9 اپریل، 2013

مد و جزر


بات ہو گی سال دو ہزار چار کے اگست کی۔


رات  کو سب باجماعت داتا صاحب گئے اور وہاں کی مسجد میں نوافل ادا کیے ۔باہر نکلنے کے بعد سب  نے چندہ ڈال کر دربار کے ساتھ والی دکانوں سے   چنے والے چاولوں کی دو  دیگیں خرید کرلنگر کے حوالے کیں۔
پیسے تو ایک دیگ کے اکٹھے ہوئے تھے، لیکن باورچی نے اصرار کے ساتھ ایک اور دیگ  آدھے  سے بھی کم پیسوں میں دے  دی اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں دیگوں کے چاول ایک بڑی سی دیگ میں ملا دیے ۔تاکہ باسی یا تازہ چاولوں کا فرق محسوس نہ ہو سکے۔ اب چونکہ صدقے کا مال بندہ خود نہیں کھاتا سو ہم نے بھی اعتراض نہیں کیا کہ چل کوئی کھائے گا تو دعا ہی دے گا۔


اگلی صبح آٹھ   بجے  فلیٹ کےتقریباً  سارے لڑکے  جاگ رہے تھے۔خلاف معمول سب  نے فجر کی نماز   پڑھی تھی۔ کچھ حضرات نے  تو ایک  عرصے بعد اٹک اٹک کر تلاوت بھی کی تھی۔


ایک حضرت جو رات  چار  بجے تک  فون پر گرل فرینڈ سے بار بار دعا کی اپیل کرتے رہے،  فجر کے وقت اٹھ نہیں سکے تھے۔ اسی لیے اب نیند کی شدت سے سُوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ  انہوں  نے   الماری کے اوپر پڑے  گرد آلود بیگ کو  اتار کر اس کی تہ میں سے نماز کی وہ خاص عمامہ نما ٹوپی نکال کر پہن لی  تھی جو  پیر صاحب کے سالانہ عرس پر خریدی تھی۔


پونے نو بجے بجنے تک  سب دفتر یا کالج جانے کو تیار تھے لیکن جانا نہیں چاہتے تھے، اسی لیے پتھر چہروں کے ساتھ گم سم چپ چاپ انتظار میں بیٹھے تھے۔ دو چار لوگ بہت ہی نروس ہو کر کبھی کچن جاتے۔ بیسن میں جا کر بلا سبب ہاتھ منہ دھوکر ایک اداس سا  ہوکا بھرتے اور واپس کمرے میں آکر بیٹھ جاتے۔


جس لڑکے کو رول نمبر دے کر  انٹرنیٹ کیفے بھیجا تھا۔ وہ  دو گھنٹے بعد نو بجے کے قریب آیا۔  اس کے آتے ہی سب تابعدار بچوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے بڑے کمرے میں آ کرایک دائرے سے میں  کھڑے ہو گئے ۔


 اس نے  سب کے سامنے کھڑا ہو کر رزلٹ سنانا شروع کیا۔ جیسے جیسے رزلٹ سنایا جاتا گیا۔ عوام  فیل ہونے کے بوجھ کے سبب گٹھنوں کے بل بیٹھتی چلی  گئی۔


میری باری آئی تو پتہ چلا کہ میں بھی  اس پارٹ میں مسلسل  پانچویں  دفعہ فیل ہو گیا تھا۔


ایک جھوٹی سی مسکراہٹ لا کر آنکھ مار کر  سب کی طرف دیکھا اور  مصنوعی شوخی کے ساتھ کہا کہ  چل کوئی بات نہیں ۔ اگلی دفعہ سہی ۔ چھ مہینے ہی تو ھیں۔ گو کہا تو سب کو یہی تھا لیکن سچی بات ہے کہ دماغ پر اندھیرا چھا گیا اور بار بار خیال آنے لگا کہ اب وہی سوال دہرائے جائیں گے۔ کہ فلاں پاس ہو سکتا ہے تو تجھے کیا مسئلہ ہے۔
 رزلٹ اناونسمنٹ کا اختتام آتے آتے سب کے حواس قابو میں آ چکے تھے۔اور لوگ کچھ کچھ ریلکس ہو گئے ۔جو پاس ہو گئے تھے ان کا دل رکھنے کو فیل ہونے والے  پر  چھوٹی چھوٹی بات پر مصنوعی ہنسی بھی ہنس رہے تھے۔


اناونسمنٹ ختم ہوئی تو جاننے والوں کے نام تلاشے جانے لگے۔


ایک صاحب کا رزلٹ سنا  تو کمرے میں یک دم خاموشی ہو گئی۔ تمام فیل ہونے والوں نے پہلے "واقعی؟"  کا نعرہ لگایا۔ پھر کنفرمیشن پر زیر لب گالی دے کر ایک دوسرے کی طرف لعنت بھیجتی اور  "جا ڈوب کے مر جا" کہتی نظروں سے دیکھنے لگ گئے۔


 اپنے فیل ہونے کا تو یقین نہیں آیا تھا ۔  پچھلی چار  دفعہ بھی نہیں آیا تھا۔ لیکن ان صاحب کے پاس ہونے کا بھی یقین نہیں آیا۔ کیونکہ یہ ہم  سب سے کئی سال جونیئر تھے۔   ہم سب سے پڑھتے  رہے تھے۔لیکن امتحانوں میں ہمارے مسلسل  فیل  اور اپنے پاس ہونے کے سبب ہمارے کلاس فیلو ہو گئے تھے۔ اور اب آج اس رزلٹ کے بعد  یہ صاحب کمرے میں موجود تمام افراد  سے سینئیر ہو گئے تھے۔ 

اپنا جونئیر  یک دم  اپنا سینئر ہو جائے  ۔ ۔ ۔۔۔ تو بندے کے گوڈے  تو جواب دے   ہی جاتے ھیں لیکن  دماغی حالت بھی کچھ ٹھیک نہیں رہتی۔

اُس وقت یہ سمجھنا ذرا مشکل تھا کہ ھر بندہ  بادشاہ بننے کے لیے پیدا نہیں ھوتا ۔ کئی لوگوں کی قسمت میں کلرک بننا بھی لکھا ھوتا ھے۔ اسی لیے رزلٹ کا پیپر پکڑ کر تمام جاننے والے پاس شدہ حضرات کے نام ہائی لائٹ کیے اور پیپر کو دروازے کے بالکل ساتھ دیوار پر لگا دیا کہ دن رات نظر پڑتی رہے اور رزلٹ کے دن کی شرمندگی یاد رہے تاکہ اگلی دفعہ جان لڑا کر تیاری کی جاسکے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں