دروازے کی گھنٹی کے ذریعے میرے گھر پہنچنے
کی اطلاع پاتے ہی، میرے بچے چُھپ جاتے ہیں۔
تاکہ ۔ ۔ ۔
میں گھر کی خاموشی محسوس کرتے ہی ان کا پوچھوں ۔ ۔ ۔ ان
کو آوازیں دوں ۔ ۔ ۔ ان کو گھر کے مختلف حصوں میں تلاش کرتا پھروں۔
پھر جب میں ان کو، اِس ایک کمرے کے گھر میں، بظاہر بہت مشکل سے آخر ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں، تو وہ ہنس ہنس کر زمین پر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔
ایسے ہی حقیقی خوشی سے بھرے لمحوں میں،
کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے،
کہ کل جب میں چُھپ جاؤں گا،
تو کیا یہ بھی مجھے ڈھونڈیں گے؟۔
چھپنا تو سب نے ہے نا سر۔۔۔ نیک اولادکم از کم ڈھونڈنےکی کوشش تو کرتی رہے گی۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاللہ آپ کو لمبی عمر عطا کرے ۔ منگل کی چائے کی پرخلوص مٹھاس کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اِن شاء اللہ آپ کے بچے جوان ہو کر آپ کی خدمت کریں گے اور جانے کے بعد دعائے مغفرت بھی کریں گے ۔ مجھے یاد ہے کہ 1964ء میں والد صاحب کے بچپن کے ایک دوست کو کہتے سنا تھا ” آپ نے اولاد کو حلال زوزی کھلائی ہے ۔ بڑھاپے میں آپ کے بچے آپ کی خدمت کریں گے ۔ پتہ نہیں میرا کیا ہو گا“۔
جواب دیںحذف کریںیہی کھیل وہ اپنے بچّوں سے کھیلیں گے۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںبشرط یہ کہ: چھپن چھپا کا یہ کھیل" زندہ " سلامت رہے۔۔۔۔۔ اب اجازت دیں ۔۔۔۔بُہت شُکریہ ۔۔۔
نیک اور اچھی اولاد کو اپنے والد یا والدہ کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی ۔ جیسے وہ زندگی میں ان کے سامنے تھے مرنے کے بعد وہ ان کے دل میں ہوں گے
جواب دیںحذف کریںاسی قسم کا ایک سوال میرے ذہن میں اس وقت آیا تھا جب بجلی نہیں تھی اور میں اور اہلیہ سوتے ہوے بچوں کو پنکھا جھل رہے تھے
جواب دیںحذف کریںاچانک میں نے اہلیہ سے پوچھا کہ کیا ان کو یاد رہے گا کہ کبھی ہم انہیں تکلیف سے بچانے کے لیے تکلیف اٹھاتے تھے
انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمیں اپنے والدین کی تکالیف یاد ہیں اور اس کا احساس ہے تو شاید انہیں بھی یاد رہے گا
اللہ رکهے آپکو ایسا نہ سوچے.ان شاءاللہ آپ ہی کی طرح وہ بهی اچهی یاد کی طرح یاد رکهےگے.
جواب دیںحذف کریںآجکل ہر اچھی کہاوت الٹی ہوتی نظر آتی ہے .... مایوسی گناہ ہے لیکن سمجھ نہین آتا ہمارا کیا ہوگا
جواب دیںحذف کریں