وہ اپنی آنکھوں کو میوزیم دکھانے لے جائیں گے۔
ناک کو فلاور شو یا پرفیومز کی دکان پر لے جائیں گے۔
اپنے ہاتھوں سے کپڑے کی دکان پر ملائم ریشمی یا مخملی کپڑے کو محسوس کریں گے۔
اپنے کانوں کو موسیقی کا کنسرٹ سنا کر حیرا ن کردیں گے۔
اور اپنی زبان کو کسی ریسٹورنٹ سے بہت ہی لذیذ کھانا چکھائیں گے۔
لیکن پھر لوگ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو حواس کو دن رات اپنی غلامی میں مبتلا کر کے حکم چلاتے رہتے ہیں۔
آنکھو! یہ اخبار پڑھ کر سناؤ!!!۔
ناک! دھیان رکھ۔ کہیں کھانا جل نہ جائے!!!!۔
کانو! غور سے سنتے رہو کہ دروازے پر دستک کب ہوتی ہے۔
ایسے لوگوں کے حواس کے ذمے کام ہوتے ہیں ۔اور حواس یہ ذمہ
داری طوعاً و کرہاً ادا کرتے رہتے ہیں (سوائے اس کے کہ بہرے کے کان اور اندھے کی آنکھیں کام نہیں کرتیں)۔
اسی لیے کبھی کبھی حواس تھک بھی جاتے ہیں۔ اور زندگی کا سفر ختم ہونے سے پہلے
ہی رستے میں ڈھیر ہوجاتے ہیں کہ بس، بہت ہو گئی۔ اب اور نہیں چل سکتے۔
نتیجتاً آدمی ان کے تھکنے پر گھر بیٹھ جاتا ہے۔
اگر سب کے سب حواس اکٹھے ہو کر ہڑتال کردیں، تو آدمی اکیلا رہ
جاتا ہے۔
اندھیرا۔
خاموشی۔
بے حس ہاتھ۔
نہ ناک میں خوشبو، نہ منہ میں ذائقہ۔
خاموشی۔
بے حس ہاتھ۔
نہ ناک میں خوشبو، نہ منہ میں ذائقہ۔
ایسے ہی وقت آدمی
اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا میں نے کبھی ان کے ساتھ کچھ بُرا کیا؟؟۔۔میں نے تو تمام
زندگی ان کو عیاشی کروائی!! ۔۔ ۔ تو پھر اب ۔ ۔ یہ میرا ساتھ کیوں چھوڑ گئے ہیں؟؟ ۔ ۔ ۔
لیڈیا ڈیوس کی کتاب (Varieties of Disturbance) سے ایک کہانی ____
ساتھ اسلئیے چھوڑ کر چلے گئے ہیں کہ : آخر کوئی کب تک "جھوٹے طعنے" سُنتا رہے گا۔؟؟ ۔یہ طعنے سُن سُن کر ہم تنگ آگئے تھے کہ : میں حواسِ خمسہ کو عیاشی کرارہا ہوں ۔۔۔ میں حواسِ خمسہ کو عیاشی کرارہا ہوں، جبکہ ساری حقیقت یہ کہ ہمارا نام لیکر عیاشی یہ خود کررہا تھا ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںبہر حال آپکی پسندیدہ لکھاری لیڈیا ڈیوس کو عالمی مین بکر انعام جیتنے پر بُہت بُہت مبارک۔۔۔اب مجھے اجازت دیں ۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ۔۔