دروازے کی گھنٹی کے ذریعے میرے گھر پہنچنے
کی اطلاع پاتے ہی، میرے بچے چُھپ جاتے ہیں۔
تاکہ ۔ ۔ ۔
میں گھر کی خاموشی محسوس کرتے ہی ان کا پوچھوں ۔ ۔ ۔ ان
کو آوازیں دوں ۔ ۔ ۔ ان کو گھر کے مختلف حصوں میں تلاش کرتا پھروں۔
پھر جب میں ان کو، اِس ایک کمرے کے گھر میں، بظاہر بہت مشکل سے آخر ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں، تو وہ ہنس ہنس کر زمین پر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔
ایسے ہی حقیقی خوشی سے بھرے لمحوں میں،
کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے،
کہ کل جب میں چُھپ جاؤں گا،
تو کیا یہ بھی مجھے ڈھونڈیں گے؟۔