30 مئی، 2008

میں بلاگ کیوں لکھوں گا؟ - پہلا حصہ


میرے بلاگ لکھنے کے پیچھے پڑھنے والے کا ٹائم ضائع کرنے کے علاوہ  کئی سارے مقاصد ھیں۔ مثلاً:

۱۔ آن لائن ڈائری :
 میں نے 1993 سے 1996 تک بہت باقاعدگی اور ایمان داری  سے ڈائری لکھی ھے۔

ڈائری لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ھے کہ یہ ایک ٹائم ٹریول ڈیوائس کا کردار ادا کرتی ھے۔ یعنی کہ سالوں بعد(نہ کہ فوراً)پڑھیں اور کھڑے کھڑے اپنے ماضی میں پہنچ جائیں اور حیران ھوں کہ یہ بھی زمانہ گزرا ھے مجھ پہ؟۔ ۔اور سب سے بڑا نقصان یہ ھے کہ اس کو چھپاکے رکھنا پڑتا ھے کہ کہیں عوام پڑھ کر آپ کے اندر بسے اصل انسان کوپہچان کر۔  اُس کی بجائے آپ کو جُوت نہ پھیرنا شروع کر دے۔

 ھماری قوم کی عادت ھے کہ ھم اپنے معاملات سے زیادہ  دوسروں کی سُو لینے میں دلچسپی رکھتے ھیں۔

 تب جب ڈائری لکھتا تھا تو ھوسٹل میں  جس بھی یار دوست کو علم ھوتا کہ حضور رات کے پچھلے پہر لمبی لمبی ڈائریاں لکھنے کے شوقین ھیں تو میرے  لاکھ تالے لگانے اورنت نئی جگہوں پر  چھپانے کے باوجود کتّے کی طرح ڈھونڈ ہی نکالتے  اور  بعد میں پہروں میرے پوشیدہ خیالات اور جذبات کو میرے جزبز ھونے کی فکر کیے بغیر میرے ساتھ ڈسکس کرتے۔ بدتمیزوں کو نام لے لے کر گالیاں بھی اپنی ڈائری میں لکھیں ، اس امید پر کہ شائدپڑھیں اور مجھے کچھ دماغی تنہائی نصیب ھو۔ مگر نہیں ھٹنا تھا جوانوں کو، سو نہ ھٹے۔ اب اس امید پرباقاعدگی سے پڑھنے لگے کہ شائد ان کا نام بھی کہیں آئے۔

 آخرکار تنگ آکر1996 کے فروری میں  ڈائری لکھنا چھوڑ گیا۔۔۔۔

 بہت سال بعد جب  کئی سال ھوسٹلوں میں رُل  کُھل کر  آخرکار گھر پہنچا، تو اپنے سارے غبار آلود کاٹھ کباڑ کو چھانتے ھوئےایک گتے کے بھورے ڈبے سے ۔۔۔۔۔وہی نیلی  ڈائریاں نکل آئیں۔۔۔۔۔نہیں معلوم کہ  کتنی دیر اُن کو مضبوطی سے پکڑ کر گُھورتا رھا۔

ھوش آیا توکمرے کے ایک کونے میں بیٹھ کر ورق پلٹتا گیا اور  سوچوں میں ڈوبتا گیا کہ میں ایسا بھی ھوا کرتا تھا۔۔ وہ سب لوگ یاد آگئے جو کبھی میرے لیے بہت اہم تھے مگر اب ان کے  نام تک  بھول گیا تھا۔سوچتا رھا کہ سولہ سترہ سال کی عمر میں لکھی ھوئی ڈائری کتنی بیوقوفانہ ھوتی ھے۔ ۔۔۔

بہت سالوں بعد کوئی پرانا  دوست ملے توتمام تر شناسائی اورمانوسیت کے باوجود ایک ان دیکھا پردہ یہ باور کرواتا رھتا ھے کہ اب سب ویسا نہیں، بہت کچھ بدل گیا۔۔شائد اسی لئے اپنا ماضی دیکھ کر اتنی شدید اجنبیت محسوس ھوئی کہ  دونوں  ڈائریوں کو باغیچے کے ایک ویران کونے میں رکھ کر آگ لگا دی۔۔۔۔۔۔۔۔

اب کی دفعہ، قسم لے لیں جو ایسا اینڈ کرنے کا ارادہ ھو۔ کیونکہ اب کی دفعہ ڈائری  ذاتی ایشوز پر کم کم لکھوں گا۔ بڑا جو ھو گیا ھوں۔۔۔۔ھیں جی؟


3 تبصرے:

  1. ڈائری لکھنے کی عادت واقعی ایک ایسا عمل ہے کہ جس سے بندے کو اپنا راستہ چننے میں اور اپنی خوبیاں خامیاں جاننے میں آسانی رہتی ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ڈائری لکھنے سے انسان دوبارہ ٹھوکر کھانے سے بچتاجاتا ہے کیونکہ لکھنے سے بات ذہین نشین ہوجاتی ہے ۔ہمارے بدلتے احساس ،جزبات ،ضروریات اور زندگی کے سفر کے ساتھیوں کا ساتھ کبھی ماں باپ تو کبھی بہن بھائی کبھی میاں یا بیوی تو کبھی اولاد کبھی اور کوئی سب کا کردار ان کا سلوک ہر بات ہر واقعہ جیسے قید ہوکر رہ جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. اپنی ہی لکھی ڈائری ایسے لگتی ہے جیسے کسی بہت ہی کم عمر بچے نے لکھی تھی۔۔۔ یقین ہی نہیں آتا۔ لیکن انٹرنیٹ کی ڈائری میں آپ اپنا دل نہیں کھول کے رکھ سکتے جبکہ الماری میں بند پری ڈائری میں کئی سال پرانے جذبات بھی اسی طرح محفوظ رہ جاتے ہیں، بس وقت کے ساتھ ان کی حیثیت بدل جاتی ہے۔
    آپ کا بلاگ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ :)

    جواب دیںحذف کریں