19 مئی، 2013

بوسن روڈ


میٹرک کے داخلے جانے لگے تو ماسٹربشیر  صاحب نے کچھ اس ترتیب سے سب کے فارم بھیجے کہ دو ھوشیار حضرات کے درمیان ایک نالائق بندہ گھس گیا۔ بورڈ سے رول نمبر بھی اسی ترتیب سے آئے۔ ماسٹر جی نے سارے ھوشیاروں کو فرما بھی دیا کہ آپ لوگوں پر فرض  واجب ہے کہ آپ اپنا امتحان حل  کرنے کے ساتھ ساتھ یہ جو  بندہ الاٹ ھوا ہے،  اس کو بھی پاس کروائیں۔ میرے  اور عامر کے حصّے میں شاکی آیا۔

یہ اتنا نالائق اور کاہل  تھا کہ بُوٹی بنانے اور لگانے کے علم سے ناآشنا تھا۔ یہ  ہم کو پوری رفتار سے پیپر حل کرتے دیکھ کر تقریباً باآواز بلند چلّانا شروع کر دیتا تھا کہ بے غیرتو، شیٹیں بھری جا رہے ھو، مجھے بھی پیپر کرواؤ اوئے!! ۔  زیادہ  دیر تک  بے اعتناعی دکھانے پر نگران کی آنکھیں دوسری طرف پِھرتے ہی یکدم ہماری آنسر شیٹ چھین کر اپنی پکڑا دیتا تھا اور دھمکی دیتا تھا کہ میرا پیپر حل کرو ورنہ میں نگران کو آواز لگانے لگا ہوں کہ سر جی، اِس لڑکے نے میری شیٹ زبردستی  چھین لی ہے!!!!۔ 

اب سوچیں تو ہنسی آتی ہے لیکن اس وقت اُس کی ان حرکتوں پر دل حلق میں آ جاتا تھا۔ میٹرک میں نقل کا کیس بننے کا مطلب تھا کہ زندگی ختم۔ لیکن خیر۔۔۔!

رزلٹ کے  بعد ماسٹر بشیر صاحب ملے تو فرمانے لگے کہ تم لوگوں نے شاکی کے ساتھ اچھی نہیں کی۔ میرا رزلٹ خراب کر دیا۔ لیکن اب ماسٹر صاحب کو کیا بتاتا کہ رزلٹ تو میرا خراب ہوا کہ  میں بمشکل سوا چھ سو نمبر لے سکا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ اچھے نمبر تھے لیکن  میرے لیے نہیں کیونکہ ٹارگٹ گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں داخلہ تھا، جس کو عرف عام میں صرف بوسن روڈ کہا جاتا تھا۔ یہاں پری میڈیکل میں اس سال اوپن  میرٹ کم از کم 710 نمبر تھا۔   بوسن روڈ کے بارے مشہور تھا کہ میڈیکل کالجز میں اس کے اکثر لڑکوں کا میرٹ بن جاتا ہے۔

بوسن روڈ کے علاوہ دوسرا آپشن سائنس کالج تھا، لیکن اس کا میرٹ بھی ساڑھے چھ سو کے قریب تھا۔ اور اوپر سے اس میں سختی اتنی تھی کہ اس کو سکول کے نام سے بلایا جاتا تھا۔  کیونکہ جس وقت بوسن روڈ کی آدھی عوام کلاس میں اور باقی آدھی  کالج کینٹین کے باہر کھڑے ہو کر اخبار پڑھ رہی  ھوتی تھی،عین اسی وقت  بالکل ساتھ واقع سائنس کالج میں پِن ڈراپ سائلنس  ہوتی تھی۔

ان دونوں کالجز  کے علاوہ باقی سب  پری میڈیکل  کے لیے بیکار سمجھے جاتے تھے۔

درخواستیں تو ڈال دیں، لیکن چونکہ میرا میرٹ نہیں بنتا تھا اس لیے مختلف آپشن لڑانے کا  سوچا ۔

گورنمنٹ نے میرے جیسےہونہار،  ڈزرونگ صاحبان کے لیے میرٹ سے ہٹ کر کچھ سیٹیں مختص کر رکھی ہوتی ھیں۔ اس لیے پہلے  سپورٹس بیس پر کوشش کی۔  ٹرائلز کے لیے مجھے کینٹ میں سکواش کورٹس پر بلایا گیا۔ اس وقت  سکواش سے میرا تعلق صرف اتنا سا تھا کہ میں نے لکڑی کی پھٹّی سے اپنے گھر کی دیوار کے ساتھ کافی عرصہ اکیلے سکواش کھیلی تھی۔ اس لیے بہت کانفیڈنس کے ساتھ ایک  جاننے والے کا ریکٹ ادھار لے کر ٹرائل دینے چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ چند لوگ ہونگے۔ لیکن وہاں ٹرائل دینے اور اپنے امیدوار کو سپورٹ کرنے کافی بڑا مجمع آیا ہوا تھا۔میری باری آئی تو پہلے میری شلوار قمیض پر اعتراض کیا گیا۔ لیکن خیر مجھے سرو کرانے کا کہا۔ اب میں نے لکڑی کی پھٹّی سمجھ کر ریکٹ گھمایا تواندازہ غلط ہو گیا۔ بال ریکٹ چھوئے بغیر ہی نیچے گر گئی ۔ہر طرف قہقہے بکھر گئے۔  اس کے ساتھ ہی  بڑی غصیلی آواز آئی، باہر آجا اوئے!!۔ سوچا کہ ٹرائل لینے والے پروفیسر سے ریکٹ کی بجائے لکڑی کی پھٹّی سے ٹرائل  کے چانس پتا کروں لیکن  پھر ہجوم کی مزید لعن طعن سے ڈر  کر گھر کو چل پڑا۔

دوسرا آپشن معذوروں کی سیٹ تھا۔ اور ظاہر ھے کہ میں معذور نہیں تھا ، اس لیے کوئی چانس تھا ہی نہیں۔

تیسرا اور آخری آپشن Kinship  تھا ۔  یعنی اگر آپ کے کِن یعنی بھائی اس کالج میں پڑھ چکے ھوں تو آپ کو سیٹ مل سکتی ھے۔ میرے پانچ بھائی بوسن روڈ سے پڑھ چکے تھے۔ اس لیے وہاں بھی  درخواست ڈال دی۔ لیکن درخواستوں کا ہجوم دیکھ کر  ہمت جواب دے گئی۔

آخر سول لائنز کالج میں بھی بوجھل دل کے  ساتھ فارم جمع کروا آیا اوربڑے بھائی کو فیس جمع کروانے کا کہ کر  ملتان سے واپس گھر آ گیا۔

بوسن روڈ اور سائنس  کالج کی فائنل لسٹ لگی تو میں دیکھنے نہیں گیا۔ ایک موہوم سی امید تھی۔ ایک کلاس فیلو مقصود   داڑھے سے پوچھا  کہ کسی لسٹ میں میرا نام تھا؟ تو داڑھا (جس کے 763 نمبر اور ملتان بورڈ میں دوسری یا تیسری پوزیشن تھی) مجھے حقارت سے دیکھ کر بولا کہ تیرے تو سوا چھ سو نمبر ھیں، تیرا نام لسٹ میں کیوں ہوگا۔؟؟؟  میں شرم سے زمین میں گڑ گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور دوست نے خدا کی قسم کھا کر  کنفرم کیا کہ  میرا نام  لسٹ میں  ہرگز نہیں تھا۔

کچھ عرصے بعد کالج شروع ہونے والے تھے تو  رضائی بسترا باندھ کر ملتان بھائی کے پاس چلا گیا۔ صبح بھائی نے کہا کہ چل کالج  کا پھیرا لگا کر آئیں۔ اپنے تمام پرانے کلاس فیلوزکے داخلے بوسن روڈ اور سائنس کالج میں ہونے کا غم لے کر میں بھائی کے ساتھ  موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔جوں جوں موٹر سائیکل کچہری کی طرف بڑھتی گئی، میرا دل ڈوبتا گیا۔ سول لائنز کا گیٹ آیا تو موٹر سائیکل مڑنے کی بجائے ایم ڈی اے چوک  کی طرف نکل گیا۔ جیسے جیسے ہم گلگشت کی طرف بڑھتے گئے میرا دل خوشی کے مارے پھٹنے لگ گیا۔ سفر کے اختتام پر بریک بوسن روڈ کی پارکنگ میں لگی جہاں آ کر میں نے آنکھوں میں پتنگے لگنے کی وجہ سے بہنے والے پانی کو اپنی قمیض کے پلّو سے صاف کیا اور دل کی گہرائیوں سے اللہ کا شکر ادا کیا۔

اس کے ساتھ ہی بوسن روڈ کا ٹور شروع ہو گیا۔

اس دن میں نے کلاس رومز دیکھے ۔ ٹائم ٹیبل نوٹ کیا ۔

کالج کے پہلے دن  مقررہ کلاس  روم میں گیا تو  مچھلی بازار گرم تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اکثر لوگ ایک دوسرے کو جاننے والے ھیں۔ لیکن میرے لیے تمام لوگ اجنبی تھے، اس لیے آخری بنچ پر جا کر بیٹھ گیا جہاں مبشر لنگڑا  اپنی پولیو زدہ  ٹانگ پھیلا کر بیٹھا ہوا  تھا۔ اچانک  میری نظر مقصود داڑھے پر پڑی جو سب سے آگے پہلے ڈسک پر بیٹھا تھا۔ میں نے فوراً آواز دی۔ داڑھے  نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میں نے ایک اوور ایکسائٹڈ لڑکی کی طرح اپنا ہاتھ ہوا میں لہرانا شروع کر دیا ۔ ( دماغ میں اُس سین کی  صرف یہی شباہت آ رہی ھے)۔  مجھے دیکھتے ہی داڑھے کے منہ پر چاند گرہن لگنا شروع ہو گیا۔ (چاند گرہن اس لیے کہ چاند پر بھی داغ ہوتے ھیں)  اور اس نے اچانک اپنا منہ واپس آگے کی طرف موڑ لیا اور پھر میرے کئی آوازیں لگانے کے باوجود پیچھے نہیں دیکھا۔  ویسے اس دن کے بعد سے داڑھے نے میرے ساتھ سیدھے منہ تو کیا، الٹے منہ بھی  کبھی بات نہیں کی۔

اُس دن تمام پروفیسروں نے ہمیں ویلکم کیا اور مستقبل میں ڈاکٹر بننے کے سپنے دکھائے۔ سوائے انگلش کے  پروفیسر خالد  صاحب کے۔ (پورا نام شائد خالد مسعود۔ اب فوت ہو چکے ہیں) ۔ خالد صاحب نے حاضری لگانی شروع کی اور ساتھ ساتھ لڑکوں کو غور سے دیکھتے گئے۔ حاضری ختم کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 210 سے اوپر رول نمبر والے تمام لوگ ہاتھ کھڑے کریں۔ میرا رول نمبر 270 تھا۔ ہاتھ کھڑا کر دیا  تو پروفیسر صاحب روکھے پن کے ساتھ بولے کہ "ایک بات لکھ لیں۔ یہ  210 رول نمبر سے اوپر جتنے بھی حضرات  ھیں، آپ کا میڈیکل کالج کا میرٹ نہیں بنے گا۔  آپ لوگ پری میڈیکل میں اپنا ٹائم ضائع کر یں گے۔ اپنے والدین کا پیسہ ضائع کریں گے۔ اس لیے فوراً  کسی اور شعبے میں کوشش کریں۔  میری بات مانیں گے تو اچھے رہیں گے۔بعد میں مت کہنا کہ بتایا نہیں تھا۔" یہ سن کر دل غصّے سے اور منہ پروفیسر صاحب کی شان میں دبی دبی  گالیوں سے بھر گیا اور عزم کیا کہ اس کو میڈیکل کالج کا میرٹ بنا کر دکھاوں گا ۔۔!!۔

بعد میں زمانے نے ثابت کیا کہ پروفیسر صاحب کی کڑوی بات  سچ تھی۔ مجھے 210 رول نمبر سے اوپر والا ایک بھی ایسا کلاس فیلو نہیں ملا جس کا میڈیکل کالج میں داخلہ ھوا ھو۔

یہ تو بوسن روڈ میں داخلے کی  داستان تھی۔ ابھی بہت عرصے بعد بوسن روڈ کالج میں پڑھی نئی نسل سے ملا تو پوچھا کہ بوسن روڈ کے کیا حالات ھیں ؟ تو  جواب میں چہروں پر عجیب  سوالیہ نشان  ملے۔ "آپ جی سی کی بات کر رہے ھیں؟"۔ یہ سارے لوگ بوسن روڈ کو "جی سی " یوں بلا رہے تھے جیسے یہ لاہور والا جی سی   ہو۔ میں نے دو تین بار "بوسن روڈ" کا لقمہ دینے کی کوشش کی لیکن لگا کہ  اب عوام  کو شرم آتی ہے اس نام سے۔ J۔

مجھے اب تک علم نہیں کہ بوسن روڈ میں میرا داخلہ کس کیٹیگری کی سیٹ پر ہوا  ۔  

9 تبصرے:

  1. ہاہاہاہا
    ہو تو گیا ناں
    ہم تو کتنی کوشش کرتے رہے کہ ملتان پنلک اسکول سے بھاگ نکلیں لیکن ایف ایس سی کر کے ہی نکلے اور شکر ہے بیچلر نہیں ہوتی وہاں ورنہ بیچلر بھی وہاں کرنا پڑتی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ملتان پبلک سکول مام پوپس لوگوں کا گڑھ ھے۔ یعنی کہ جن کے ماں پیو نہیں چاھتے کہ اُن کے بچے گندے منڈوں میں اٹھیں بیٹھیں، وہ اُدھر ڈال دیے جاتے ھیں۔ یہ اور بات ھے کہ ماں پیو کو اندازہ ہی نہیں کہ ایم پی ایس کسی سے کم نہیں۔

      حذف کریں
  2. بس میرا بھی جب گذر سائنس کالج سے ہوتا ہے تو وہ پرائمری سکول ہی لگتا ہے ،۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ کے بلاگ کی تزئین و آرائش اچھی لگی

    جواب دیںحذف کریں
  4. ہاہاہاہا۔
    زمانے بل گئے۔۔۔ اور ساتھ ہی نام بھی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. مجھے یہ بات سمجھ نی آئی کہ جب مقصود داڑھے نہ کہا تھا کہ آپکا نام لسٹ میں نہیں تھا تو آپ کلاس روم میں کیسے داخل ہو گئے ؟؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بھائی جان۔ سفارشیوں کی بھی بھلا کوئی لسٹ لگتی ھے؟؟؟

      حذف کریں
  6. ہم نے تو ایک ہی کالج کے خواب دیکھے تھے وہاں داخلہ نہیں ہوا تو
    بستہ ہاتھ سے یوں گرا کہ بھول گیا کتاب بھی والا حساب ہو گیا
    فیر ایف اے کر کے وہی کر لیا جو قوم کا ہر نااہل بندہ کر کے بعد عمر میں با اثر ہو جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ڈفر صیب۔ یہ بات بہت ادھیڑ عمری میں سمجھ آتی ھے کہ کسی مخصوص کالچ میں پڑھنے سے بندہ علامہ نہیں بن جاتا۔
      زندگی میں کامیابی انسان کی اپنی ذات پر منحصر ھوتی ھے۔

      حذف کریں