22 ستمبر، 2013

بابے

پاکستان میں تخلیق کیا گیا نثری ادب اٹھا کر پڑھیں تو آپ کو چند بہت ہی نمایاں نام نظر آئیں گے۔

مشتاق یوسفی۔

مستنصر حسین تارڑ۔شفیق الرحمٰن۔

ابن انشاء۔انتظار حسین۔احمد ندیم قاسمی۔ 

وغیرہ وغیرہ۔

لیکن میری رائے میں  چار ادیب ایسے ہیں جنہوں نے  دھڑلے سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا ہے۔

ممتاز مفتی۔ بانو قدسیہ۔ اشفاق احمد۔ قدرت اللہ شہاب۔


جیسے فرنگی اپنے فیورٹ بینڈز کی ہر حرکت کاپی  کرنے کی کوشش کرتے ہیں،

 اسی طرح ان چار ادیبوں کے مداحوں نے اپنے ذاتی خیالات کو ان کے لکھے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کسی بھی لکھنے والے کے ٹیلنٹ اور مقبولیت  کی معراج ہے۔

یہ لوگ  جب عشق مجازی، یعنی عشق مشوقی پر لکھتے ،

 تو  پڑھنے والوں کے دلوں میں زندگی میں ایک زوردار عشق کی کمی  کے احساس  کا بیج بو دیتے ۔

اور جب  یہ بیج  بعد میں  تناور درخت بن کر پھل دیتا  تو اکثر متعلقہ تھانے کے افسران کو چھترول کے ذریعے پھل جھاڑنا  پڑتا۔  

پھر جب آخر عمر میں یہ لوگ متفرق وجوہات کی بنا پر   توبہ تائب ہوئے، اور عشق حقیقی یعنی  تصوف پر لکھنا شروع کیا ،

تو ان کے تمام فین کلب بھی  صحراؤں اور جنگلوں میں بابے ڈھونڈنے کی جستجو میں لگ گئے۔

پیر کامل کی تلاش میں عوام الناس دُور دراز ڈیروں پر سادہ دل بزرگوں کی  خدمت میں جُٹ گئی۔

نوے کی دہائی میں پروان چڑھنے والے  ہر نوجوان کی طرح میں نے بھی ان کا لکھا ایک ایک لفظ  آنکھوں سے پیا  ھے اور دل میں جذب کیا ہے۔

لیکن اب  اتنے سارے  سال گزرنے کے بعد ۔ ۔ 

آج اچانک یہ خیال آیا  ۔ ۔   

لوگ  بابے ڈھونڈنے جنگلوں اور صحراؤں میں تو نکل جاتے ھیں۔ 

لیکن اپنے ہی  گھر بیٹھے اُن ضعیف بابوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جن کی جھڑکیاں، گالیاں اور کوسنے  بھی محبت سے لُتھڑے ہوتے ہیں۔

میں بھی انہی گُمراہ لوگوں میں سے ہوں۔

امّی! ابّو! ۔ 

مجھے معاف کر دیں۔

۔ ۔ ۔ 

۔ ۔

۔



پس نوشت 

جو معافی ماں پیو کے قدموں میں گر کر مانگنے کی بجائے،

 عوام الناس اور بابوں کے سامنے مانگی جائے، 

اُس پر لخ دی لعنت۔


7 تبصرے:

  1. حرف حرف حقیقت ۔ آپ بیتی ، جگ بیتی جو شاید ہمیں اسوقت سمجھـ آئے جب ہم خود بابا یا ماسی نہ بن جائیں اور معافی بھی وقت پر مانگی جائے تو کارگر ہوتی ہے۔
    "انی کنتُ من الظٰلمین ۔۔۔۔ بے شک میں ظالموں میں سے ہوں "

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں آپ کی تحریر پڑھ کر سوچ رہا تھا کہ میں بہت کوڑھ مغز ہوں کہ کسی کے پیچھے نہیں لگا ۔ لیکن پوری تحریر پڑھ کر احساس ہوا کہ بچ گیا ۔ اللہ نے قرآن شریف کی سورت 17 بنی اسرآءیل ۔ آیت 23 اور 24 میں فرمایا ہے ۔ ”اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس (اللہ) کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار۔ جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت) سے پرورش کیا ہے تو بھی ان (کے حال) پر رحمت فرما“۔ ‏

    جواب دیںحذف کریں
  3. بلھے شاہ اسمانیں اڈدیاں پھڑنا ایں
    جیہڑا گھر بیٹھا اونہوں پھڑیا ای نئیں

    جواب دیںحذف کریں
  4. چشم کشاہ تحریر۔
    جو لوگ گھر والے بابوں کا احترام کرتے ہیں، اُنہیں کسی اور بابے کی ضرورت نہیں رہتی۔

    جواب دیںحذف کریں