1 جون، 2014

مرشد

شام آٹھ بجے جب مُرشد میرے گھر کے دروازے پر پہنچے  تو بے لگام علمی پیاس کے سبب میں نے دروازے پر ہی ان سے وہ سوالات پوچھنے شروع کردیے جنہوں نے مجھے صدیوں سے مخمصے میں ڈالا ہوا تھا۔
میرے سوالات پر مرشد کی آنکھیں بالکل اسی طرح  پتھرا سی گئیں، جیسے نالائق شاگرد کے بیوقوفانہ سوال سن کر مہذب استاد کی نگاہیں جواب دینے  سے قبل خلاء میں نامعلوم نقطہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔
اسی کیفیت میں کچھ دیر مجھے گھورتے رہے  ۔
آہستہ آہستہ ان کے چہرے پر ایک عجب سی تذبذب کی لہر ابھرنے لگی۔
میں  بولا ۔ مرشد خاموش کیوں ہیں۔ یہ سوالات مسلسل میری جان کھا رہے ہیں۔ خدارا جواب دیں۔ کہیں میں پاگل ہی  نہ ہوجاؤں۔
مرشد نے بہت ہی صبر سے مجھے دیکھا اور پھر تتلاتے ہوئے فلپائنی لہجے میں بولے۔
سر۔ میں یہ پیزا ڈلیور کرنے آیا ہوں۔
میں نے  پیزا کا باکس  لے کرکہا کہ  پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ایویں میرا   ایک گھنٹہ ضائع کیا۔

اللہ اللہ ۔
اس بظاہر چھوٹے سے واقعے  نے میری زندگی کو اتنا بڑا سبق عطا کیا کہ میری زندگی بدل گئی۔
میں نے یہ سیکھا کہ  جب تک آپ اپنی رائے، سوچ، تجربات  کو دوسروں کے ساتھ پراثر طریقے سے شئیر کرنا نہیں سیکھیں گے، اس وقت تک آپ پیزے ہی ڈلیور کرتے رہیں گے۔ اس لیے،  ہر شخص کو اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنا چاھئیے اور  بغیر کسی ڈر خوف کے  لوگوں کے سامنے ، اپنا علم اور رائے ظاہر  کرنی چاھیئے۔