16 اکتوبر، 2014

خوراک آپ کا مستقبل تبدیل کرسکتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی تحریر میں ایسا زبردست جملہ  نظر سے گزرتا ہے کہ بندہ ٹھٹک کر سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ اس بات کا یہ پہلو تو میں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے ان صاحب کے بلاگ کا پہلا پیرا گراف پڑھا تو یہی کیفیت طاری ہوگئی۔
 
آپ بھی پڑھیں اور حظ اٹھائیں۔


بات یوں تو بہت سادہ سی ہے  کہ اماں حوا نت نئے ذائقوں کے چکر میں اپنا ہاتھ کنٹرول نہ کر سکی اور آنے والی نسلوں کو جنت کی بجائے دنیا کی آزمائشیں جھیلنی پڑ گئیں۔

صاحب بلاگ کا قول قابل غور ہے کہ خوراک کی زندگی میں اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے جتنی عموماً ہم سمجھتے ہیں۔ جیسے پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک آسٹرین شہزادے کا قتل تھا۔  قاتل ایک ناکام کوشش کے بعد ایک کیفے میں بھوک کے ہاتوں کچھ کھانے پینے بیٹھا تھا کہ شہزادے کا قافلہ کیفے کے سامنے سے گزرا، اور قاتل کو اپنا کام پورا کرنے کا موقع مل گیا۔

اس بات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا۔
میں اب اپنے ماضی کے چیدہ چیدہ بہت ہی اہم (لائف ٹرننگ) سنگ میلوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت کھانے کا کوئی اور آپشن لینے سے  میرا مستقبل کتنا مختلف ہو سکتا تھا۔
مثلاً اگر میں شادی کے بعد اپنی بیوی کی پکائی بریانی سے پرھیز برتتا ، تو بہت پتلا ہوتا۔ مستقبل میں ہر چوتھے مہینے نئے کپڑے نہ سلوانا پڑتے۔ کافی خرچ بچ جاتا جس سے چار پانچ پلاٹ اور دس پندرہ ٹرک خریدے جاتے۔
یا اگر میں پندرہ ستمبر کو پوستی کے اصرار پر اس کو اس کا پسندیدہ برگر کھلا دیتا، تو میرے تعلقات اس سے اب کی نسبت کافی بہتر ہوتے۔
یا اگر 1996ء میں پروفیسر اللہ داد کو دو چار چرغے اور کھلا دیتا تو شائد میں آخری مہینوں میں اس کے ٹیسٹوں کی کلاس سے نہ نکالا جاتا۔ اور اب ڈاکٹر ہوتا۔
یعنی مستقبل کافی مختلف ہوسکتا تھا۔
:)

اوپر ذکر کیے گئے بلاگ کا ایڈریس یہ ہے۔
www.runninginlahore.wordpress.com

صاحب بلاگ سے ان کا لکھا نقل کرنے کے لیے ہرگز اجازت نہیں لی گئی۔ اور نہ ہی لینی ہے۔

3 تبصرے:

  1. اس میں اگر یہ بھی شامل کر لیا جائے کہ دادا پردادا اور اُن کی اولاد نہ مرتی تو اپنی ایک فوج ہوتی جس سے کشمیر فتح کر لیا ہوتا ۔
    ایک تو ہوتے ہیں ”یہ کیا ہوتا یا یہ نہ کیا ہوتا“ والے اور ایک ہوتے ہیں ”ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے“ والے یہ دونوں دنیا میں اور آخرت کیلئے بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور جو حاصل کر لیتے ہیں اُس کا لطف اُٹھانے سے محروم رہتے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت کمال کا حوالہ تلاش کرلائے . . . عنایت

    جواب دیںحذف کریں
  3. اوائلِ نوجوانی میں ایک ہمسایے نے محلے کے تھڑے پر توا اور چولہا رکھ کر برگر بنا بیچنا شروع کئے، خدا نے ہاتھ میں ایسی لذت اور برکت دی کہ عرصہ پانچ سال میں اپنی ذاتی پراپرٹی، گاڑی اور بیوی کے مالک بن گئے۔ اب شہر کے پوش علاقے کے علاوہ چند اور مقامات پر بھی شاخیں پیسوں کے عوض فی سبیل اللہ برگر لُٹا رہی ہیں، آنجناب باقاعدگی سے صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں، مساجد کو چندہ اور مستحقین کی امداد بھی کرتے رہتے ہیں پارسال حج کی نعمت سے بھی سرفراز ہوئے۔
    ثابت یہ کرنا مقصود تھا کہ خوراک جہاں جنت سے نکالے جانے کا باعث بنی وہیں جنت میں پہنچانے کا سبب بھی بن جایا کرتی ہے اسلئے بڑے بڑے اور چھوٹے چھوٹے واقعات میں اس کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
    ایک صاحب تھے نیوٹن جن کا خوراک کے بجائے سوچ و بچار پر گذارا تھا جبھی کششِ ثقل ایجاد کربیٹھے، ورنہ اللہ کی زمین سے ملی بلکہ سر پہ پڑی نعمت کو کچر کچر کھاتے ہوئے بجلی کے بل کی ادائیگی کے اسباب تلاشتے بھی وقت گذار سکتے تھے۔

    جواب دیںحذف کریں