کل عمران اقبال اور علی حسّان کے ساتھ ملاقات ھوئی۔
گپ شپ کے دوران عمران نے
ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا کہ بلاگر دنیا جہان کے موضوعات پر لکھتے ھیں، لیکن
حال ہی میں ایک چار پانچ سالہ بچی سے ھونے والی جنسی زیادتی پر کسی نے بھی نہیں
لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
بات سولہ آنے سچ ہے۔
بلاگر تو چھوڑیں، عام آدمی بھی جنس سمیت تمام
"شرمناک" معاشرتی موضوعات پر بات کرنے سے کنّی کترا جاتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ اس
اندھے پن اور رازداری کی کچھ مخصوص وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ کہ پاکستانی مردوں کی اکثریت انٹروورٹڈ (introverted) یعنی طبعاً
خاموش، شرمیلے، کم گو، فرمانبردار اور ریزرو ہیں۔
خاموشی اور اطاعت کے اس کلچر میں کھلے
ڈُلے (extroverted) بریک مارے بغیر بولنے چالنے والے لوگوں کو عموماً شوباز، شوہدا
اور اوباش سمجھا جاتا ہے۔
کم گو بندے کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی معاملے پر رائے
تو دے بیٹھتا ہے، لیکن اس کا دفاع کرنے کے لیے "بروقت "دلیلیں دینا اس
کو ذرا سا اوکھا کام لگتا ہے۔ جس وجہ سے وہ ایک دو ناکام تجربوں کے بعد رائے دینے کے عمل پر ہی لعنت بھیج دیتا ہے۔ مزید
یہ کہ کم گو بندہ دماغ میں اپنی رائے کی پروف ریڈنگ کرتےہی اتنا وقت لگا دیتا ہے کہ بات
پرانی ہو کر کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہوتی ہے۔ (ویسے بھی سیانے کہتے ھیں کہ جو مُکا لڑائی کے بعد یاد آئے، وہ اپنے منہ پر ہی مار لینا چاھیئے۔
اور جو دلیلیں بحث کے بعد یاد آئیں ، وہ
لکھ کر رکھ لینی چاھیئیں تاکہ کبھی جب دوبارہ اسی موضوع پر بحث ہو تو پڑھ کر سنائی جا سکیں )
چنانچہ شریف لوگ عموماً ایسے معاملات پر رائے دینے سے پرھیز
کرتے ھیں، جہاں امکان ھو کہ کوئی اوباش
شخص ان کے ساتھ اختلاف رائے کرنے کی
گستاخی کرکے یہ طعنہ استعمال کر سکتا ہے کہ "چل او چل۔ بات کا پتہ ہوتا نہیں
اور آ جاتے ہیں ۔۔ ۔۔ "۔
یاد رہےکہ کم گو افراد کے لیے"اوباش" افراد کو
بحث میں ہرانا انتہائی مشکل کام ہے۔ہرانے کو چھوڑیں، اوباش بندوں سے گفتگو کے
دوران بولنے کے لیے ٹائم لینا ہی بہت بڑا چیلنج ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ ہمیں گھر میں بچپن سے ہی بتایا جاتا ہے
کہ اپنے جنسی اعضاء کسی اجنبی کے سامنے
ننگے نہیں کرنے۔
اس کے بعد (اور اس کے علاوہ ) گھر میں ہمیں جنسی اعضاء اورجنسی عمل کے
بارے اور کچھ بتایا/ سکھایا نہیں جاتا۔
البتہ اگر بچہ اس
سے متعلق کوئی بات پوچھے تو موضوع کو ویسے
ہی گول کردیا جاتا ہے، یا پھرجھڑک کر چُپ کروا دیا جاتا ہے۔ (اس طرح کی باتیں کرنے والے "گندے بچے" ہوتے ہیں۔ خبردار جو تُم آئندہ اُس کے ساتھ بیٹھے۔!!! )
اس رویے کی وجہ سے بچپن سے ہی ذہن میں یہ بات نقش ہوجاتی ہے کہ جنس سے متعلق تمام موضوعات پر بات کرنا کافی بُری
بات ہے۔
تیسری وجہ سب سے اہم ہے۔
فرض کریں کہ اگر بے تکلف لوگوں میں ان موضوعات پر بات ھو ہی جاتی ہے، تو اگر کوئی کانی آنکھ کر کے پوچھ لے کہ استاد! ۔ یہ ساری باتیں "تجھے" کیسے
پتہ ہیں؟؟؟۔ "بچپن" کا کوئی "پرسنل"
تجربہ تو نہیں۔ ۔ ۔ ۔؟؟؟
پھر کیا کریں گے؟
عموماً اس شرارت بھرے سوال
کے فوراً بعد پوچھنے والا انتہائی فحش ہنسی ھنسنا شروع کردیتا ہے۔
یہ بے ضرر سا سوال بہت ہی پیچیدہ ہے۔
اگر اس سوال کا جواب "نہیں" دیا جائے یا خاموش رہا جائے تو ساری بات مذاق اور قہقہوں کی نظر ھو جاتا ہے۔
اگر اس سوال کا جواب "ہاں" میں دیں تو ۔۔ ۔۔
پچھلے بیس سالوں میں میرے سامنے دوستوں کی محفلوں میں صرف
دو لوگوں نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔ اور وہ دونوں افراد (اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہی ہماری نظر میں)
طبعاً انتہائی بے غیرت اور بے شرم لوگ تھے۔
اس سوال کا جواب ہاں میں کوئی بھی نہیں دیتا۔
متوقعہ توہین ، بے عزّتی اور مذاق اڑائے جانے کا وقتی خوف لوگوں کو اس قسم کے موضوعات پر سنجیدہ بات نہیں کرنے دیتا۔
تو جی۔ اسی لیے بلاگر ان معاشرتی موضوعات پر بات نہیں کرتے۔
یاد دہانی:
اوپر لکھا گیا سب کچھ مرد ذات کے زاویے سے ہے۔
میں اب تک کم از کم تین بلاگ لکھہ چکا ہوں اس حوالے سے جناب .ویسے آپ کی بات بھی غلط نہیں نجانے کیوں ایسے معاملات پر کم ہی لکھا جاتا ہے
جواب دیںحذف کریںآپ رِیت ڈالیں۔ میرا خیال ہے بچپن کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ بچپن میں بدفعلی ہی کسی نے کی ہو۔اس لیے اس موضوع پر بات کی جائے تو پھر سیدھا سیدھا اپنا حوالہ دیکر بات کی جائے تا کہ وزن پیدا ہو۔
جواب دیںحذف کریںعامر بھائی۔
حذف کریںبدقسمتی سے میرا لکھنے کا سٹائل ذرا ہلکا ھے۔
میں اپنی جہالت کی بناء پر بھاری فلسفے اور الفاظ استعمال نہیں کر سکتا۔ اسی لیے جو کچھ اپنے اردگرد مشاہدہ کیا ھے، اس کو ڈائری کے پرسنل سٹائل میں بیان کردیتا ھوں۔
پتہ نہیں کیوں آپ کا کمنٹ پڑھ کر مجھے لگا ھے کہ میری پوسٹ پڑھ کر آپ کے منہ سے رال سی ٹپک رہی ھے
میں اور عمران آپ کی توجہ بچوں کے ساتھ بدفعلی کے واقعات میں موجود مصالحہ کی طرف نہیں بلکہ اس امر کی طرف دلا رہے تھے کہ مستقبل میں آپ نے بچوں کا باپ بننا ھے اور اُس کو معاشرے کے برے پہلووں سے بچاتے ھوئے اچھا انسان بنانا ھے۔
اس لیے بلاگروں کو ان نام نہاد خفیہ پہلووں پر لازمی طور پر کھل کر لکھنا چاھیئے تاکہ اگر کوئی بھولا بھٹکا قاری بلاگ پر آ ہی جائے تو کچھ سیکھ کر ہی جائے۔
کیا خیال ھے؟
آپ کی لکھی ہوئی وجوہات میں یہ وجہ بھی جمع کر لیں۔۔۔ کہ آج کل کے لکھاری اپنی ذات سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔۔۔ اور نکلیں بھی تو من حیث القوم ہم تماش بین اور گل گپاڑے پسند کرتے ہیں۔۔۔ اور یہی کام ہمارے زیادہ تر بلاگر حضرات کر رہے ہیں۔۔۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی بات بالکل ٹھیک ھے۔ من حیث القوم ہم تماش بین واقع ھوئے ھیں، اسی لیے ہمیں میڈیا جس طرف ناک پکڑ کرلے چلتا ھے، اُس طرف نکل جاتے ھیں۔
حذف کریںابھی کچھ دن ٹھیریں۔ یہ بچی والا معاملہ دب جائے گا تو کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ ایسا بھی کچھ ھوا تھا۔
Bht bra such keh dia bhai aap ny
حذف کریںہم نے بھی جناب اس موضوع پر لکھا ہے اور اس سے پہلے جنس پر کئی دفعہ لکھ چکے ہیں۔ آپ ہمارے بلاگ پر ایسی تحاریر تلاش کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہم نے آپ کی طرح اپنے ذاتی تجربات کے حوالے نہیں دیے۔ آپ بسم اللہ کیجیے تا کہ دوسروں کو بھی ذاتی جسنی تجربات بیان کرنے کا موقع ملے۔
جواب دیںحذف کریںویسے سچ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت ان جنسی تجربات سے گزر چکی ہے اور سب جانتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد آج کل کتنے لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ ناجائز جنسی زیادتیاں ہو رہی ہیں مگر زیادہ تر کیسوں میں دونوں پارٹیوں کی رضامندی ہوتی ہو گی جو یہ کیس منظرعام پر نہیں آتے۔
دیکھیں جی۔
حذف کریںیہ بلاگ صرف اس موضوع پر تھا کہ اردو بلاگر معاشرے میں موجود ان جنسی جرائم پر کیوں نہیں لکھتے۔ یعنی کہ کمرے میں موجود ہاتھی کو کیوں نہیں دیکھتے۔
مجھے نہیں معلوم کہ قاری صاحبان نے پورا بلاگ چھوڑ کر ایک سطر میں موجود مشاہدے کو کیوں پکڑ لیا ھے۔
ناجائز جنسی زیادتیوں پر انشاءاللہ مستقبل میں بات ھوگی۔
میرے خیال میں جنس پر نہ لکھنے کی وضاحت۔۔ آپکی پوسٹ کے عُنوان نے خود کردی ہے یعنی ۔"۔گندی باتیں"!!!۔
جواب دیںحذف کریںمیں نے اِس واقعہ پر کیوں نہیں لکھا ؟ رب جانتا ہے کہ ایسے واقعات پڑھنے کو میرا دل نہیں چاہتا ہے، یقین کریں کہ اِس واقعہ کو بھی میں نے نہیں پڑھا ہے ۔۔۔
میں نے جنس پر کچھ پوسٹیں لکھیں ہیں، ایک پوسٹ ایسی ہے کہ جس میں میں نے جناب اجمل بھوپال صاحب کے تبصرے پر ایک بُہت ہی پُر مزاح جوابی تبصرہ کیا ہے، مجھے کچھ یقین ساہے کہ پڑھ کر آپ محظوظ ہونگے اس لیے ہوسکے تو لنک پر جائیں ۔
۔ اور مجھے اجازت دیں آپکا بُہت شُکریہ ۔۔(ایم۔ڈی)۔
http://universe-zeeno.blogspot.com/2011/01/blog-post_14.html#comment-form
اصل وجہ ہمارے لوگوں کی دوسروں کے بارے میں عدم بداشت اور اپنے لئے سب جائز ہے ۔ جہاں تک پانچ سالہ بچی کی بات ہے اس کے متعلق پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے جتنا کچھ نزر کیا ہے اس کے بعد کم از کم میں تو اس کا ذکر بھی کرنا نہیں چاہتا گو بچی اور باقی سب بچیوں کے حفظ و امان کیلئے ہر وقت دعا کرتا ہوں
جواب دیںحذف کریںاپنے سیکس کے تجربات لکھنے کے متعلق میرا خیال ہے کہ جو دنیا میں آج تک لکھے گئے ہیں اُن میں حقیقت کم اور افسانہ زیادہ مقدار میں ہے ۔ اور جو اب بلاگ پر لکھیں گے اُن سے بہتری کی توقع نہیں ۔ اگر کسی نے حقیقت لکھنے کی دلیری کی تو قارئین اُسے دوباہ لکھنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے
جواب دیںحذف کریںآپ سے متفق ھوں۔
حذف کریںلیکن ضروری نہیں کہ حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ھو۔
پاکستانی مردوں کی اس موضوع سے دل چسپی کا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ اب تک کے غالبا سب سے زیادہ تبصرے اسی پوست پر ہوئے۔ اور یہ بھی کہ میرا پہلا تبصرہ آپ کے بلاگ پر آپ کے اس موضوع پر کی بورڈ کشائی کے بعد لکھا گیا۔
جواب دیںحذف کریںلو کر لو گل۔
آپ کی آبزرویشن صحیح ھے۔ اس بلاگ پر اتنے تبصرے ھونے کی وجہ "دلچسپی" ہی ھے۔
حذف کریں:)
بلاگ پر خوش آمدید۔
ممنوع هى مرغوب هوتا ہے
حذف کریںمحترم جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب : آپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ " اپنے سیکس کے تجربات لکھنے کے متعلق میرا خیال ہے "۔ تو جناب فٹافٹ لکھ ڈالئیے نیک کام میں دیر کیوں !! ۔۔
جواب دیںحذف کریںچلیں اس نیک کام کی ابتدا میں اپنے تجربے کر رہا ہوں، مجھے کمپیوٹر کے بارے میں بہت ہی کم یعنی نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں، سوشل میڈیا پر اکاؤنت نہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہیں سبکی نہ ہوجائے۔۔ میرا خیال ہے اب میں اپنا تجربہ بیان کرہی دوں ۔ یہ تمہید اس لیےضروری تھی کہ اسکا تعلق اُس تجربہ سے ہے کہ جسکو میں بیان کرنے والا ہوں ۔۔میں اپنے جاننے والے کے گھر گیا وہاں جسٹ فار لاف دیکھنے کے حوالے سے میں نے یو ٹیوب بندش کا تذکرہ کیا اُنکا بیٹا جوکہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے وہ اس وقت ڈرائنگ روم بیٹھا پڑھ رہا تھا اور ہماری باتیں بھی سُن رہا تھا ۔۔جب باپ چائے وغیرہ لینے اندر گئے ۔۔بیٹے نے ایک کاغز کا ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا کہ انکل: اِس سائیٹ پر جائیں ۔۔یو ٹیب۔ کُھل جائے گا۔۔ میں نے پرچہ پڑھا اور جیب میں رکھ لیا ۔۔گھر آکر اپنے روم میں سائٹ " پروکسی " کو کھولا تو یو ٹیوب کھل گیا ، گانے بھی سُنے دیگر وڈیوز بھی دیکھیں خوب خوش ہوئے۔ دوسرے یا تیسرے دن ایک آپشن پر نظر پڑی جو بالغوں کیلئے تھی، کلک کر کے دیکھا تو اتنی گِھن محسوس ہوئی کہ نہ پوچھیں ۔۔۔ساتھ ہی عورت پر ہونے والا جبر روح تک کو زخمی کردیا، ( اس کیفیت کو اپنی آئیندہ پوسٹ میں ظاہر کرونگا) میرے خیال میں کوئی بھی عورت ۔۔ایسا نہیں کرسکتی ہے۔۔ اور نہ ہی ایسا کرا سکتی ہے ۔۔ سوائے مجبوری کے ۔۔۔یعنی جسمانی طاقت کی مجبوری یا پیسے کے طاقت کی مجبوری ۔۔۔ اب ایک دوسرے احساس کی بات وہ یہ کہ یو ٹیوب کے بند ہونے کی وجہ آٹھویں جماعت کا طالب پاکستان کا مستقبل پروکسی تک پہنچا ۔۔۔یقینناً وہ بالغوں کی سائٹ پر بھی گیا ہوگا ۔۔اور ایسے کتنے ہی پاکستانی بچے اس غلط لت کے شکار ہوئے ہونگے ۔۔۔۔۔ اب مجھے اجازت دیں۔۔۔ آپکا بُہت شُکریہ ۔۔ایم ۔ڈی۔
Md-noorSeptember 24, 2013 at 10:03 PM
جواب دیںحذف کریںمحترم جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب : آپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ " اپنے سیکس کے تجربات لکھنے کے متعلق میرا خیال ہے "۔ تو جناب فٹافٹ لکھ ڈالئیے نیک کام میں دیر کیوں ؟؟ ۔۔
چلیں اس نیک کام کی ابتدا میں اپنے تجربے کر رہا ہوں، مجھے کمپیوٹر کے بارے میں بہت ہی کم یعنی نہ ہونے کے برابر معلومات ہیں، سوشل میڈیا پر اکاؤنت نہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہیں سبکی نہ ہوجائے۔۔ میرا خیال ہے اب میں اپنا تجربہ بیان کرہی دوں ۔ یہ تمہید اس لیےضروری تھی کہ اسکا تعلق اُس تجربہ سے ہے کہ جسکو میں بیان کرنے والا ہوں ۔۔میں اپنے جاننے والے کے گھر گیا وہاں" جسٹ فار لاف " دیکھنے کے حوالے سے میں نے یو ٹیوب بندش کا تذکرہ کیا اُنکا بیٹا جوکہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے وہ اس وقت ڈرائنگ روم بیٹھا پڑھ رہا تھا اور ہماری باتیں بھی سُن رہا تھا ۔۔جب باپ چائے وغیرہ لینے اندر گئے ۔۔بیٹے نے ایک کاغذ کا ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا کہ انکل: اِس سائیٹ پر جائیں ۔۔یو ٹیوب کُھل جائے گا۔۔ میں نے پرچہ پڑھا اور جیب میں رکھ لیا ۔۔گھر آکر اپنے روم میں سائٹ " پروکسی " کو کھولا تو یو ٹیوب کھل گیا ،" جسٹ فار لاف" دیکھا، گانے بھی سُنے دیگر وڈیوز بھی دیکھیں خوب خوش ہوئے۔ خوشی کی وجہ سے میں نے کسی اور آپشن پر توجہ نہ دی۔۔ دوسرے یا تیسرے دن ایک آپشن پر نظر پڑی جو بالغوں کیلئے تھی، کلک کر کے دیکھا تو اتنی گِھن محسوس ہوئی کہ نہ پوچھیں ۔۔۔ساتھ ہی عورت پر ہونے والا جبر روح تک کو زخمی کردیا، ( اس کیفیت کو اپنی آئیندہ پوسٹ میں ظاہر کرونگا) میرے خیال میں کوئی بھی عورت ۔۔ایسا نہیں کرسکتی ہے۔۔ اور نہ ہی ایسا کرا سکتی ہے ۔۔ سوائے مجبوری کے ۔۔۔یعنی جسمانی
طاقت کی مجبوری یا پیسے کے طاقت کی مجبوری ۔۔۔ اب ایک دوسرے احساس کی بات وہ یہ کہ یو ٹیوب کے بند ہونے کی وجہ سے آٹھویں جماعت کا طالب علم پاکستان کا مستقبل "پروکسی" تک جا پہنچا ۔۔۔یقینناً وہ بالغوں کی سائٹ پر بھی گیا ہوگا ۔۔اور ایسے کتنے ہی پاکستانی بچے اس غلط لت کے شکار ہوئے ہونگے ۔۔۔۔۔ اب مجھے اجازت دیں۔۔۔ آپکا بُہت شُکریہ ۔۔ایم ۔ڈی۔
دیکھو بھائی جنس پر بندہ کیا لکھے؟
جواب دیںحذف کریںاس ملک کے گھُٹے ہوئے معاشرے میں درونِ پردہ سب کچھ ہوتا ہے۔ فحاشی عریانی کا پِٹ سیاپا کرنے والے اسی کُت خانے کو آئے دن روتے رہتے ہیں۔ بلاگ کیا اخبارات کے صفحے ہر روز اسی کام پر کالے ہوتے ہیں۔ اس پر اب ہمارے جیسے کیا لکھیں جو انتہائی ذاتی حیثیت میں لکھتے ہیں، ذاتی تجربات پر لکھنے کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو اشتہار بنا لیا جائے۔ اور ایسا یا تو وہی کر سکتا ہے جو انگریزی میں لکھتا ہو، گَے ہو اور اصلی کی بجائے "قلمی" نام سے لکھتا ہو۔ اور کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ذاتی تجربات لکھے۔ جہاں تک بات طبی، معاشرتی پہلوؤں کی ہے اس کے لیے یا تو بندے کو سیکسالوجسٹ ہونا چاہیئے یا اوریا مقببول جان اور ایسے لوگ بکثرت موجود ہیں۔ مزید کی ضرورت ہی نہیں۔
اور اُس بچی پر بندہ کیا کہے، ایسے کنجروں پر تو لعنت بھیجنے کو بھی دل نہیں کرتا، اس پر لکھنے کو کچھ ہے بھلا؟ مذہبی جنونیوں نے میڈیا پر ذمہ داری ڈالی اور ایک طرف ہو گئے، لبرل فاشسٹ بکنی والے نصاویر شئیر کرتے رہ گئے کہ انگلی دینے کے لیے بکنی پہنی ہونا ضروری نہیں مرد کی گندی سوچ کی ضرورت ہے۔ اور میرے جیسے دوغلی نسل کے لوگ درمیان میں مفت میں ہی بدنام۔ وہی گونگی بدمعاشی والی بات جو بیوی نے شوہر کو سنا سنا کر تنگ آ جانے کے بعد کہی تھی۔
ہاہاہاہا
جواب دیںحذف کریںبہت اچھا لکھا اور سچا لکھا
ہماری جنسیات محض افسانوں تک چلتی ہےبھائی جان
بلاگ پر سرچ الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ بتا نہیں سکتا کسی کو خود لکھنا تو دور کی بات ہے کہ بات وہی ہے ہمارے نزدیک یہ گندی بات ہے لیکن ایک بات ہے اب اپنی ٹریفک بڑھتی دیکھیں
ایم ڈی نور صاحب ۔ میرے جواب کی محمد شاکر عزیز صاحب نے وضاحت کر دی ہے کہ اپنے آپ کو اشتہار بنایا جائے ۔ رہی بات معاشرے کی تو عرض ہے کہ میں ہمیشہ حیران ہی ہوتا رہا مگر معاشرے کا فرد بننے کی جراءت نہ کر سکا ۔
جواب دیںحذف کریںوە بے چارە منٹو ہی تھا جو بدن ہوتا رہا پر آج اس کے کردار بھی غیرت والے نظر آتے ہیں
جواب دیںحذف کریںبدنام
جواب دیںحذف کریںعلی بھائی بات آپ کی بالکل ٹھیک ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی باتوں سے گریز کیا جاتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںلیکن اس گریز نے جہاں بہت سی دوسری معاشرتی اور اخلاقی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں، وہاں بطور ایک قوم، ہم نے اس سبجیکٹ کو ہی "گندہ" ڈیکلئیر کردیا ہے۔
اگر آج بھی کوئی یونیورسٹی یا کالج جنسیات بطور ایجوکیشن سٹریم(جیسا کہ معاشیات)شروع کرے، تو ہمارے کنزرویٹیو حضرات نے دوسرے دن سارے ملک کی گاڑیاں جلادینی ہیں۔
یہاں اپنے ایک پروفیسر صاحب کے خیالات لکھنا چاہ رہا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔ وہ بات ذرا زیادہ ہی بولڈ ہوجائے گی۔