10 اپریل، 2013

وزن کہانی - 1


لیں جی۔ بایاں گوڈا جواب دینے لگا ھے۔ اب وزن کم کرنا ہی پڑے گا۔
2001 سے میری اور وزن کی جنگ جاری ھے، جس میں عموماً وزن کی ہی جیت ہوئی ھے۔


میں ہمیشہ سے کافی انڈر ویٹ اور سنگل پسلی آدمی تھا ۔ کتنا بھی کھا لیتا، جسم کی حالت نہیں بدلتی تھی۔ لیکن 2001 میں سیالکوٹ کے ایک وزٹ نے جسم کے سارے نظام ہلا دئیے۔

میں نے نئی نئی سگریٹ نوشی چھوڑی تھی۔  میری کمپنی نے مجھے اور دو دوسرے سوکھے ہوئے لوگوں کو تین مہینے کے لیے کام پر سیال کوٹ بھیجا تو خیال یہی تھا کہ زندگی کافی سکون میں گزرے گی۔ اور سب سے اہم یہ کہ دفتر سے دور رہ کر امتحانوں کی تیاری کے لیے کافی وقت مل جائے گا۔

پہنچ کر سامان رکھا تو پہلے آئی ہوئی ٹیم کے انچارج نےمجھے کلائینٹ اس طرح ہینڈ اوور کروایا۔

"سیالکوٹ بڑا بورنگ شہر ھے، یہاں تین مہینے اکیلے رہ کر دماغی مریض بن جاو گے، اسی لیے ہم نے کلائنٹ سے سپیشل اینٹرٹینمنٹ  پاس کروائی ھیں۔ناشتہ گیسٹ ہاوس میں بنے گا، لیکن صرف نو بجے تک۔ کبھی بھی ناشتہ سکپ نہیں کرنا، کیونکہ کُک انتظامیہ کا جاسوس ھے، اور خفیہ طور پر حاضری کی اطلاع انتظامیہ کو دیتا ھےکہ جوان ابھی تک سوئے ھوئے ھیں یا کام کرنے کے لیے جاگ گئے ھیں۔کوشش کرنا کہ ناشتہ ہیوی ہو تاکہ دوپہر کو کُک کا پکا ہوا نہ کھانا پڑے۔ٹرسٹ می، کُک کا سب سے بہترین کھانا  ناشتہ ہوتا ھے۔ کُک کی عادتیں نہ بگاڑنا اورناشتے میں رج کے چار پانچ انڈے فی کس بمع ڈبل روٹی  مکھن شہد و چائےڈفنا۔دوپہر کا کھانا 2 بجے گیسٹ ہاوس میں ہوگا۔ ہم نے اور ہم سے پہلے آنے والی سب ٹیمز نےلنچ کے لیے چکن کی ایک ڈش لازم کر رکھی ھے۔ یہ روٹین مت بدلنا۔ورنہ بعد میں آنے والی ٹیمیں تمہیں گندی گالیا ں دیں گی۔کبھی کبھار لنچ  کینٹ جا کر بھی کر لیا کرنا ، کیونکہ کُک کا کھانا کچھ دن لگا تار کھائیں تو اپنے آپ کو تیس مار خان سمجھ کر بہت ہی  بُرا پکانے لگ جاتا ھے۔اس لیے ہر دو چار دن بعد اس کے کھانے میں کیڑے نکال کر احتجاجاً لنچ باہر کرنے چلے جانا تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے رہے۔شام کو چائے کے بہانے کینٹین سے چائے کا پورے لوازمات منگوانا مت بھولنا۔ڈنر کے ٹائم کُک کی چھٹی ہوتی ھے اس لیے ڈنر الاونس مقرر ھے۔ چاہے تو پیسے جیب میں ڈال لینا یا چاہے جا کر باہر کہیں زہر مار کر لینا۔ رہنے والے کمرے فل اے سی ہیں، اس لیے رج کر اے سی چلانا۔ اور خبردار کسی بھی روٹین میں منفی تبدیلی نہ کرنا۔۔۔دماغی مریض بن جاو گے اکیلے رہ رہ کر ۔۔۔ تمہیں نہیں معلوم ہم کیسے رہ رہے تھے یہاں۔۔ آگے آنے والے گالیاں دیں گے۔ ۔۔ "وغیرہ وغیرہ

یہ کہ کر انچارج  نے اپنا ٹریول بیگ اٹھایا اور سب سے سلام لے کر  لاہور جانے کے لیے نکلنے لگا۔

میں نے ہاتھ پکڑ لیا اور بولا" بھائی جی۔ وہ کلائینٹ کا کام نہیں ہینڈ اوور کروایا آپ نے۔"

"اوئے یہی  کام ھے ادھر، جو بتایا ھے۔ خبردار جو کسی روٹین میں تبدیلی کی تو۔ ۔۔ سب گالیاں دیں گے۔۔۔۔ اب  ہاتھ چھوڑ۔ لیٹ ہو رھا ہوں، گھر ٹائم سے پہنچنا ھے!" کہ کر ٹیم انچارج نکل گیا۔

میری ٹیم کا تیسرا ممبر چونکہ لاہور میں ٹیویشن پڑھا کر گزارا کرتا تھا، اس لیے  ٹیویشنز چھوٹنے کے ڈر سے دفتر والوں کو نہ بتانے  اور  سب سنبھال لینے کا کہ کر  نکل گیا۔

اگلے دن سے ہم  نے بتائی گئی روٹین پر عمل شروع کر  دیا۔

کمبل لے کر صبح دیر تک اے سی میں سوئے رہنا۔

پونے نو بجے سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بھاگتے ہوئے گیسٹ ہاوس تک پہنچناتاکہ چار پانچ انڈوں کا آملیٹ  انگنت ڈبل روٹی کے پیسوں یا پراٹھوں کے ساتھ ڈف سکیں۔

 دوپہر کو لازمی طور پر ایک چکن کا سالن۔

پھر شام کی چائے بمع بسکٹ، نمکو و دیگر اشیا۔

ہم باقی دو  نے آپس میں فیصلہ کیا کہ ڈنر  کے پیسے جعلی طور پر کلایئنٹ کو  چارج کرنے کی بجائے اصل کی بنیاد پر چارج کریں گے۔ یعنی کہ ڈنر کرنے جائیں گے۔اسی لیے رات کو اکثر یا تو ڈرموں والے چوک سے اللہ مالک کا پلاؤ پیٹ بھر کر کھایا جاتا ، یا پھر کینٹ جا کر کسی پوش سے ہوٹل پر سے ڈنر تناول کیا جاتا۔

سیالکوٹ میں دلچسپ جگہیں ساری کی ساری ایک دو ہفتے میں دیکھ ماری تھیں اس لیے بعد میں دفتری کام کے بعد کمرے میں ہی رہ کر ٹی وی دیکھا جاتا۔دفتر سے دور تھے تو اب دفتری لباس یعنی پینٹ شرٹ کی بجائے ریلیکس ہو کر ٹی شرٹ ٹراوزر یا پھر کلف لگے شلوار قمیضوں کا استعمال شروع کر دیا۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے سوچ آئی کہ کیوں نہ ٹنڈ کروائی جائے۔ ٹنڈ کرنے  کے بعد حجام میرے کندھے دباتے ہوئے بولا کہ سر جی ، آپ باڈی بلڈنگ  کرتے ھیں ؟ آپ جیسے مضبوط گردن اور کندھے  کے پٹھے عموماً پہلوانوں کے ہوتے ھے۔ میرے چہرے پر اس کے اس مذاق پر بے اختیار مسکراہٹ آ گئی۔ لیکن نائی حیران ہونے لگا کہ میں مسکرا کیوں رہا ہوں ۔

تین مہینے ختم ہوئے تو لاہور سے بلاوہ آ گیا کہ فائلیں اٹھا کر تشریف لے آؤ۔ چونکہ ڈائرکٹ دفتر جانا تھا، اس لیے تین مہینے بعد پینٹ شرٹ پہنی۔ پہننی تو  کیا تھی، کسی طرح اس میں  گھسنے  کی کوشش کی۔ جو کہ ناکام ہو گئی۔  کافی حیرانی ہوئی کہ کپڑے بیگ میں رکھے رکھے شرنک ہو گئے ھیں۔ دوسرے بھائی صاحب کا بھی یہی حال تھا۔ اس لیے سیالکوٹ کے بازار میں ایمرجنسی  پینٹ شرٹ خریدنے نکل گئے۔ 

دکان والے نے ناپ لیا تو معلوم ہوا کہ وہ کمر جو 30-31 انچ سے بڑھتی  نہیں تھی، اب 37 انچ کا کمرا بن گئی تھی۔

دفتر پہنچے تو ہجوم دیکھنے کو امڈ آیا ۔ عوام کانوں کو بار بار ہات لگا کر  پوچھنے لگی کہ تم لوگوں کو کیا ہو گیا ھے؟  اتنے سے عرصے میں یہ  سارے جسم پر سوج کس طرح ہو گئی؟ وغیرہ وغیرہ

فلیٹ پہنچ کر وزن کیا تو معلوم ہوا کہ  58 کلوگرام کے جثے کا وزن بڑھ کر صرف 92کلو  ہو گیا ھے۔ سچ پوچھیں تو اندر سے کافی خوشی ہوئی کہ آخر کار  لڑکپن سے مردانگی میں قدم رکھ دیا ہے۔

وزن چڑھانا اتنا آسان تھا، یہ کبھی سوچ میں بھی نہیں آیا تھا۔ لیکن وزن اتارنا کتنا مشکل ھے، یہ بھی معلوم نہیں تھا۔ وزن اتارنے کی کہانی اگلی قسط میں۔



6 تبصرے:

  1. ہا ہا ہا
    بھائی جان جہاں اتنا کچھ لکھا ہے کمپنی کا نام بھی لکھ دیتے کہ بیچارے سوکھے کے مارے نوجوان اپلائی کر کے اپنا وزن بڑھوا سکتے :)

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یار ٹھیک کہا۔۔ یہ کمپنی کا نام تو لازمی حصہ بنتا تھا کہانی کا۔ اعلی لکھا مزہ آگیا

      حذف کریں
    2. بھائی جان۔ یہ ماضی بعید کی باتیں ھیں۔ اب سُنا ھے کہ ایسے کھابے نہیں ھیں۔
      لیکن جہاں بھی کوئی ہینکی پینکی دیکھنے والا کام ھے، وہاں لوگ دلوں میں گھر کرنے کے لیے معدے کا بائی پاس استعمال کرتے ھیں۔

      حذف کریں
  2. لگتا ہے کہ آپ سلمان تاثیرکی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کمپنی میں ملازم تھے اور سیالکوٹ کمپنی آڈٹ کرنے گئے تھے ۔ میرا 1992ء میں ان سے واسطہ پڑا تھا ۔ ایک بار میں نے برداشت کر لیا بعد میں اُنہیں اپنے ادارے میں بلیک لسٹ کروا دیا تھا ۔ دیکھیں نیک آدمی ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک نوجوان اُن میں ایسا تھا جو کھانا اپنی جیب سے کھاتا تھا اور صرف کام سے مطلب کھتا تھا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یہ مسئلہ کافی کامپلیکس ھے کہ کیا کسی کے پاس سے کھانا کھانا چاھیئے یا نہیں۔حتٰی کہ کمپنیوں کے اندر بھی اس میں کافی کنفیوژن پایا جاتا ھے۔

      ایک شخص میلوں دور اپنا گھر اور آفس چھوڑ کر آپ کا کام کرنے آپ کے دفتر آتا ھے، اور نارمل دفتری اوقات کی بجائے صبح سے لے کر رات بارہ بجے تک کام کرتا ھے تاکہ آپ کو رپورٹ وقت مقررہ پر مل جائے۔ آپ اُس کو کھانا بھی نہیں دیں گے۔؟

      مخالفت کرنے والے لوگوں کی دلیل یہ ھے کہ اس سے کام کرنے والے کی رائے کلائنٹ کے حق میں نرم ھو سکتی ھے۔

      میری ذاتی رائے میں کوئی جب تک بات اعتدال میں رہے ، کوئی حرج نہیں۔

      حذف کریں
  3. بہت اعلٰی.... زبردست تحریر ہے ... بات وہی ہے کہ اک عمر لگتی ہے کمرے کو کم ہونے میں.

    جواب دیںحذف کریں