ستمبر دو ہزار بارہ میں، پاکستان کی وادئ سوات سے تعلق رکھنے
والی ایک پندرہ سالہ طالبہ کے بارے میں رپورٹ ملی کہ اسے ایک طالبان ایکٹوسٹ نے سر
میں گولی مار دی ہے۔
اس حملے سے پوری دنیا میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی، اور
اس خبر کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں وسیح پیمانے پر کوریج دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ڈاکٹروں اور پھر برطانوی ڈاکٹر
وں نے ملالہ کے چہرے اور سر کی کئی سرجریاں کیں اور بلآخر اسے بچالیا۔
آج ملالہ برطانیہ میں رہ رہی ہے اور مسلسل پاکستان میں اور خصوصاً اُن علاقوں میں عورتوں
کی تعلیم کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہرا رہی ہے، جہاں
سننے میں آیا ہے کہ انتہا پسند اور عسکری تنظیمیں لڑکیوں کے سکول تباہ کر رہی ہیں ۔
لیکن یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز داستان
ہے جس کا تانا بانا مغربی میڈیا نے بنا ہے۔
اس سال اپریل میں ڈان اخبار نے واقعہ کی تحقیقات کرنے کے
لئے اپنے سب سے تجربہ کار نامہ نگاروں کا ایک گروپ پانچ ماہ کے لئے سوات بھیجا جن کی
تحقیق و تفتیش سے انکشافات کا ایک دل دہلا دینے والا سلسلہ سامنے آیا جو ملالہ کے بارے
میں گھڑے گئے مغربی افسانے سے پردہ اٹھاتے ہوئے اصل حقائق بمعہ ثبوت سامنے لاتا ہے۔