہ لگائی ہو جيسے طالبان- يہ غلامی کی خو ہے جو جاتی نہيں، صديوں کی بادشاہوں کی غلامی کے بعد-
جواب دیںحذف کریںکبھی ممکن ہو سکے تو جرمنی جو جنگِ عظیم دوم سے آج سے کچھ سال پہلے تک مغربی جرمنی کہلاتا تھا کے متعلق بھی پوچھیئے گا ۔ امریکہ کی سناتا ہوں جو مجھے ایک خالص امریکی نے بتایا تھا ۔ پڑھے لکھے اور جدید علاقے کے ایک خاوند اور بیوی ملازمت کے دوران دو مختلف ریاستوں میں چلے گئے کچھ ماہ بعد خاوند دفتر کے کام سے اچانک اُس ریاست پہنچا جہاں اُس کی بیوی تھی ۔ اُس کی اُسی روز واپسی تھی اسلئے بیوی کو مطلع نہ کیا ۔ وہ ایک ریستوراں کے سامنے سے گذر رہا تھا کہ اندر شیشے کے پاس اُسے اپنی بیوی نظر آئی جو کسی مرد کے ساتھ ہنس ہنس کر باتین کر رہی تھی ۔ مرد کا چہرا دوسری طرف ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا تھا ۔ اُس نے گھر پہنچ کر بیوی کے خلاف طلاق کا مقدمہ دائر کر دیا ۔ بیوی کو نوٹس ملا تو گھر پہنچی اور پوچھا کہ وجہ کیا ہوئی مگر اُس نے بات ہی نہ کی ۔ عدالت میں بھی بیوی نے بہت کوشش کی مگر بے سود ۔ جب طلاق کا فیصلہ سنا دیا گیا تو اُس نے پھر پوچھا تو وجہ معلوم ہوئی ۔ بیوی نے بتایا کہ اس کا بھائی جس کا اُسے 12 سال سے کچھ معلوم نہ تھا کہاں پر تھا وہ ریستوراں کے قریب مل گیا اور ساتھ چلنے کو کہا مگر اس نے کہا کہ مجھے دفتر واپس پہنچنا ہے اسلئے چند منٹوں کیلئے ریستوراں میں بیٹھ گئے تھے
جواب دیںحذف کریں"دُنیا کے اس حمام میں سب ننگے ہیں "
جواب دیںحذف کریںجناب ان معاملات میں تعلیم ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے پر کتابیں لادھ دی جائیں اور سیویلائزڈ ہونے کی توقع رکھی جائے۔
جواب دیںحذف کریںتعلیم چاہے پی ایچ ڈی ہو، شعور نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں۔
ایسے تعلیم یافتہ جاہل زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی منطقیں مذہب سے ثابت کروانا شروع ہوجاتے ہیں۔
میرے محترم: تعلیم انسان کا" کچھ نہیں بگارتی" مثلاً ٹاک شو میں آپ نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات کا بھی طرز عمل دیکھ چُکے ہونگے۔ یہاں تک کہ ٹی وی کے میزبان جو دانشور کہلاتے ہیں ۔۔ جب خود مہمان بن کر آتے ہیں تو وہ بھی بتادیتے ہیں کہ تعلیم نے ہمارا کچھ نہیں بِگاڑا ہے ۔۔۔
جواب دیںحذف کریں۔میری ان باتوں کا ثبوت آپ یو ٹیوب وڈیو پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں ،اسکے علاوہ ہونے والے بعض تبصروں میں بھی اس بات کی جھلک نظر آتی ہے کہ تعلیم نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا ۔۔
میرے محترم تعلیم پیسے کمانے کیلئے ہوتی ہے۔۔۔۔۔
ہاں ہزاروں یا لاکھوں میں کسی ایک کا " تعلیم کچھ نہ کچھ بگاڑتی ضرور ہے " اور جس کسی کا کچھ نہ کچھ بگاڑتی ہے ۔ میرے خیال میں اُسے سچی خوشی حاصل ہوجا تی ہے ۔۔۔۔
اِن ہزاروں لاکھوں میں جو ایک خوش نصیب کہلانے کا حقدار ہے۔(۔وہ کم سے کم میں نہیں ہوں) ۔۔۔اب اجازت دیں ۔۔۔۔آپ کا بُہت شُکریہ ۔۔۔
مجھے یہ پوسٹ پڑھ کر ہنسی آرہی ہے۔ کیونکہ جو کچھ میری گناہ گار آنکھیں دیکھ چکی اور گناہ گار کان سن چکے ہیں وہ ایک قطعی مختلف صورت کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا آپ نے کسی ایسے شخص سے بھی رائے لی ہے جو عملاً کسی عرب ملک میں رہ چکا ہو یا رہ رہا ہو؟
جواب دیںحذف کریںکسی ایک واقعہ پر مذمتوں کا طوفان کھڑا کردینا کچھ مناسب بات نہیں۔۔۔پوری تصویر کسی ایک منظر سے بالکل مختلف ہوسکتی ہے۔
تم ھنس دیے۔ پھول کِھل دیے۔ اجڑے چمن میں بہار آگئی۔
حذف کریںصالح بندے کو انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گناہ گار ہونے کا دعوٰی نہیں کرنا چاھیئے، ورنہ ایویں لوگ خوامخواہ شک کرتے ہیں اور بعض اوقات ایویں شغل شغل میں گناہ گاری کا لیول چیک کروانے کے لیے تھانے میں بھی دے دیتے ہیں۔
:)
اس موضوع پر تو کچھ لکھنا ہے ہی بے کارہے، ہمارے ہان تو آواے کا آوا ہی بغڑا ہوا ہے
جواب دیںحذف کریںشرف کی بنیاد بنا کر بہت اندوہناک واقعات ہوئے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںيہ غلامی کی خو ہے جو جاتی نہيں، صديوں کی بادشاہوں کی غلامی کے بعد-
جواب دیںحذف کریںSarwataj.wordpress.com
میرے بھائی آپ کو شائد تعلیم اور جہالت متضاد لفظ نظر آتے ہیں پس پڑھے لکھے جاہلوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہو مگر میں اس معاملے بارے تھوڑا اور طرح سے سوچتا ہوں
جواب دیںحذف کریںمیں اس تعلیم کو جہالت کے متضاد سمجھتا ہوں جو وحی کے ذریعے یا وحی سے تصدیق شدہ ہو پس میرے نزدیک اس کے علاوہ علم جب جہالت کے متضاد نہیں تو پرحے لکھے جاہل پر حیرت کیوں
مثلا آج عورت کے بلا ضرورت باہر نکلنے اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کو جدید تہذیب اور تعیلم سمجھا جاتا ہے اور اسکے برعکس برقع کے اندر ضرورت پر باہر نکلنے اور بغیر ضرورت گگھر میں رہنے والوں کو جاہل اور دقیانوسی سمجھا جاتا ہے حالانکہ وحی سے تصدیق شدہ علم کے مطابق فیصلہ الٹ بنتا ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی
یعنی اللہ مومنات کی صفات بتاتا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھتی ہیں اور بناؤ سنگھار کر کے باہر نہیں نکلتیں
پس قرآن کے مطابق باہر نکل کر بناؤ سنگھار کرنے والیاں پرانے دور کی جہالت(جاھلیۃ الاولی) سے متصف ہیں
اسی لیے پڑھے لکھے جاہل کی اصطلاح صرف وحی کے مطابق علم رکھنے والے کے جہالت کے کام کرنے پر استعمال کرتا ہوں
کوئی غلطی ہو تو اصلاح کر دی جائے جزاکم اللہ
صحیح بات ہے روایات میں جکڑے افراد کا تعلیم کچھ نہیں بگاڑتی۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں