28 جولائی، 2013

کچھ اقوال غیر زرّیں


آج فیس بک سے اپنا  ڈیٹا ڈاون لوڈ کیا تو دل میں آیا کہ ماضی کے چیٹ میسیجز کو ہی کنگھالا جائے۔

عموماً میں جب بھی اپنی کوئی بہت پرانی چیٹس پڑھتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ اُس وقت  یہ سب کچھ کس دماغی حالت میں  لکھا۔ بعض اوقات تو یقین ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ سب کچھ میں لکھ سکتا ہوں۔ اس لیے کافی لطف بھی آتا ہے، اور بعض اوقات افسوس بھی ھوتا ھے یہ پرانی باتیں پڑھ کر۔ سو ریکارڈ محفوظ کرنے کے لیے ایک دوست  کے ساتھ بات چیت  سے کچھ الٹا سیدھا شغل میلہ ذیل میں شئیر ھے کہ سند رہے، اور مستقبل میں سہانی یادوں کے کام آئے:-

20 جولائی، 2013

16 جولائی، 2013

افغانیوں کے پنجابیوں کے بارے خیالات

پوچھا: یہ پنجاب اور افغانستان میں کیا فرق ہے۔؟
بولے: وہی جو رنجیت سنگھ اور غازی امیر امان اللہ خان میں تھا۔ رنجیت سنگھ کی داڑھی تھی لیکن مسلمان نہیں تھا۔ امان اللہ کی داڑھی نہیں تھی، لیکن مسلمان تھا۔

15 جولائی، 2013

مایوس نہ ہوا کر یار۔۔!

میں یہاں جتنے بھی لوگوں سے ملا  ہوں ، اُن میں مستقبل کے بارے بے یقینی اورعجیب سا ڈر ھے۔ اور یہ بے یقینی ایک عجیب سی چھوت کی بیماری ھے۔ آپ کے آس پاس کسی کو ھو تو فوراً آپ کو بھی لگنا شروع ھو جاتی ھے۔

شائد یہ 2009 میں پھُوٹنے والے معاشی ببل کا اثر ہے۔ اُس سے پہلے ھر سرمایہ دار اتنی تیزی سے ترقی کر رہا تھا کہ مت پوچھیں۔

سرمائے کے نام پر پتہ نہیں کیوں، ایک عجیب سی مایوسی در آنے لگتی ھے جی کے اندر۔
شائد اس لیے کہ ھم اِن سب لوگوں کے برابر نہیں آ سکیں گے کبھی۔
اچھی بات یہ ھے کہ جیسے ہی اس طرح کی مایوسانہ سوچیں آنا شروع ھوتی ھیں، فوراً اندر سے آواز آنے لگتی ھے۔

8 جولائی، 2013

پھُدو

یار بات سُن۔
زندگی میں وہی لوگ خوش قسمت ہوتے ھیں جو موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ 
اور موقعے سے فائدہ  وہی اٹھا سکتا ہے جو پوری تیاری کے ساتھ چوکس ہو کر اُس کا انتظار کر رہا ھو۔