28 نومبر، 2013

ملالہ: اصل کہانی (ثبوتوں کے ساتھ)

ستمبر دو ہزار بارہ میں، پاکستان کی وادئ سوات سے تعلق رکھنے والی ایک پندرہ سالہ طالبہ کے بارے میں رپورٹ ملی کہ اسے ایک طالبان ایکٹوسٹ نے سر میں گولی مار دی ہے۔

اس حملے سے پوری دنیا میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، اور اس خبر کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں وسیح پیمانے پر کوریج دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹروں اور پھر برطانوی ڈاکٹر وں نے ملالہ کے چہرے اور سر کی کئی سرجریاں کیں اور بلآخر اسے بچالیا۔

آج ملالہ برطانیہ میں رہ رہی ہے اور مسلسل پاکستان میں اور خصوصاً اُن علاقوں میں عورتوں کی تعلیم کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہرا رہی ہے، جہاں سننے میں آیا ہے کہ انتہا پسند اور عسکری تنظیمیں لڑکیوں کے سکول تباہ کر رہی ہیں ۔

لیکن یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز داستان ہے جس کا تانا بانا مغربی میڈیا نے بنا ہے۔

اس سال اپریل میں ڈان اخبار نے واقعہ کی تحقیقات کرنے کے لئے اپنے سب سے تجربہ کار نامہ نگاروں کا ایک گروپ پانچ ماہ کے لئے سوات بھیجا جن کی تحقیق و تفتیش سے انکشافات کا ایک دل دہلا دینے والا سلسلہ سامنے آیا جو ملالہ کے بارے میں گھڑے گئے مغربی افسانے سے پردہ اٹھاتے ہوئے اصل حقائق بمعہ ثبوت سامنے لاتا ہے۔

7 نومبر، 2013

خاور نعیم ہاشمی کی یادیں

میں اگلے ہی دن مولانا مودودی کے پاس پہنچ گیا۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا۔ "مولانا، ایک آرٹسٹ ہیں عنایت حسین بھٹی، بہت اچھے اور مشہور گلوکار بھی ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں"۔۔۔ بستر پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔"رات کو لائیے گا" ۔۔۔"رات کو کیوں مولانا؟؟" ۔۔۔’’دن میں لائے تو لوگ کہیں گے کہ اب مولانا سے ملنے کنجر بھی آتے ہیں؟؟؟‘‘

6 نومبر، 2013

آگہی


موری ارج سُنو دست گیر پیر
مائی ری، کہوں کاسے میں
اپنے جیا کی پیر
نیّا باندھو رے،
باندھو رے کنارِ دریا
مورے مندر اب کیوں نہیں آئے

اس صورت سے
عرض سناتے
درد بتاتے
نیّا کھیتے
مِنّت کرتے
رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمھاری
جس سے دُکھ کا دارُو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تُمھیں تھے

وہ تو تُمھیں تھے

فیض احمد فیض۔ نذرِ خُسرو