پچہلے
دنوں ایک میٹنگ میں انتہائی فیشن ایبل اورتعلیم یافتہ افریقی خاتون سے ملاقات ہوئی۔
اتا پتا معلوم کیا تو ایتھوپیا کی نکلی۔
ایتھوپیا!!
جس کا نام لے کر ملک دوسرے ملکوں کو دھمکیا ں دیتے ہیں کہ تجھے ایتھوپیا
بنا ڈالوں گا۔
جہاں کے بھوکے بچوں کی تصویریں بنا کر مغربی دنیا میں
فوٹوگرافی کے ایوارڈ جیتے گئے ہیں۔
انہی فوٹوگرافروں نے دنیا بھر میں ایتھوپیا کا
تصور ایک بدترین غربت کے شکار قحط زدہ ملک کے طور پر پھیلایا ہے۔
(یعنی کدھر سے چوری کیے؟۔)
معلوم ہوا کہ خاتون کافی کی کافی بڑی ایکسپورٹر ہے۔
موازنے کے لیے ذرا غور کریں۔اسی سال میں
انڈیا کی شرح ترقی 7.8%، چین 9.8%، پاکستان 2.7% تھی۔
سال 2011 میں ایتھوپیا کی معاشی ترقی کی رفتار
عالمی طور پر چودہویں نمبر پر تھی۔
ایتھوپیا دنیا میں سب سے زیادہ کافی پیدااور
برآمد کرنے والا علاقہ ہے۔
اسی طرح جانور، گندم اور روئی برآمد کرنے
میں اس کا کافی بڑاشئیر ہے۔ ۔
بیرونی سرمایہ کاروں نے ملک کی راہ دیکھ لی ہے۔
چینی لوگ صرف پچھلے سال میں تعمیراتی اور صنعتی
شعبے میں ایک ارب ڈالر لگا چکے ہیں (یعنی جتنے پیسے ایتھوپیا کو کافی اور
دوسری اشیاء کی برآمد سے ملتے تھے، اس سے بھی دگنے)۔
جرمنوں نے 16 یونیورسٹیاں بنا کر دی ہیں۔
ملک میں دھڑادھڑ ڈیم، سڑکیں، پل اور فیکٹریاں
بن رہی ہیں اور لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔
اب تو حالات یہ ہیں کہ ایتھوپیا کی فصلوں کا ریٹ نیویارک اور
لندن کی کموڈیٹی فیوچر مارکیٹس میں طے ہوتا ہے۔
(یہ اور بات کہ اسی دن ایتھوپیا میں لاگو بھی ہو جاتا ہے، جس کی وجہ
سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس کا توڑ کرنے کے لیے لوگ پیسے ڈالروں کی شکل میں رکھتے ہیں۔ سب
سے مزیدار بات کہ کافی جس ملک میں پیدا ہوتی ہے، اس ملک کے لوگوں کی پہنچ سے
باہر ہوتی جارہی ہے۔اس کے پیچھے فلسفہ یہ کہ خود پی کر کافی ضائع کرنے سے بہتر ہے
کہ کسی اور ملک کے نشئیوں کو بیچ کر پیسہ کمایا جائے۔)
یہ ساری بکواس سن کر دل چاہا کہ ایتھوپیا کی
نیشنیلٹی اختیار کرلوں ۔ گہر آ کر کچھ تحقیق کی تو ارادہ ترک کر دیا۔
اس کام کے لیےچار چیزوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
ماپنے کے لیے عموماً ان
کو یہ ساری اشیاء بیچنے والوں کی آمدن/فروخت کا حساب لگایا جاتا ہے۔
یہ ساری معلومات تمام کاروباری ادارے کسی نہ کسی شکل میں حکومتی اداروں
(مثلاً ٹیکس ڈیپارٹمنٹ، کاروباری رجسٹریشن آفس وغیرہ) کو سالانہ دیتے رہتے ہیں۔
مثلاً مکان، پلازہ، مشینیں،
اوزار، فیکٹریاں وغیرہ۔ یہ معلومات بھی عوام غیرمحسوس طریقے سے حکومتی اداروں کو
دے رہے ہوتے ہیں۔
برآمدات جتنی زیادہ ہوں گی،
ملک میں ڈالر اتنےہی زیادہ پہنچیں گے۔( پٹرولیم مصنوعات، نت نئی ٹیکنالوجی اور ہرچیز
جو ملک میں پیدا نہیں ہوتی یا بنائی نہیں جاتی، یہی ڈالر دے کر دوسرے
ملکوں سے خریدی جاتی ہیں۔ تاکہ عوام کا دل لگا رہے۔ اگر ڈالر ہی نہیں ہونگے ،
تو عوام کی کمانے کی اہلیت متاثر ہوگی )
جو کہ ادھر ادھر سے پیسے پکڑ
کر کیے جاتے ہیں تاکہ کسی طرح عوام کا معیار زندگی، ان کی کمانے کی اہلیت
اور حکمرانوں کی عیاشیوں کو بڑھاوا دیا جاسکے۔ یہ وہ سارے خرچے ہوتے ہیں
جو حکومتی بجٹ میں پیش ہوتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی عوام کی ترقی کا زیادہ مناسب معیار اس ملک میں
تعلیم کے معیاروشرح، صحت کی سہولتوں کے حالات، بدمعاشی/شرافت کا رجحان
وغیرہ ہونا چاہئے کیونکہ یہی چیزیں معاشی لحاظ سے بہتر اہلیت اور مواقع فراہم
کرتی ہیں اور احساس تحفظ دلاتی ہیں۔ جیّد اکنامسٹوں کا فرمانا ہے کہ اگر
مواقع اور اہلیت کے ہوتے ہوئے بھی انسان غریب ہے تویہ اس کی پرسنل حرام زدگی
اور سُستی ہے، ریاست/حکومت یا گہر والوں کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
(مواقع سے مراد دوسرے کا موبائل فون اپنے زور بازو یا زور گن سے چھیننا نہیں، بلکہ
اپنی تعلیم، ہنر و عقل استعمال کر کے پیسے بنانا ہے)۔
سالانہ جی ڈی پی گروتھ کے حساب سے عالمی طور پر ایتھوپیا کا نمبرچودہواں
ہے، لیکن اگر ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس کو دیکھیں تو شمار آخری چودہ
ملکوں میں سے ہوتا ہے۔ یعنی ابھی تعلیم و صحت/معاشرتی ترقی کے شعبے میں تقریباً
کورے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ساری معاشی ترقی ابھی چند ہاتھوں تک مرکوز ہے۔
(2011 کی آدہی جی ڈی پی آبادی کے صرف 20 فیصد لوگوں نے کمائی)۔
پاکستانی اور فارن نیشنل پاکستانی (بمشمول
افغانی) حضرات اپنے ممالک کی سالانہ
جی ڈی پی گروتھ اور ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس دیکھ کر سوچیں کہ کتنے پانی میں ہیں۔
(یعنی پانی ہے بھی یا ڈیم بنانے تک سارے دریا سوکھ جائیں گے؟؟)۔