پیامی صاحب کے زبردست اور زور دار بلاگ میں مختلف سپاس ناموں کو بنیاد بنا کر اس بات کا ماتم کیا گیا کہ اپنی قوم پر کیوں نسلی حاکم مسلط ھیں۔
پہلی بات تو یہ کہ
برصغیر کے تمام سپاس نامے ایسے ہی ہوتے ھیں۔ ان کی بنیاد پر غداری کی مہر لگانا
ٹھیک نہیں۔ سپاس نامے کی صنف اپنے یہاں شاعری والے قصیدوں کی نثری ایکسٹینشن ھے،
جن کا حقیقت سے دور دور کا تعلق نہیں ہوتا اور مقصد مرزا غالب کی طرح محض تعلق کی
بہتری اور انعام اکرام کا لالچ ہوتا ھے۔ نہیں یقین آتا تو اپنے سکول کالج میں
اعلٰی افسران کے آنے پر ھیڈ ماسٹر کے پڑھے گئے سپاس ناموں کی کاپی نکال کر پڑھ
لیں۔
(ویسے ان قصیدوں کا اثر
دیکھیں کہ 1857 میں جب تمام دلًی کو ملیامیٹ کر دیا گیا اور اہل شہرانگریزی فوج
یعنی پٹھان و پنجابی سپاہ کے خوف سے شہر چھوڑ کر نکل لیے ، مرزا صاحب
دھڑلًے سے اپنے بلی ماراں والے گھر میں رھتے رھے۔)
لیکن
بالفرض یہ سپاس نامے انتہائی خلوص سے بھی لکھے گئے۔ تب بھی آپ اس زمانے کے
حالات سامنے رکھیں۔
برصغیر
میں حکومت کا مرکز ہمیشہ ایسے مقامی طاقتور لوگ رھے ھیں جن میں لوگوں کو
کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہو۔(چاہے انہیں درباری امرا کہ لیں یا راجے مہاراجے
یاجاگیردار وغیرہ)۔ اسی لیے ہر قسم کے بیرونی حملہ آور یا اندرونی باغیوں کی
کامیابی کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا تھا (اور ہوتا ھے)کہ ان کے ساتھ کتنے
مقامی وڈیروں نے وفاداری و جانثاری کی بیعت کی ھے۔ اورنگزیب کی موت کے بعد
سے برصغیر میں ہاوس آف مغلز نے حکومتی میوزیکل چیئر کے
لیے جو گھڑمس مچا یا تھا، اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ خاصہ
داروں کے لیے روز بروز بدلتی صورتحال میں اپنی وفاداریوں کا تعین کرنا
امتحان تھا۔شائد اسی لیے برصغیر کے اندر سے انگریزوں کو طاقتور اور دولتمند
دیکھ کر سپورٹ کیا گیا۔ ملکہ برطانیہ و انگریز عیسائی تھے، اور اس
زمانے میں عیسائیوں کو کافر نہیں بلکہ اہل کتاب سمجھا جاتا تھا۔اور اھل کتاب
سے اس طرح کراھت نہیں کی جاتی تھی جیسے کہ آج کل ھے۔ 1857 تک ھندوستان میں مسلمان
اور عیسائی بلاکراھت آپس میں شادیاں کرتے تھے۔ انگریزوں نے ھندوستانی مسلم و ہندو
بیویاں نکاحی ہوئی تھی۔ بلکہ برصغیر میں طویل عرصے تک پوسٹ رہنے والے کئی
حضرات تو وضع قطع میں ھندوستانی ہو چکے تھے۔ شلوار قمیضیں پہنتے، پان کھاتے، حقے
پیتے وغیرہ وغیرہ۔ ملکہ وکٹوریہ (جس کا سپاس نامے میں ذکر کیا گیا) کا
سیکریٹری منشی عبدالکریم ایک ھندوستانی مسلمان تھا ۔ ملکہ خود بھی اتنی انڈینائز
ہو چکی تھی کہ مرچوں والے سالن کھاتی اور اردو لکھتی بولتی تھی۔ (کچھ بعید نہیں کہ
خفیہ طور پر مسلمان بھی ہو گئی ہو) ۔ 1857 نہ ہوتا تو شائد اسلام منگولوں کی طرح
انگریزوں کو بھی اپنی آغوش میں لے لیتا ۔ 1857 کے دوران انگریزوں کی بربریت وہ
نقطہ تھا جہاں سے ھندوستانی مسلمانوں میں عیسائیوں کے خلاف نفرت شروع ہوئی، اور
سارا اعتماد ختم ہونا شروع ہوا۔
اب
تو انگریز حاکم نہیں ھیں۔ عوام بھی پڑھ لکھ گئے ھیں۔ پھر بھی یہ سپاس نامے پڑھنے
والوں کی نسلیں ہم پر کیوں مسلط ھیں؟۔
اس
چیز کو عام عوام میں لیڈرشپ کا فقدان یعنی غلامانہ سوچ کہتے ھیں۔ غلامی ایک ذہنی
کیفیت ھے جس کا تعلق انسان میں ذہنی طور پر مزاحمتی سوچ کے نہ ہونے سے ہوتا ھے۔ جس
شخص میں مزاحمت ہو، وہ ذہنی یا جسمانی طور پر غلام نہیں رہ سکتا۔نسلی لیڈروں کی
اولاد کو بچپن سے ہی اس طرح پالا جاتا ھے تاکہ وہ بڑے ہو کر لوگوں کو کسی بھی
شکل/کردار میں لیڈ کر سکیں اور ان کے ذمہ دار بن سکیں۔ دوسری طرف عام عوام
کو پالا ہی اس طرح جاتا ھے کہ ہم اچھے "نوکر" بن سکیں ۔ دور کیوں
جائیں۔ سفر حضر میں نماز میں امامت کروانے کی باری آجائے تو ہم کترا
جاتے ھیں کہ مبادا کوئی ذمہ داری گلے پڑ جائے۔ اسی لیے مسجد کی عمومی جماعت گزرنے کے
بعد پچاسیوں لوگ اکیلے اکیلے اپنی نماز پڑھ لیں گے لیکن جماعت کروانے کی ہمت نہیں
کریں گے۔ میں نے ایک اچھے بھلے بوڑھے باریش باباجی کو آنسو بھری آنکھوں
کے ساتھ التجا کرتے دیکھا ھے کہ جی مجھ سے امامت نہ کروائیں۔ میں اس قابل نہیں۔ دو
چار دفعہ کے بعد جب عوام نے ان کا جھاکا کھول دیا (یعنی جھجک ختم ہو گئی )
تو پھر ان کو امامت کروانے پر کبھی کوئی اعتراض نہ رھا۔ بلکہ وہ امامت
کے مسائل پڑھتے پڑھتے دینی علم سیکھنے لگ گئے۔
ہم
جاگیرداروں اور نسلی سیاستدانوں پر تنقید اور گالیوں کی بوچھاڑ تو کر سکتے ھیں،
لیکن کسی معمولی سے کونسلر کے الیکشن میں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر
سکتے۔ کیونکہ الیکشن میں لوگوں کی رائے کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرنی پڑتی
ھے اور ھم "نوکر"۔۔۔یہ مائل اور قائل و خوف زدہ اور زبردستی کرنے
کا مشکل کام شائد نہیں کر سکتے۔ اسی لیے عوام ھر انتخابات میں
نسلی نوکر نہیں بلکہ نسلی حاکم چنتی ھے۔ (چاہے وہ جیل میں یا ملک سے
باھر ہی کیوں نہ بیٹھا ہو)۔عوام بڑی چالاک ھے۔ اس کو معلوم ھے کہ کون ان
پر حکومت کر سکتا ھے اور کون نہیں۔عوام کسی غریب بندے کو
منتحب نہیں کرتے کہ جو اپنی حالت نہیں سنوار سکا، وہ ہمارے کام کیا
کروائے گا۔
کسی
بھی کام کے لیے عوام کی تائید حاصل کرنا بہت اہم گیدڑ
سنگھی ھے اور مان لینا چاھئیےکہ اس کا گُر
لغاریوں مزاریوں شریفوں کو آتا ھے۔ اس ھنر پر ان کی تعریف کرنی چاھئے اور دیکھنا
چاھئے کہ یہ ھنر انہوں نے کیسے سیکھا۔ نہ کہ اپنی غلامانہ سوچ کو
گالیاں دیتے رھنا چاھئیے۔ کیا خیال ھے؟
جناب عالی آپ نے حقائق کو بہت ہی بری طرح مسخ کر کے پیش کیا ہے۔ انگریز کسی بھی طور وسع لظرف نہیں تھے۔ 1857 نہ بھی ہوتا تو پلاسی کا معرکہ میسور سے ہونے والی جنگوں کے علاوہ بنگال کے عوام کی حالت زار گواہہ دینے کو کافی ہے کہ انگریروں کی ۔
جواب دیںحذف کریں۔فطرت کیا تھی
جہاں تک بات موجودہ حالت کی ہے تو اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہ ہمارہ غلامی کا تسلسل ہے جس سے آزادی کی منزل کا حصول ابھی باقی ہے
جناب عالی
جواب دیںحذف کریںآپ کی غلامی کا تسلسل کیسے ٹوٹے گا؟؟