8 ستمبر، 2014

ایماندار بندے کی کہانی

دبئی میں اچھی جاب تھی۔ زندگی میں ہرخوشی تھی۔ ماں کو زیور بنوا دیا۔ بہنوں کی دھوم دھام سے شادی کر دی۔ پاکستان میں دو پلاٹ خرید لیے۔
ایک دفعہ ملاقات ھوئی، تو بہت خوش تھے۔ کہنے لگے کہ ایویں شغل میں ایک سیلز کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ کا ویزا اپلائی کیا تھا۔ وہ لگ گیا ہے۔ مبارک باد دی۔
ہم اس بات پر مبارکباد کیوں دیتے ہیں؟۔
شائد دوسروں کے بارے ہمیشہ لاشعور میں یہ ھوتا ہے کہ ان کی پہلے ہی زندگی گلزار ھے، اب سر بھی کڑاھے میں ھوگا۔
یا شائد یہ کہ چلو ان کو پاکستان نامی پنجرے سے فرار کی سعادت حاصل ھوئی۔ اب جہاں چاہیں گے ، سفر کریں گے کہ انکل سیم نے جو کلیئرنس دے دی ہے۔
انکل کلیئرنس دے دیں تو مبینہ طور پر رزق کے دروازوں کو دھکا مار کے مزید وا کیا جا سکتا ہے۔
ان کے پندرہ روزہ امریکی دورے پر نکلنے کے بعد دوبارہ ملاقات نہ ھو سکی۔ فیس بک پر ان کی امریکہ یاترا کی تصاویر دیکھ کر معلوم ھوا کہ بخیر و عافیت واپس پہنچ گئے ہیں۔

تین چار ماہ بعد ایک مشترکہ دوست نے بتایا کہ صاحب اور ان کا نوجوان بھانجا پچھلے ایک ہفتے سے تھانے میں بند ہیں۔ کیا کیس ہے۔ کچھ معلوم نہیں۔ پلس والے کچھ نہیں بتا رہے کہ تفتیش چالو ہے۔ دو دفعہ اپارٹمنٹ پر پولیس تلاشی کی غرض سے چھاپے مار چکی ہے۔ بیوی بچے (جو دبئی میں ہی تھے) بہت ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے۔ کسی کا کوئی واقف ہے تھانے میں تو پتہ ہی کروا دے کہ آخر بات کیا ہے!۔
پردیس میں اب کدھر سے واقف آئے ؟۔ اور وہ بھی تھانے میں۔؟وہ بھی ڈرپوک خارجیوں کا جن کا پلس کی گاڑی پر نظر پڑتے ہی سانس بے ترتیب ہو جائے۔ بہت مشکل سے ایک بارسوخ صاحب کی منت کر کے معاملہ و خیر خیریت معلوم کرنے کا ٹاسک دیا کہ کم از کم اندھیرا تو چھٹے۔ اندر سے جواب ملا کہ جب تک معاملے کی تفتیش چل رہی ہے، دوبارہ رابطہ کرنے کا سوچنا بھی مت۔ جب تفتیش ختم ھو تو پھر بتائیں گے کہ کیا معاملہ ہے۔
ایک ہفتہ بعد بھانجا گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ پچیس تیس لاکھ درہم کی ڈکیتی کا معاملہ ہے۔ لیکن کیا کہانی ہے، یہ بھانجے کو اتنے دن حوالات میں رھنے کے باوجود معلوم نہیں تھی۔ قانونی مدد کے لیے وکیل کی خدمات لی گئیں۔ پہلے وکیل نے کیس سُن کر اسی ہزار درہم مانگے۔ دوسرے نے ستر ہزار۔ پھر بہت سر پھٹول کے بعد ایک وکیل ڈھونڈا گیا جس نے کیس کی پیروی بیس ہزار درہم کے عوض کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ ایک دوست نے جی کڑا کر وکیل کی فیس کے لیے اپنے دفتر سے قرض لیا۔

وکیل کرنے کا فائدہ یہ ہوا، کہ ان کی بیوی کی ان سے ملاقات کروا دی گئی۔ ان کی زبانی معلوم ھوا کہ امریکی کانفرنس میں ایک ملتانی گرائیں سے ملاقات ھوئی جو دبئی میں کاروبار کرتے تھے۔ ہم شہر، ہم زبان، خوش گفتار، ملنسار، خوش مزاج اور بظاہر خوشحال ۔دوست بن گئے۔
ویسے بھی سفر کی حالت میں شائد دوستیاں بہت جلدی ھوتی ہیں کہ لوگوں کی اصل فطرت کہیں پیچھے ہی رہ جاتی ہے۔
امریکہ سے واپس آئے تو فیملیوں کا آنا جانا شروع ہو گیا ۔ تعلقات بہت جلد بہت گہرے ہوتے گئے۔ پھر ایک دن یہ دوست فرمانے لگے کہ پیچھے ملتان میں گھر پر کچھ ایمرجنسی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فیملی کو واپس بھیج دیا اور خود بھی صبح جا رہا ہوں۔ مہینے دو مہینے میں واپسی ہوگی۔ لیکن مشکل یہ کہ اس دوران ایک قرض خواہ ساؤتھ افریقہ سے دبئی آ رہے ہیں۔ ان کو ادائیگی کے لیے اپنے دو ٹرک بیچ دیے ہیں۔ پیسے پاس ہیں لیکن کسی پر اعتبار نہیں۔ آپ عزیز از جان اور " ایماندار" آدمی ہیں،رقم امانتاً رکھ لیں، اور ان صاحب کے آنے پر میری طرف سے ادا کر دیں۔ یوں ڈیڑھ لاکھ درہم ان کو پکڑا دیے۔

سات آٹھ دن تک کسی نےرقم کے لیے رابطہ نہ کیا تو پریشانی ہو گئی۔ غریب بندے کے گھر میں زیادہ رقم ہو تو ویسے ہی ٹینشن ہو جاتی ہے۔ ملتانی صاحب کو فون کیا تو معلوم ھوا کہ ساؤتھ افریقن قرض خواہ کا ٹور کینسل ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ رقم اب فلاں پاکستانی ہنڈی والے کے ذریعے پاکستان بھجوا دیں۔ اگلے دن رقم بھانجے کے ہاتھ ہنڈی والے کو بھجوائی۔ ملتانی صاحب سے ھنڈی والے کی بات کروا کر کنفرمیشن لی اور سکھ کا سانس لیا کہ ذمہ داری تمام ہوئی۔دو دن بعد پولیس نے ان کو اور ان کے بھانجے کو گرفتار کر لیا اور رقم کے بارے تفتیش شروع کردی۔ تھانے میں ہی معلوم ھوا کہ ایک شاپنگ مال میں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے کیش سیکیورٹی کمپنی کے اہلکار کو ٹیزر گن (الیکٹرک شاک گن) سے مفلوج کرکے اس سے رقم کا بیگ چھینا اور فرار ہوگئے۔ سیکیورٹی کیمرے سے لی گئی فوٹیج سے ان میں سے ایک فرد کی شناخت ملتانی صاحب کے طور پر ہوگئی۔ رہائش پر چھاپہ مارا گیا۔ لیکن مجرم پاکستان کی فلائٹ لے چکے تھے۔ فون کا ریکارڈ چیک ھوا اور جس جس نے ڈکیتی سے پہلے اور بعد میں ملتانی صاحب سے گفتگو فرمائی تھی، سب دھرے گئے۔ دھرے جانے والے تمام افراد کی رہائش گاہوں پر رقم کی تلاش میں چھاپے پڑے۔ ان میں سے ایک کے بیڈ کے گدے کے بیچ چھپائے گئے ڈکیتی کے بیس لاکھ درہم برآمد ہو گئے۔ ہنڈی والا دھرا گیا، جس نے باقی رقم کا سراغ دیا۔ معلوم ہوا کہ چھ سات "ایماندار" افراد میں تقریباً ایک ہی قصہ سنا کررقم بانٹ گئے ۔

پولیس کی صلاحیت ملاحظہ کریں کہ کیش انشورنس کے باوجود تقریباً تمام رقم ڈکیتی کے دو ہفتے کے اندر برآمد ہوگئی۔ یہی واقعہ پاکستان میں ھوتا تو ورثاء رو پیٹ کر خاموش ھو گئے ھوتے۔ دونوں ڈکیت ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ جبکہ "ایماندار" افراد جیل میں سڑرھے ہیں۔ ان صاحب کی دو مہینے جیل میں گزارنے اور پاسپورٹ پولیس کے پاس رکھوانے کے بعد بہت مشکل سے ضمانت ہوئی۔
واپس اپنی نوکری پر گئے تو معلوم ھوا کہ باس کی مہربانی سے نوکری سے نکالے تو نہیں گئے، لیکن عدالت سے الزام کلئیر ھونے تک نہ تو تنخواہ ملے گی اور نہ ہی واپس نوکری پر آنے کی اجازت۔ روزمرہ خرچ کے لیے پیسے نکلوانے بینک گئے تو سر پر ہتھوڑا پڑا کہ بینک اکاؤنٹ الزام کلئیر ھونے تک فریز ھوچکا۔ کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ نہ یہاں رہ سکتے ہیں، اور نہ ہی واپس جا سکتے ہیں۔ یہ صاحب اب چھپ چھپا کر چھوٹے موٹے کام کر کے اپنا سلسلہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس تمام صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو کہ قریبی لوگ بھی پانچ سو گز دور سے گزرنے لگ جاتے ہیں کہ پتہ نہیں اصل کہانی کیا ہے ۔ بظاہر مظلوم شخص کہیں ظالموں کا سرغنہ تو نہیں؟۔ اور یہ کہ ان صاحب سے بدقسمتی نامی چھوت کا مرض ہمیں بھی نہ لگ جائے!۔اس معاشرتی رویے میں کسی کا کوئی قصور نہیں ھوتا۔ جب بھی اس طرح کے قصے معلوم ھوتے ہیں، انسانوں پر اعتبارکا خون ہو جاتا ہے۔
لوگ پیسے لے کر واپس نہیں کرتے، اس کی توقع و خدشہ تو ہمیشہ انسان کے ذہن میں ہوتا ہی ہے۔ لیکن اگر کوئی بظاہر خوشحال اور شریف شخص آپ کے پاس کچھ دن کے لیے امانتاً رقم یا زیور وغیرہ رکھوا جائے، تو کبھی وہم و گمان میں بھی یہ بات ذہن میں نہیں آتی کہ یہ چوری کا مال ھو سکتا ہے۔

پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ،
لوگوں کے ساتھ زندگی کے معاملات کیسے رکھے جائیں؟
ایک طرف بندے ہی بندوں کے کام آتے ہیں۔
اکیلے آدمی کی زندگی کا سفر خوشگوار نہیں ہوتا۔
دوسری طرف بندے ہی بندوں کی راہ میں ٹوکے تیز کیے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم میں راہزن اور راہبر کی پہچان کرنا ناممکن ھو چکا۔
کیا آدمی کو اپنی تمام زندگی مسلسل محتاط رہتے ہوئے (بلا امتیاز رنگ و نسل و مذھب و رشتہ داری وغیرہ) ہمیشہ صرف اور صرف اپنے اوپر اعتبار کرتے ہوئے گزارنی چاھیئے؟۔
جن لوگوں کو اس ماڈل پر زندگی گزارتے دیکھا ہے، ان کو اکثرعوام میں بری شہرت کا حامل پایا ہے۔
اس سوال کا جواب جوانی ہی میں بال سفید ہونے کے باوجود میرے پاس نہیں۔
کسی کے پاس ھے تو بتائے۔

5 تبصرے:

  1. پہلے کہتے تھے خاندانیت لوگوں کے اعمال سے جھلکتی ہے کہ اچھے خآندان کے لوگ اچھی اعمال کرتے ہیں لیکن پیسے کی دوڑ اور سوشل کلاسز کے ہیر پھیر نے سب پاکستانیوں کو ایک ہی قطار میں لا کھڑا کیا ہے کہ باپ بڑا نہ بھیا

    جواب دیںحذف کریں
  2. بس جی تعلق بندہ رکھے بھی تو آنکھیں کان کھول کر رکھے :) بحرحال یہ سچ ہے کہ آج کے دور میں قابل اعتبار لوگ بہت کم ہوتے ہیں!!!!

    جواب دیںحذف کریں
  3. درست کہا کسی ایک سے دھوکا کھا کر بندہ ہر ایک کو دھوکا باز سمجھتا ہے ...ک پہر اعتبار کرے اور کس پر نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. آدمی دھوکہ کھاتا ہے تو بھروسے والے سے ہی کھاتا ہے۔ جواب صرف احتیاط ہے یعنی جتنی احتیاط ہو برتی جائے اور ہر کام سوچ سمجھ کر کیا جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. کسی زمانے میں ایک برادری نظام ہوا کرتا تھا ۔ نہ صرف یہ کہ برادری کے اندر بہت سی چیزوں کا خیال رکھا جاتا تھا بلکہ ایک برادری دوسری برادری سے تعاون کرتی تھی ۔ اس کے نتیجہ میں اچھے بُرے کی خبر رہتی تھی اور اسی بنیاد پر بزرگ اپنے بچوں کے رشتے طے کرتے تھے ۔ جب بھی برادری کا کوئی کٹھ ہوتا تو جوان بیٹھ بزرگوں سے اُن کی زندگی کے تجربوں کی باتیں سُنا کرتے تھے ۔ میرے ہم عصروں نے ترقی اور آزادی کے نام پر اُس نظام کو ختم کر دیا اور لوگ مادر پدر آزاد ہو گئے ۔ ہر آدمی اپنے آپ کو عقلمند اور بزرگوں کو جاہل سمجھنے لگا ۔ نتیجہ ظاہر ہے ۔ موجودہ ماحول تو یہ ہے کہ حلال کمانے اور کھانے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے اور چالباز کو سمجھدار ۔ قوم کو آزادی دلانے کے نام پر ایک امریکہ اور یورپ کا تربیت یافتہ لیڈر 25 یوم سے اسلام آباد میں بیٹھا ہے ۔ اللہ ہماری قوم کو محفوظ رکھے

    جواب دیںحذف کریں