25 جون، 2013

چِٹّا

ایک بہت پرانا عقدہ حل ھو  گیا۔

میرے سکول میں دو جڑواں بھائی پڑھتے تھے۔  نام تھے شاہ محمد اور عطا محمد۔ جڑواں ھونے کے باوجود ان کے نین نقش ایک جیسے نہیں تھے، جو کہ اتنی اچھنبے کی بات نہیں۔ 
جڑواں بچے مختلف شکلوں کے ھو سکتے ھیں۔
لیکن اِن جڑواں بھائیوں کے بارے ایک چیز کچھ مختلف تھی۔
 عطا محمد اپنے خدوخال سے خالصتاً افریقی نظر آتا  تھا۔
افریقیوں جیسے گھنگریالے بال۔ کالا سیاہ رنگ۔ موٹے ہونٹ اور ناک۔ طبعاً  انتہائی جھگڑالو اور بدمعاش۔
اس کے مقابلے میں شاہ محمد انگریز تھا۔
انتہائی گورا رنگ۔ سیدھے  بال۔ باریک کھڑا کھڑا سا ناک۔ اور طبعیت کا دھیما۔

عطا محمد سے  سکول میں صرف ایک ہی سوال کیا جاتا تھا۔ (اور یہ سوال کبھی بھی شاہ محمد سے نہیں کیا جاتا تھا۔)
وہ یہ کہ تم دونوں سگے  بھائی کس طرح ھو سکتے ھو۔ 
وہ گورا انگریز، تُو کالا افریقی۔
یہ سوال کرتے ہی پوچھنے والا عموماً ایک انتہائی فحش قسم کی ہنسی ہنسنا شروع کردیتا تھا۔  
اِس ہنسی کے ذریعے صرف ایک ہی خاموش پیغام دیا جاتا تھا۔ کہ یا تو تُو حرام کی اولاد ھے۔ یا پِھر تیرا بھائی۔ 
یعنی کہ  دونوں کیسز میں تیری ماں ایک خراب کیریکٹر کی عورت ہے۔
یہ سوال سنتے ہی عطا محمد  غصہ میں آ کر پوچھنے والے کو گندی گالیاں دینا شروع کر دیتا۔ اور پوچھنے والا اور بھی زور زور سے ہنسنا شروع کردیتا، جیسے کہ رہا ہو کہ تُو جو مرضی کہتا رہ لیکن حقیقت بدل نہیں سکتی۔

یہ سوال جب بھی ھوتا تھا، عطا محمد کے چہرے پر ایک عجیب سی بے چارگی اور  کنفیوژن آجاتا۔
جیسے اُس کے دل میں بھی یہ سوال ھو کہ آخر شاہ محمد میرا بھائی کیسے ھو سکتا ھے۔ کہیں میری ماں واقعی ایک بُری عورت تو نہیں ۔۔۔؟
میرا نہیں خیال کہ اُس نے اپنی ماں سے یہ سوال کبھی پوچھا ہوگا۔
اور اگر پوچھا بھی ہوگا تو اُس کے ذہن کا شک کبھی ختم نہیں ہوا۔
 ورنہ اُس کے چہرے پر کبھی بھی اتنی بے چارگی اور کنفیوژن نہ ہوتا۔

یہ پزل میرے چھوٹے سے ذہن میں برسوں حل طلب رہا۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ میں شاہ محمد اور عطا محمد کو بھول گیا۔

آج یہ عقدہ اِس طرح حل ھوا کہ  
مال کی چھت پر گاڑی کھڑی کی تو قریب سے گزرتے سات آٹھ سکول کے لڑکوں پر نظر پڑی۔  
 سرسری سی نظر پڑی تو ایک عجیب سا احساس ھوا۔
ان میں تقریباً ھر نسل کے لوگ تھے ٬ مصری، اماراتی، انگریز، انڈین   وغیرہ۔
لیکن صرف ایک شخص ایسا تھا جس کی نیشنیلٹی یا نسل کے بارے میں کافی کوشش کے بعد بھی اندازە نہیں لگا سکا۔

یہ صاحب البینو (ALBINO)  تھے۔  
وہی البینو، جن کی جلد کسی جینیٹک وجہ سے رنگ پیدا نہیں کر پاتی۔ جس کی وجہ سے یہ چٹے سفید بلکہ لال ھوتے ھیں۔
اِن صاحب کو دیکھتے ہی مجھے شاہ محمد یاد آگیا۔
اور مجھے لگا کہ شائد شاہ محمد بھی البینو تھا۔

اگر یہ بات بچپن میں پتہ ھوتی تو شائد عطا محمد مذاق اور ذہنی اذیت کا نشانہ بننے سے بچ جاتا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اب عطا محمد کہاں ھے۔ لیکن یہ ضرور معلوم ھے کہ بچپن کا ماحول انسان کے دنیا کے بارے تاثر کو جنم دینے میں بہت اہم ہوتا ھے۔جس شخص نے تمام بچپن  ذہنی اذیت برداشت کی ھو، میرا نہیں خیال کہ وہ بڑا ھو کر دنیا والوں کے ساتھ کچھ اچھا کرتا ھوگا۔ 

اسی لیے غالباً کہتے ھیں کہ بچوں کے ساتھ شفقت اور پیار سے برتاؤ کرنا چاھیئے۔ کہ اسی بچے نے کل کو بڑا ھو کرمعاشرے کا حصہ بننا ھے۔

3 تبصرے:

  1. جی، بولنے والوں کی کوئی زبان تو پکڑنے سے رہا۔ اس سے ملتے جلتے ایک معاملے میں کیس سرکار صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچا تھا۔ اس کا مطلب ہے اگر بات جہالت سے نہیں علمیت سے سوچی جائے تو حل تو ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ اپنی یادوں کو بلاگ پر محفوظ بنانے کیلئے شکریہ قبول کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت تلخ حقیقت۔ مجموعی طور پر ہمارا رویہ "مذاقیہ" واقعہ ہوا ہے۔ اور مذاق بھی یقینا حد سے زیادہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک عرصہ لگے گا ہم لوگوں میں تہذیب آنے تک
    اعلی

    جواب دیںحذف کریں