22 اکتوبر، 2014

توکل کرمان کے حق میں حجابی سازش


بعض اوقات قوموں پر اتنا برا وقت آجاتا ہے کہ اپنوں کے سامنے اپنے آپ  اور اپنی  تہذیب و اقدار کو اعلٰی ظاہر کرنے کے لیے جھوٹی روایات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔
توکل کرمان ایک یمنی بی بی ہیں، جن کو ملالہ کی طرح کسی نامعلوم وجہ سے 2011ء میں نوبل امن انعام مل چکا ھے۔
انعام ملنے کے بعد متواتر ان سے ایک روایت منسوب کی جارہی ہے:


راوی کہتا ہے کہ یمن کی "اُم الانقلاب" جنابہ توکل کرمان سے صحافیوں نے ان کے حجاب کے بارے کہا کہ یہ ان کی اعلٰی ذہنی و تعلیمی سطح سے میل نہیں کھاتا تو انہوں نے فرمایا:
"ابتدائے آفرینش میں انسان بے لباس رہتا تھا۔ پھر جیسے جیسے اس کی ذہنی صلاحیت میں بہتری ھوئی اس نے کپڑے پہننے شروع کردیے۔ میں آج جو کچھ بھی ھوں اور جو کچھ بھی میں نے پہن رکھا ہے، یہ انسانیت کی سوچ اور تہذیب کی معراج کی علامت ہے اور اسی لیے یہ تنزلی نہیں ترقی ہے۔ یہ تو بے لباسی ہے جو انسان کو قدیم دور جاہلیت کی جانب دھکیلتی ہے۔"

بحیثیت سچے مسلمان، یقیناً سر فخر سے بلند ھو گیا؟۔
سینہ بھی پھول کر کُپا ھو گیا؟۔
چلو اچھی بات۔

اب معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ
یہ روایت جھوٹی ہے۔
"اُم الانقلاب" نے کبھی ایسا نہیں فرمایا۔
اس روایت کاممکنہ  ماخذ ایک عربی فورم (لنک) پر 12 اکتوبر 2011 کو پوسٹ کی گئی ایک حکایت ہے، جس میں دور دور تک توکل کرمان کا ذکر نہیں۔



امکان یہ ہے کہ سات اکتوبر 2011 کو جب توکل کرمان کو نوبل امن انعام دیے جانے کا اعلان ھوا، تو کسی عقلمند کے دماغ میں آیا کہ کیوں نہ حکایت میں دیے گئے سبق کی پروموشن کی خاطر اس میں کسی محجوب و مشہور ہستی کا نام ٹھوک دیا جائے۔ اپنا مقصد تو محض عوام کی بھلائی ہے۔
اس کے بعد پھر "توکل کرمان" کا یہ قول زریں جنگل کی آگ کی طرح انٹرنیٹ پر پھیلا دیا گیا۔
اس جھوٹے قول سے قطع نظر، توکل کرمان کے پردے و حجاب و نقاب کے بارے حقیقی خیالات ان کے ایک انٹرویو سے ملاحظہ کریں۔


توکل کرمان نے تمام عمر چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہے لیکن پبلک لائف میں آنے کے بعد نقاب سے جان چھڑا لی۔
فرماتی ہیں، میرے دین میں کہیں نہیں لکھا کہ چہرے کا پردہ کرو۔ یہ تو محض ایک (معاشرتی) روایت ھے۔

مسلمانو۔ 
حیا کرو۔
اپنے لوگ نوبل انعام ملنے کے بعد تمہاری قومی اجازت کے بغیر ہی کرسٹانوں، یہودیوں و ملحدوں کے ساتھ میل جول رکھنے لگ گئے ہیں تو کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے نام سے جھوٹی روایات گھڑ گھڑ کر گھڑمس مچاؤ۔
جھوٹ بولے بغیر فارغ ٹائم نہیں پاس ھوتا تو کفار کے ساتھ -"لَو جہاد" -  (Love Jihad) کرو۔ تاکہ پولیو ڈراپس کے ذریعےمسلمانوں کی نس بندی کرنے کا سفلی عمل انہیں پراُلٹ دیا جائے۔ ویسے کفار نس بندی کا کام پولیو ڈراپس کی بجائے گھر گھر مفت بریانی کی تقسیم کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں۔ جمہور رائے یہی ہے کہ اس طریقہ کار کی عوامی مخالفت نہ ھونے کے برابر ھوگی۔
اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو جہاں شک پڑے کہ کوئی تمہارے  ایمانی اور ملی جذبے میں کسی جدید قول یا سائنسی تحقیق کے ذریعے ھیلیئم گیس بھرنے کی کوشش کررہا ہے، تو ہوشیار ہوجاؤ، اور تحقیق کرو کہ کہیں کوئی گیم تو نہیں کر رہا۔
اس قسم کی شرارتیں یوں تو بے ضرر نظر آتی ہیں، البتہ بعد کی نسلوں کو پریشانی ہوجاتی ہے۔

جن قاری حضرات کو اس تحریر سے اختلاف ہے، وہ توکل کرمان کے اس انٹرویو کا لنک فراہم کریں۔ تسلی ہونے پر انشاءاللہ تحریر سے رجوع کرلیا جائے گا۔ 
ورنہ نیچے کمنٹس میں اپنے اختلاف کی نوعیت درج کروائیں۔

16 اکتوبر، 2014

خوراک آپ کا مستقبل تبدیل کرسکتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی تحریر میں ایسا زبردست جملہ  نظر سے گزرتا ہے کہ بندہ ٹھٹک کر سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ اس بات کا یہ پہلو تو میں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے ان صاحب کے بلاگ کا پہلا پیرا گراف پڑھا تو یہی کیفیت طاری ہوگئی۔
 
آپ بھی پڑھیں اور حظ اٹھائیں۔


بات یوں تو بہت سادہ سی ہے  کہ اماں حوا نت نئے ذائقوں کے چکر میں اپنا ہاتھ کنٹرول نہ کر سکی اور آنے والی نسلوں کو جنت کی بجائے دنیا کی آزمائشیں جھیلنی پڑ گئیں۔

صاحب بلاگ کا قول قابل غور ہے کہ خوراک کی زندگی میں اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے جتنی عموماً ہم سمجھتے ہیں۔ جیسے پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک آسٹرین شہزادے کا قتل تھا۔  قاتل ایک ناکام کوشش کے بعد ایک کیفے میں بھوک کے ہاتوں کچھ کھانے پینے بیٹھا تھا کہ شہزادے کا قافلہ کیفے کے سامنے سے گزرا، اور قاتل کو اپنا کام پورا کرنے کا موقع مل گیا۔

اس بات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا۔
میں اب اپنے ماضی کے چیدہ چیدہ بہت ہی اہم (لائف ٹرننگ) سنگ میلوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت کھانے کا کوئی اور آپشن لینے سے  میرا مستقبل کتنا مختلف ہو سکتا تھا۔
مثلاً اگر میں شادی کے بعد اپنی بیوی کی پکائی بریانی سے پرھیز برتتا ، تو بہت پتلا ہوتا۔ مستقبل میں ہر چوتھے مہینے نئے کپڑے نہ سلوانا پڑتے۔ کافی خرچ بچ جاتا جس سے چار پانچ پلاٹ اور دس پندرہ ٹرک خریدے جاتے۔
یا اگر میں پندرہ ستمبر کو پوستی کے اصرار پر اس کو اس کا پسندیدہ برگر کھلا دیتا، تو میرے تعلقات اس سے اب کی نسبت کافی بہتر ہوتے۔
یا اگر 1996ء میں پروفیسر اللہ داد کو دو چار چرغے اور کھلا دیتا تو شائد میں آخری مہینوں میں اس کے ٹیسٹوں کی کلاس سے نہ نکالا جاتا۔ اور اب ڈاکٹر ہوتا۔
یعنی مستقبل کافی مختلف ہوسکتا تھا۔
:)

اوپر ذکر کیے گئے بلاگ کا ایڈریس یہ ہے۔
www.runninginlahore.wordpress.com

صاحب بلاگ سے ان کا لکھا نقل کرنے کے لیے ہرگز اجازت نہیں لی گئی۔ اور نہ ہی لینی ہے۔