8 جولائی، 2008

ھندوستانی ٹھگ - عقائد


ٹھگ مسلمان، ھندو یا کسی بھی مذہب سے ھو سکتے تھے، لیکن ضعیف الاعتقادی  کے سبب یہ سب بھوانی نام کی ایک دیوی کی بھی پوجا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بھوانی ٹھگوں کی پرسنل دیوی ھے جو ان کو شکار کی نشاندھی کرتی ھے اور ان کا جرم چھپانے میں مدد کرتی ھے۔

21 جون، 2008

ھندوستانی ٹھگ


انگریز ھندوستان پر قبضے کے دوران اپنی جن سماجی کامیابیوں کا تذکرہ بہت فخر سے بیان کرتے ھیں، ان میں سے ایک ٹھگوں کے منظم گروہوں  پر قابو پانا ھے، جو کہ پندرھویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک تین سو سال تک ھندوستان بھرکے راستوں میں  دھڑلّے سے منڈلاتے رھے۔

6 جون، 2008

میں بلاگ کیوں لکھوں گا؟ - دوسرا حصہ


 کتابیات:
میں 1986 میں سعودی عرب سے  مستقل طور پر پاکستان واپس آگیا۔ میرے بڑے بھائی کتابیں پڑھنے کے شوقین تھے اوراباجی کے سعودیہ ھونے کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے پاکستان میں کافی کتابیں اکٹھی کی ھوئی تھیں۔۔ لیکن ھر طرح کی نہیں ۔ بلکہ بہت ھی عجیب و غریب۔ (کم از کم مجھے اس عمر میں عجیب ھی لگتی تھیں )۔ مثلاً۔ عملی نفسیات۔  ابواعلیٰ مودودی۔ دست شناسی۔خلیل جبران۔دیسی جڑی بوٹیوں کے خواص۔جنرل نالج۔ یعنی کہ کسی بھی قسم کے ڈائجسٹ، افسانے ، ناول   یا اسی قسم کی پرلطف کیٹیگری کی کوئی کتاب گھر پر نہیں تھی۔

ھمارا گھر شہر سے قدرے دور ایک تقریباً بے آباد کالونی میں تھا۔ اور سکول کے بعد شدید تنہائی تھی۔ اس لیے مصروفیت ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھے دس سال کی عمر سے کتابوں کی لت لگ گئی۔

آھستہ آھستہ  اردو پڑھنے کی رفتا ر اتنی ھو گئی کہ کھڑے کھڑے  چند گھنٹوں میں  پوری کتاب چاٹ جاتا۔اسی سپیڈ ریڈنگ کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ  میرے بھائی جو کتابیں میونسپل لائبریری سے لاتے ، ان سے پہلے میں کتاب چھپا کر پڑھ جاتا اور بھائیوں سے "اپنی عمر سے بڑی" کتابیں پڑھنے پر گالیا ں کھاتا۔جہاں اس سپیڈ ریڈنگ نے  مجھے ذھنی طور پر سہارا دیا، وہیں اس کا ایک نقصان بھی ھوا اور وہ یہ کہ کتاب تو پوری پڑھی جاتی لیکن کتاب پڑھنے کا لطف آھستہ آھستہ جاتا رھا۔ کتاب کے مین پوائنٹ تو یاد رھتے لیکن بیچ میں کیا گھوڑے دوڑ رھے تھے ، ان کی تعداد و خصوصیات آفٹر شیو کی طرح فضا میں تحلیل ھو جاتیں۔

یہ سب مطالعہ اردو کتب کا تھا۔

2005 میں لاھور  لبرٹی مارکیٹ میں واقع  گلیکسی بک سٹور میں یونہی پہلی دفعہ گُھسا تو انڈیا میں سستے کاغذ پر  چھپے انگریزی کتابوں کے پائیریٹڈ ایڈیشنزکی قیمتیں دیکھ کر حیران ھو گیا۔ عموماً لاھور میں کتب فروش کتابوں کی قیمت یہ دیکھ کر طے کرتے ھیں کہ کتاب کس زبان کی اور کتنی ضخیم  ھے۔ اسی لیے عموماً انگریزی ردّی کا بھاؤ بھی آسمان سے باتیں کرتا ھے۔ گلیکسی میں تقریباً تمام انگریزی کتب 20 روپے سے لے کر پچاس ساٹھ تک میں بک رھی تھیں۔ اسی لیے رال ٹپک پڑی اور تُکے سے  ایک سستی سی کتاب بنام "آخری مغل" تصنیف بہ ولیم ڈیلرمپل خرید لی۔  یہ کتاب بہادر شاہ ظفر اور 1857 کے غدر کے متعلق تھی۔

اس کتاب کے ختم کرنے کے بعد میری  اردو کتب بینی کی لت کی موت واقع ھو گئی۔

مجھ پر آشکار ھواکہ انگریزی زبان میں لکھی گئی تاریخ کی کتابیں عموماکئی سال کی  ریسرچ کے بعد لکھی جاتی ھیں اور انگریزی مصنف اپنی کتاب میں ، اسی موضوع کی اردو زبان کی تاریخ کی طرح عموماً مختلف واقعات کو سنسرکرنے کی بجائے ان سے منسوب تمام حوالے دے کر سچ جھوٹ کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیتے ھیں۔

اسی لیے میں تب سے انگریزی کتب پڑھ رھا ھوں۔ (ایک وجہ ویسے یہ بھی ھے کہ اردو میں تب سے  احمد بشیر کی دل تو بھٹکے گا کے بعد کوئی قابل ذکر کام نہیں دیکھا۔ شائد سب تخلیقی لوگوں کو میڈیا کھا گیا اور مزید یہ کہ اب سنگ میل کی کتب ھزاروں روپے میں بکتی ھیں ، جس کی اوقات نہیں ، اس لیے اُن کتب کو عموماً دکان میں ھی سپیڈ ریڈنگ کر کے پھڑُس  کر دیتا ہوں)۔

میرے بلاگ کا ایک مقصد پڑھی ھوئی انگریزی  کتابوں کے اچھوتے حصوں کو بلاگ کے ذریعے اردو قاری تک لے کر آنا ھے تاکہ پڑھیں اورسوچ کا الاؤ گرم کریں۔

3۔ علم دریاؤ
 پاکستان میں جس رفتار سے انٹرنیٹ مختلف حلقہ فکر کے لوگوں تک پھیل رھا ھے۔ اس کو دیکھتے ھوئے میرا خیال ھے کہ آنے والے کچھ سالوں میں اردو میں اب لکھا گیا آن لائن مواد کروڑوں عوام کے لیے کافی فائدہ مند ھوگا۔

اردو بلاگز میں آپ ھر طرح کے موضوعات  دیکھیں گے۔ مذھب، سیاسیات، مزاحیات، ذاتیات،بکواسیات۔۔ لیکن اگر نہیں دیکھیں گے تو علم معاشیات یا روپے پیسے  سے متعلق موضوعات نظر نہیں آئیں گے۔شائد اس کی وجہ یہ ھے کہ یا تو بلاگرز  کو ان علوم کی اہمیت کا احساس نہیں یا پھر ھمارے لوگ روپے پیسے سے متعلق علوم پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتے۔ (یہ اور بات ھے کہ روپے پیسے کو چاٹنے سے کراھت نہیں آتی)۔  یہ بھی اھم ھے کہ ھماری معاشیات کی کتابیں کافی گاڑھی اردو میں لکھی ھوتی ھیں یعنی کہ قانوں برائےافادہ مختمم  کی اصطلاح کو دیکھ کر ھی عوام کی اردو معاشی علم کی پیاس سڑ بُجھ جاتی ھے۔چونکہ میرا پیشہ اور پچھلے پندرہ سال کی پڑھائی بھی اسی سے متعلق ھے ،  اس لیے اس موضوع پر  آسان زبان میں لکھوں گا۔چنانچہ ان تین بنیادی مقاصد کو لے کر میں اردو بلاگنگ دنیا میں چھلانگ لگا رھا ھوں۔



30 مئی، 2008

میں بلاگ کیوں لکھوں گا؟ - پہلا حصہ


میرے بلاگ لکھنے کے پیچھے پڑھنے والے کا ٹائم ضائع کرنے کے علاوہ  کئی سارے مقاصد ھیں۔ مثلاً:

۱۔ آن لائن ڈائری :
 میں نے 1993 سے 1996 تک بہت باقاعدگی اور ایمان داری  سے ڈائری لکھی ھے۔

ڈائری لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ یہ ایک ٹائم ٹریول ڈیوائس کا کردار ادا کرتی ھے۔ یعنی کہ سالوں بعد(نہ کہ فوراً)پڑھیں اور کھڑے کھڑے اپنے ماضی میں پہنچ جائیں اور حیران ھوں کہ یہ بھی زمانہ گزرا ھے مجھ پہ؟۔ ۔اور سب سے بڑا نقصان یہ ھے کہ اس کو چھپاکے رکھنا پڑتا ھے کہ کہیں عوام پڑھ کر آپ کے اندر بسے اصل انسان کوپہچان کر۔  اُس کی بجائے آپ کو جُوت نہ پھیرنا شروع کر دے۔

 ھماری قوم کی عادت ھے کہ ھم اپنے معاملات سے زیادہ  دوسروں کی سُو لینے میں دلچسپی رکھتے ھیں۔

 تب جب ڈائری لکھتا تھا تو ھوسٹل میں  جس بھی یار دوست کو علم ھوتا کہ حضور رات کے پچھلے پہر لمبی لمبی ڈائریاں لکھنے کے شوقین ھیں تو میرے  لاکھ تالے لگانے اورنت نئی جگہوں پر  چھپانے کے باوجود کتّے کی طرح ڈھونڈ ہی نکالتے  اور  بعد میں پہروں میرے پوشیدہ خیالات اور جذبات کو میرے جزبز ھونے کی فکر کیے بغیر میرے ساتھ ڈسکس کرتے۔ بدتمیزوں کو نام لے لے کر گالیاں بھی اپنی ڈائری میں لکھیں ، اس امید پر کہ شائدپڑھیں اور مجھے کچھ دماغی تنہائی نصیب ھو۔ مگر نہیں ھٹنا تھا جوانوں کو، سو نہ ھٹے۔ اب اس امید پرباقاعدگی سے پڑھنے لگے کہ شائد ان کا نام بھی کہیں آئے۔

 آخرکار تنگ آکر1996 کے فروری میں  ڈائری لکھنا چھوڑ گیا۔۔۔۔

 بہت سال بعد جب  کئی سال ھوسٹلوں میں رُل  کُھل کر  آخرکار گھر پہنچا، تو اپنے سارے غبار آلود کاٹھ کباڑ کو چھانتے ھوئےایک گتے کے بھورے ڈبے سے ۔۔۔۔۔وہی نیلی  ڈائریاں نکل آئیں۔۔۔۔۔نہیں معلوم کہ  کتنی دیر اُن کو مضبوطی سے پکڑ کر گُھورتا رھا۔

ھوش آیا توکمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر ورق پلٹتا گیا اور  سوچوں میں ڈوبتا گیا کہ میں ایسا بھی ھوا کرتا تھا۔۔ وہ سب لوگ یاد آگئے جو کبھی میرے لیے بہت اہم تھے مگر اب ان کے  نام تک  بھول گیا تھا۔سوچتا رھا کہ سولہ سترہ سال کی عمر میں لکھی ھوئی ڈائری کتنی بیوقوفانہ ھوتی ھے۔ ۔۔۔

بہت سالوں بعد کوئی پرانا  دوست ملے توتمام تر شناسائی اورمانوسیت کے باوجود ایک ان دیکھا پردہ یہ باور کرواتا رھتا ھے کہ اب سب ویسا نہیں، بہت کچھ بدل گیا۔۔شائد اسی لئے اپنا ماضی دیکھ کر اتنی شدید اجنبیت محسوس ھوئی کہ  دونوں  ڈائریوں کو باغیچے کے ایک ویران کونے میں رکھ کر آگ لگا دی۔۔۔۔۔۔۔۔

اب کی دفعہ، قسم لے لیں جو ایسا اینڈ کرنے کا ارادہ ھو۔ کیونکہ اب کی دفعہ ڈائری  ذاتی ایشوز پر کم کم لکھوں گا۔ بڑا جو ھو گیا ھوں۔۔۔۔ھیں جی؟


10 مئی، 2008

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


کل مجھے اپنی ای میل میں اپنی  ہی طرف سے    کئی سال پہلے اپنے آپ کو مستقبل میں بھیجا گیا میسیج ملا۔