1 مئی، 2015

گوپی

سچ کہوں تو گوپی سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اور شائد کبھی ہوتا بھی نہیں، اگر وہ ہمارے ضرورت روم میٹ کے اشتہار کے جواب میں ایک اندھیری رات گنجو ناتھ کے ہمراہ ہمارے فلیٹ پر وارد نہ ہوا ہوتا۔
کرائے کے تین کمروں میں گیارہ طالب علموں اور ان کے تین چار مستقل مہمانوں کی موجودگی میں پہلے ہی بہت رش تھا۔
لیکن کیا کرتے۔ کرایہ ہر چھ مہینے سال بعد کسی نہ کسی بہانے بڑھ جاتا تھا۔  اور پھر یہ کہ ہر دوسرے دن فلیٹ اور کالج کی چار دیواری سے باہر کی زندگی کا علم حاصل کرنے کی خاطر نئی فلم کی سی ڈی بیس روپے روزانہ کے کرائے پر بھی آتی تھی۔  اسی لیے کونسل میں فیصلہ ہوا کہ بھیڑوں سے کھچا کھچ بھرے اس باڑے میں دو چار  لیلے اور گُھسا لیے جائیں۔ چنانچہ محلے کے تمام ہوٹلوں اور آس پاس کے کالجوں میں ضرورت روم میٹ کے اشتہار چسپاں کر دیے گئے۔
تین ہفتے بعد، اسی سلسلے میں گوپی پہلے امیدوار کے صورت آدھی رات کو ہمارے دروازے کے باہر بمع گنجو ناتھ جلوہ افروز تھا۔
 گہرا سانولا رنگ۔ کلین شیو۔ دیہاتی نین نقش۔ چار پانچ سال پرانا شلوار قمیض جس کا پھیکا رنگ اب بہت ہی پھیکا ھوتا جا رہا تھا۔ سرائیکی لہجے کی انتہائی نستعلیق اردو۔ نرم چہرے پر انتہائی سنجیدگی۔ جو صاحب دروازہ کھولنے گئے، وہ ان کو دروازے سے ہی اس بناء پر بھگانے لگے کہ اشتہار مزدوروں کے لیے نہیں سٹوڈنٹس کے لیے تھا۔ لیکن چونکہ اس رات سب کی جیبیں خالی  ہونے کی وجہ سے ہوم سنیما بند تھا، اس لیے کونسل نے فیصلہ کیا کہ امیدواران کا گروپ انٹرویو کرلیا جائے۔ انٹرویو میں واضع ہو گیا کہ مستقبل بعید میں بھی گوپی کی فلیٹ میں جگہ مشکل ہے۔ ان دنوں چونکہ کونسل مالی بحران کا شکار تھی، اسی لیے گوپی کو ہاں کر دی گئی۔ ہاں سنتے ہی گوپی نے ایک کونے میں مجذوب کی مانند گم سم بیٹھے گنجو ناتھ کو اشارے سے بتایا کہ تُو یہیں ٹھر، میں تیرا سامان لے کر آیا۔ یہ پینترا سب کو حیران کر گیا۔ یہی وہ پہلا موقع تھا جب گوپی فلیٹ والوں کی توجہ کا مرکز اور مذاق کا نشانہ بن گیا۔
تب سے ہی گنجو ناتھ سے ملاقات کرنے آتے گوپی سے سب کی آہستہ آہستہ دوستی سی ہوگئی۔
ایک دن بہت ایکسائٹمنٹ میں فرمانے لگا کہ آج کالج لائبریری میں ایک لڑکی سے بات کی ہے۔
ہم نے کہا۔ بڑا کارنامہ کیا، جو تاریخ میں تجھ سے پہلے کسی سے نہیں کیا۔ اور خاص طور پر اس فلیٹ پر رھنے والے خشکے شیر دل حضرات میں سے تو کسی نے بھی ہرگز نہیں کیا۔
کہنے لگا ۔' عجیب بات ھوئی۔ میں نے اس کو اکیلا بیٹھے دیکھ کر کلاس نوٹس مانگے۔ بولی کہ دوستی کرنی ہے تو سیدھا سیدھا بولو۔ یہ کلاس نوٹس کا گھٹیا بہانہ کیوں لگا رھے ہو۔ کچھ دیر کھلے منہ کے ساتھ  اس کا منہ تکتا رھا، پھر جی کڑا کر اپنے اندر اس کمرے سے دڑکی لگانے کی خواھش پر قابو پا کر جھجکتے  ہوئے کہا کہ چلو پھر دوستی ہی کر لو۔ بولی کہ سمجھو ہو گئی۔ پھر ہم اگلا ایک گھنٹہ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔
یہ لغو اور بے بنیاد بکواس کہانی سن کر سامعین میں سے آدھے حسد کے مارے اٹھ گئے اور باقی آدھوں نے اس پر پروفیشنل "چھوڑوو" ہونے کا الزام لگایا۔

دو ماہ بعد گنجو ناتھ نے ذکر کیا کہ زاہدِ خشک آج کل عشق کے تیل میں ڈوبا ہوا ہے۔ اپنے انتہائی غریب والد صاحب سے شادی کی بات کرنے پر مار کھاچکا ہے۔
کچھ عرصہ بعد گوپی نے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود انہی خاتون سے نکاح کرلیا۔
اس کے بعد گوپی سے ملاقات تقریباً ختم ہوگئی۔
بس خبریں ملتی رہیں کہ اپنا گھر بسانے کی خاطر دونوں میاں بیوی نے ظالم سماج اور اپنی پڑھائی چھوڑ کر دوسروں کو ٹیوشنز پڑھانا شروع کردیا۔ یہ فارمولا اتنا کامیاب ہوا کہ کچھ عرصہ بعد اسی ٹیوشنز کی کمائی سے گاڑی بھی خرید لی۔

بہت سال بعد اگلی دفعہ ملاقات ہوئی تو گوپی کے تین بچے ہوچکے تھے اور دھندہ عروج پر تھا۔
میں اس کو دیکھ کر، اس کی باتیں سُن کر سوچنے لگا کہ یار۔ کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ھوتے ہیں۔ میں ابھی پڑھائی کے امتحانوں میں سے نہیں نکل پا رہا اور یہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے سارے امتحان اعلٰی نمبروں سے پاس کیے جا رہا ہے۔

اگلے ہفتے لاہور سے اپنے آبائی شہر کو جاتے ہوئے، آدھی رات کے بعد، گوپی اپنی بیوی اور تین بچوں پر مشتمل لوسٹوری اور گاڑی پر مشتمل جائداد سمیت، جل کر راکھ ہوگیا۔
یہ بات اب بے معنی ہے کہ پہلے سی این جی سلنڈر پھٹا یا پہلے گاڑی درخت سے ٹکرائی۔
صرف یہ طے ہے کہ گاڑی کے ڈھانچے اور چند جلے ہوئے انسانی ڈھانچوں کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔
ہاں، صرف ایک چمڑے کا بٹوہ،
جو کہ  گاڑی کی ڈرائیور سائیڈ کے پاس ہی پڑا ملا۔
چمڑے کا بٹوہ ۔ ۔ ۔  جس پر تھوڑی سی انسانی چمڑی چمٹی ہوئی تھی۔
اسی بٹوے میں موجود شناختی کاغذات کی مدد سے پولیس نے  گھر والوں کو ڈھونڈا ، تاکہ جلی ہوئی ھڈیوں سے بھری گٹھڑی  ان کے حوالے کی جا سکے۔
گنجو ناتھ کا کہنا ہے کہ شائد گوپی نے آخری لمحوں میں بٹوے کو جلتی گاڑی سے باہر پھینک دیا ہو ۔تاکہ مرنے کے بعد اس کی شناخت ہو سکے۔ شناخت مرنے کے بعد بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پیچھے زندہ رہ جانے والوں کو تسلی ہوجائے کہ مردہ انہی کا ہے۔

جیتے جاگتے لوگ، اور ان کی ہنستی بستی زندگی چند لمحوں میں محض ایک خبر بن گئے۔


موت تو آ ہی جایا کرتی ہے۔ لیکن زندہ جل کر راکھ ہو جانا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں، دماغ ماؤف ہو جاتا ہے۔ شائد اس تاثر کی وجہ سے کہ جل کر مرنا سب سے اذیت ناک موت ہے۔ شائد تبھی انتہائی بے بس لوگ اپنے آپ کو نذر آتش کر کے اوروں کا غصہ اپنے وجود پر ٹھنڈا کرتے ہیں۔
سڑک پر ایک سو چالیس کی رفتار پر ایک ہات سے سٹیرنگ پکڑ کر گاڑی چلاتے ہوئے، شریک حیات کی باتیں اور پیچھے سے بچوں کےقہقہے سنتے سنتے، جب بھی گوپی کا خیال آتا ہے تو دوسرا ہات خودبخود اسٹیرنگ پر کھسک آتا ہے اور رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔ اپنے مرنے سے ڈر نہیں لگتا۔ اپنی سٹوری ختم ہونے سے خوف آتا ہے۔ 

18 نومبر، 2014

ممتاز قادری

فیس بک پر ید بیضاء کے ایک حالیہ سٹیٹس سے اقتباس۔
"ابهی پچهلے دنوں ایک چوهدری صاحب نے اسلام کی مقدس جنگ ایک مسیحی جوڑے کے خلاف لڑی۔
اس سے پہلے وه قادری صاحب نے ایک چهاپہ مار کاروائی میں گورنر صاحب پر ہاتھ صاف کیا تها۔۔
سمجھ یہ نہیں آ رها کہ توهین رسالت، جس قانون کے حق میں گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا، اس پر خود ان کو اتنا اعتبار کیوں نہیں تها کہ اسی قانون کے تحت سلمان تاثیر کے خلاف مقدمہ درج کروا دیتے؟؟؟۔ ۔ ۔ "

پڑھنے کے بعد سوچ کا زاویہ وہی ہے یا تبدیل ھوا؟؟؟۔ ۔
واقعی ،ممتاز قادری کو پھولوں سے لادتے ھوئے ھم سب کو یہ بات ایمانداری سے سوچنی چاھیئے۔
جس قانون کے ناموس کی تحفظ کی خاطر ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل کیا، اسی کے تحت مقدمہ کیوں نہ درج کروا دیا؟۔
انگریزی محاورہ ہے کہ کمرے میں کھڑے ہاتھی کو نظرانداز کردینا۔
قادری صاحب کے اس فکری معمے کا جواب بھی سب کو معلوم ہے، لیکن سب کی ذاتی بھلائی اور بہتری اسی میں ہے کہ ہاتھی کی طرف نہ ہی دیکھا جائے۔

22 اکتوبر، 2014

توکل کرمان کے حق میں حجابی سازش


بعض اوقات قوموں پر اتنا برا وقت آجاتا ہے کہ اپنوں کے سامنے اپنے آپ  اور اپنی  تہذیب و اقدار کو اعلٰی ظاہر کرنے کے لیے جھوٹی روایات کا سہارا لینے لگتے ہیں۔
توکل کرمان ایک یمنی بی بی ہیں، جن کو ملالہ کی طرح کسی نامعلوم وجہ سے 2011ء میں نوبل امن انعام مل چکا ھے۔
انعام ملنے کے بعد متواتر ان سے ایک روایت منسوب کی جارہی ہے:


راوی کہتا ہے کہ یمن کی "اُم الانقلاب" جنابہ توکل کرمان سے صحافیوں نے ان کے حجاب کے بارے کہا کہ یہ ان کی اعلٰی ذہنی و تعلیمی سطح سے میل نہیں کھاتا تو انہوں نے فرمایا:
"ابتدائے آفرینش میں انسان بے لباس رہتا تھا۔ پھر جیسے جیسے اس کی ذہنی صلاحیت میں بہتری ھوئی اس نے کپڑے پہننے شروع کردیے۔ میں آج جو کچھ بھی ھوں اور جو کچھ بھی میں نے پہن رکھا ہے، یہ انسانیت کی سوچ اور تہذیب کی معراج کی علامت ہے اور اسی لیے یہ تنزلی نہیں ترقی ہے۔ یہ تو بے لباسی ہے جو انسان کو قدیم دور جاہلیت کی جانب دھکیلتی ہے۔"

بحیثیت سچے مسلمان، یقیناً سر فخر سے بلند ھو گیا؟۔
سینہ بھی پھول کر کُپا ھو گیا؟۔
چلو اچھی بات۔

اب معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ
یہ روایت جھوٹی ہے۔
"اُم الانقلاب" نے کبھی ایسا نہیں فرمایا۔
اس روایت کاممکنہ  ماخذ ایک عربی فورم (لنک) پر 12 اکتوبر 2011 کو پوسٹ کی گئی ایک حکایت ہے، جس میں دور دور تک توکل کرمان کا ذکر نہیں۔



امکان یہ ہے کہ سات اکتوبر 2011 کو جب توکل کرمان کو نوبل امن انعام دیے جانے کا اعلان ھوا، تو کسی عقلمند کے دماغ میں آیا کہ کیوں نہ حکایت میں دیے گئے سبق کی پروموشن کی خاطر اس میں کسی محجوب و مشہور ہستی کا نام ٹھوک دیا جائے۔ اپنا مقصد تو محض عوام کی بھلائی ہے۔
اس کے بعد پھر "توکل کرمان" کا یہ قول زریں جنگل کی آگ کی طرح انٹرنیٹ پر پھیلا دیا گیا۔
اس جھوٹے قول سے قطع نظر، توکل کرمان کے پردے و حجاب و نقاب کے بارے حقیقی خیالات ان کے ایک انٹرویو سے ملاحظہ کریں۔


توکل کرمان نے تمام عمر چہرہ نقاب سے ڈھانپا ہے لیکن پبلک لائف میں آنے کے بعد نقاب سے جان چھڑا لی۔
فرماتی ہیں، میرے دین میں کہیں نہیں لکھا کہ چہرے کا پردہ کرو۔ یہ تو محض ایک (معاشرتی) روایت ھے۔

مسلمانو۔ 
حیا کرو۔
اپنے لوگ نوبل انعام ملنے کے بعد تمہاری قومی اجازت کے بغیر ہی کرسٹانوں، یہودیوں و ملحدوں کے ساتھ میل جول رکھنے لگ گئے ہیں تو کوئی ضرورت نہیں کہ ان کے نام سے جھوٹی روایات گھڑ گھڑ کر گھڑمس مچاؤ۔
جھوٹ بولے بغیر فارغ ٹائم نہیں پاس ھوتا تو کفار کے ساتھ -"لَو جہاد" -  (Love Jihad) کرو۔ تاکہ پولیو ڈراپس کے ذریعےمسلمانوں کی نس بندی کرنے کا سفلی عمل انہیں پراُلٹ دیا جائے۔ ویسے کفار نس بندی کا کام پولیو ڈراپس کی بجائے گھر گھر مفت بریانی کی تقسیم کے ذریعے بھی کرسکتے ہیں۔ جمہور رائے یہی ہے کہ اس طریقہ کار کی عوامی مخالفت نہ ھونے کے برابر ھوگی۔
اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو جہاں شک پڑے کہ کوئی تمہارے  ایمانی اور ملی جذبے میں کسی جدید قول یا سائنسی تحقیق کے ذریعے ھیلیئم گیس بھرنے کی کوشش کررہا ہے، تو ہوشیار ہوجاؤ، اور تحقیق کرو کہ کہیں کوئی گیم تو نہیں کر رہا۔
اس قسم کی شرارتیں یوں تو بے ضرر نظر آتی ہیں، البتہ بعد کی نسلوں کو پریشانی ہوجاتی ہے۔

جن قاری حضرات کو اس تحریر سے اختلاف ہے، وہ توکل کرمان کے اس انٹرویو کا لنک فراہم کریں۔ تسلی ہونے پر انشاءاللہ تحریر سے رجوع کرلیا جائے گا۔ 
ورنہ نیچے کمنٹس میں اپنے اختلاف کی نوعیت درج کروائیں۔

16 اکتوبر، 2014

خوراک آپ کا مستقبل تبدیل کرسکتی ہے۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کی تحریر میں ایسا زبردست جملہ  نظر سے گزرتا ہے کہ بندہ ٹھٹک کر سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ اس بات کا یہ پہلو تو میں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔

ابھی کچھ دن پہلے ان صاحب کے بلاگ کا پہلا پیرا گراف پڑھا تو یہی کیفیت طاری ہوگئی۔
 
آپ بھی پڑھیں اور حظ اٹھائیں۔


بات یوں تو بہت سادہ سی ہے  کہ اماں حوا نت نئے ذائقوں کے چکر میں اپنا ہاتھ کنٹرول نہ کر سکی اور آنے والی نسلوں کو جنت کی بجائے دنیا کی آزمائشیں جھیلنی پڑ گئیں۔

صاحب بلاگ کا قول قابل غور ہے کہ خوراک کی زندگی میں اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے جتنی عموماً ہم سمجھتے ہیں۔ جیسے پہلی جنگ عظیم کی وجہ ایک آسٹرین شہزادے کا قتل تھا۔  قاتل ایک ناکام کوشش کے بعد ایک کیفے میں بھوک کے ہاتوں کچھ کھانے پینے بیٹھا تھا کہ شہزادے کا قافلہ کیفے کے سامنے سے گزرا، اور قاتل کو اپنا کام پورا کرنے کا موقع مل گیا۔

اس بات نے مجھے سوچ میں ڈال دیا۔
میں اب اپنے ماضی کے چیدہ چیدہ بہت ہی اہم (لائف ٹرننگ) سنگ میلوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ اس وقت کھانے کا کوئی اور آپشن لینے سے  میرا مستقبل کتنا مختلف ہو سکتا تھا۔
مثلاً اگر میں شادی کے بعد اپنی بیوی کی پکائی بریانی سے پرھیز برتتا ، تو بہت پتلا ہوتا۔ مستقبل میں ہر چوتھے مہینے نئے کپڑے نہ سلوانا پڑتے۔ کافی خرچ بچ جاتا جس سے چار پانچ پلاٹ اور دس پندرہ ٹرک خریدے جاتے۔
یا اگر میں پندرہ ستمبر کو پوستی کے اصرار پر اس کو اس کا پسندیدہ برگر کھلا دیتا، تو میرے تعلقات اس سے اب کی نسبت کافی بہتر ہوتے۔
یا اگر 1996ء میں پروفیسر اللہ داد کو دو چار چرغے اور کھلا دیتا تو شائد میں آخری مہینوں میں اس کے ٹیسٹوں کی کلاس سے نہ نکالا جاتا۔ اور اب ڈاکٹر ہوتا۔
یعنی مستقبل کافی مختلف ہوسکتا تھا۔
:)

اوپر ذکر کیے گئے بلاگ کا ایڈریس یہ ہے۔
www.runninginlahore.wordpress.com

صاحب بلاگ سے ان کا لکھا نقل کرنے کے لیے ہرگز اجازت نہیں لی گئی۔ اور نہ ہی لینی ہے۔

30 ستمبر، 2014

در مدحِ متحدہ بانک

انگریزی زبان میں ایک لفظ ھے۔
Worst
ڈکشنری اس کا مطلب عموماً "برا ترین" بتاتی ھے۔
لیکن جب یہی لفظ یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ  نامی پاکستانی بینک کی شان میں استعمال کیا جائے، تو اس کے مطلب کی وضاحت کے لیے جو زبان استعمال کی جانی چاھیئے، اس کی قریب ترین مثال کے لیے علی معین نوازش کی فیس بک پوسٹ پر کمنٹس کا مطالعہ فرمائیں۔
پچھلے کئی سال سے امارات کا سب سے ورسٹ بنک ھونے کا اعزاز حاصل ھے۔
لیکن ہم پاکستانیوں کا کیا کیا جائے  کہ اپنے وطن کی اشیاء دیکھ کر حب الوطنی جوش مارنے لگ جاتی ہے۔
یہاں کی مارکیٹوں میں ایک سے ایک خالص اور اعلٰی کوالٹی کی چیز ملتی ہے لیکن ہم وطن پاکستان سپر سٹور پر جا کر مہنگے داموں اپنی وطنی اشیاء لینے چڑھ جاتے ہیں۔
اسی وطنی جذبے کے تحت جب بھی پیسے یو بی ایل کو استعمال کرتے ہوئے بھیجنے کی کوشش کی، ہمیشہ مایوسی ہوئی۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ادھر سے پاکستان تک پیسے بھجوانے کے لیےسمندری لانچیں اور  افغانی خچر استعمال کرتے ہیں۔
سسٹم چیک کریں ذرا۔
سروس کا نام "آن لائن" "تیز رفتار" "ٹی ٹی" "فلیش ریمٹ" وغیرہ ہوگا۔ 
دعوٰی فوراً پیسوں کی ڈلیوری کا ہوگا۔
لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ پیسے سمندری لانچ کے ذریعے کچھ دن بعد کراچی پہنچیں گے تو کوئی نہ کوئی خچر ان پر دو تین دن کے لیے بیٹھ جائے گا۔ اس سے جان چھٹے گی تو جس منٹھار کی بس، پٹھان کے  ٹرک یا کھوتی ریڑھی کے ذریعے آپ کے شہر تک پیسے جائیں گے، وہ ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے لیٹ ہوگا۔
آخر ڈیڑھ دو ہفتوں کے بعد جب آپ رقم پر اناللہ پڑھ چکے ہونگے ، تو اچانک پورے شہر میں ڈھنڈورا پٹ جائے گا کہ مردہ قبر پھاڑ کر نکل آیا۔ خوشی سے آپ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیں گے۔
یو بی ایل بےکار ترین بینک ہے۔ پرھیز کریں۔
ھمیشہ سوئس بنک استعمال کریں۔

UBL
Where you come first....
and remittance comes last.

8 ستمبر، 2014

ایماندار بندے کی کہانی

دبئی میں اچھی جاب تھی۔ زندگی میں ہرخوشی تھی۔ ماں کو زیور بنوا دیا۔ بہنوں کی دھوم دھام سے شادی کر دی۔ پاکستان میں دو پلاٹ خرید لیے۔
ایک دفعہ ملاقات ھوئی، تو بہت خوش تھے۔ کہنے لگے کہ ایویں شغل میں ایک سیلز کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ کا ویزا اپلائی کیا تھا۔ وہ لگ گیا ہے۔ مبارک باد دی۔
ہم اس بات پر مبارکباد کیوں دیتے ہیں؟۔
شائد دوسروں کے بارے ہمیشہ لاشعور میں یہ ھوتا ہے کہ ان کی پہلے ہی زندگی گلزار ھے، اب سر بھی کڑاھے میں ھوگا۔
یا شائد یہ کہ چلو ان کو پاکستان نامی پنجرے سے فرار کی سعادت حاصل ھوئی۔ اب جہاں چاہیں گے ، سفر کریں گے کہ انکل سیم نے جو کلیئرنس دے دی ہے۔
انکل کلیئرنس دے دیں تو مبینہ طور پر رزق کے دروازوں کو دھکا مار کے مزید وا کیا جا سکتا ہے۔
ان کے پندرہ روزہ امریکی دورے پر نکلنے کے بعد دوبارہ ملاقات نہ ھو سکی۔ فیس بک پر ان کی امریکہ یاترا کی تصاویر دیکھ کر معلوم ھوا کہ بخیر و عافیت واپس پہنچ گئے ہیں۔

تین چار ماہ بعد ایک مشترکہ دوست نے بتایا کہ صاحب اور ان کا نوجوان بھانجا پچھلے ایک ہفتے سے تھانے میں بند ہیں۔ کیا کیس ہے۔ کچھ معلوم نہیں۔ پلس والے کچھ نہیں بتا رہے کہ تفتیش چالو ہے۔ دو دفعہ اپارٹمنٹ پر پولیس تلاشی کی غرض سے چھاپے مار چکی ہے۔ بیوی بچے (جو دبئی میں ہی تھے) بہت ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے۔ کسی کا کوئی واقف ہے تھانے میں تو پتہ ہی کروا دے کہ آخر بات کیا ہے!۔
پردیس میں اب کدھر سے واقف آئے ؟۔ اور وہ بھی تھانے میں۔؟وہ بھی ڈرپوک خارجیوں کا جن کا پلس کی گاڑی پر نظر پڑتے ہی سانس بے ترتیب ہو جائے۔ بہت مشکل سے ایک بارسوخ صاحب کی منت کر کے معاملہ و خیر خیریت معلوم کرنے کا ٹاسک دیا کہ کم از کم اندھیرا تو چھٹے۔ اندر سے جواب ملا کہ جب تک معاملے کی تفتیش چل رہی ہے، دوبارہ رابطہ کرنے کا سوچنا بھی مت۔ جب تفتیش ختم ھو تو پھر بتائیں گے کہ کیا معاملہ ہے۔
ایک ہفتہ بعد بھانجا گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ پچیس تیس لاکھ درہم کی ڈکیتی کا معاملہ ہے۔ لیکن کیا کہانی ہے، یہ بھانجے کو اتنے دن حوالات میں رھنے کے باوجود معلوم نہیں تھی۔ قانونی مدد کے لیے وکیل کی خدمات لی گئیں۔ پہلے وکیل نے کیس سُن کر اسی ہزار درہم مانگے۔ دوسرے نے ستر ہزار۔ پھر بہت سر پھٹول کے بعد ایک وکیل ڈھونڈا گیا جس نے کیس کی پیروی بیس ہزار درہم کے عوض کرنے پر آمادگی ظاہر کی ۔ ایک دوست نے جی کڑا کر وکیل کی فیس کے لیے اپنے دفتر سے قرض لیا۔

وکیل کرنے کا فائدہ یہ ہوا، کہ ان کی بیوی کی ان سے ملاقات کروا دی گئی۔ ان کی زبانی معلوم ھوا کہ امریکی کانفرنس میں ایک ملتانی گرائیں سے ملاقات ھوئی جو دبئی میں کاروبار کرتے تھے۔ ہم شہر، ہم زبان، خوش گفتار، ملنسار، خوش مزاج اور بظاہر خوشحال ۔دوست بن گئے۔
ویسے بھی سفر کی حالت میں شائد دوستیاں بہت جلدی ھوتی ہیں کہ لوگوں کی اصل فطرت کہیں پیچھے ہی رہ جاتی ہے۔
امریکہ سے واپس آئے تو فیملیوں کا آنا جانا شروع ہو گیا ۔ تعلقات بہت جلد بہت گہرے ہوتے گئے۔ پھر ایک دن یہ دوست فرمانے لگے کہ پیچھے ملتان میں گھر پر کچھ ایمرجنسی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فیملی کو واپس بھیج دیا اور خود بھی صبح جا رہا ہوں۔ مہینے دو مہینے میں واپسی ہوگی۔ لیکن مشکل یہ کہ اس دوران ایک قرض خواہ ساؤتھ افریقہ سے دبئی آ رہے ہیں۔ ان کو ادائیگی کے لیے اپنے دو ٹرک بیچ دیے ہیں۔ پیسے پاس ہیں لیکن کسی پر اعتبار نہیں۔ آپ عزیز از جان اور " ایماندار" آدمی ہیں،رقم امانتاً رکھ لیں، اور ان صاحب کے آنے پر میری طرف سے ادا کر دیں۔ یوں ڈیڑھ لاکھ درہم ان کو پکڑا دیے۔

سات آٹھ دن تک کسی نےرقم کے لیے رابطہ نہ کیا تو پریشانی ہو گئی۔ غریب بندے کے گھر میں زیادہ رقم ہو تو ویسے ہی ٹینشن ہو جاتی ہے۔ ملتانی صاحب کو فون کیا تو معلوم ھوا کہ ساؤتھ افریقن قرض خواہ کا ٹور کینسل ہو گیا ہے۔ اس لیے یہ رقم اب فلاں پاکستانی ہنڈی والے کے ذریعے پاکستان بھجوا دیں۔ اگلے دن رقم بھانجے کے ہاتھ ہنڈی والے کو بھجوائی۔ ملتانی صاحب سے ھنڈی والے کی بات کروا کر کنفرمیشن لی اور سکھ کا سانس لیا کہ ذمہ داری تمام ہوئی۔دو دن بعد پولیس نے ان کو اور ان کے بھانجے کو گرفتار کر لیا اور رقم کے بارے تفتیش شروع کردی۔ تھانے میں ہی معلوم ھوا کہ ایک شاپنگ مال میں موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے کیش سیکیورٹی کمپنی کے اہلکار کو ٹیزر گن (الیکٹرک شاک گن) سے مفلوج کرکے اس سے رقم کا بیگ چھینا اور فرار ہوگئے۔ سیکیورٹی کیمرے سے لی گئی فوٹیج سے ان میں سے ایک فرد کی شناخت ملتانی صاحب کے طور پر ہوگئی۔ رہائش پر چھاپہ مارا گیا۔ لیکن مجرم پاکستان کی فلائٹ لے چکے تھے۔ فون کا ریکارڈ چیک ھوا اور جس جس نے ڈکیتی سے پہلے اور بعد میں ملتانی صاحب سے گفتگو فرمائی تھی، سب دھرے گئے۔ دھرے جانے والے تمام افراد کی رہائش گاہوں پر رقم کی تلاش میں چھاپے پڑے۔ ان میں سے ایک کے بیڈ کے گدے کے بیچ چھپائے گئے ڈکیتی کے بیس لاکھ درہم برآمد ہو گئے۔ ہنڈی والا دھرا گیا، جس نے باقی رقم کا سراغ دیا۔ معلوم ہوا کہ چھ سات "ایماندار" افراد میں تقریباً ایک ہی قصہ سنا کررقم بانٹ گئے ۔

پولیس کی صلاحیت ملاحظہ کریں کہ کیش انشورنس کے باوجود تقریباً تمام رقم ڈکیتی کے دو ہفتے کے اندر برآمد ہوگئی۔ یہی واقعہ پاکستان میں ھوتا تو ورثاء رو پیٹ کر خاموش ھو گئے ھوتے۔ دونوں ڈکیت ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ جبکہ "ایماندار" افراد جیل میں سڑرھے ہیں۔ ان صاحب کی دو مہینے جیل میں گزارنے اور پاسپورٹ پولیس کے پاس رکھوانے کے بعد بہت مشکل سے ضمانت ہوئی۔
واپس اپنی نوکری پر گئے تو معلوم ھوا کہ باس کی مہربانی سے نوکری سے نکالے تو نہیں گئے، لیکن عدالت سے الزام کلئیر ھونے تک نہ تو تنخواہ ملے گی اور نہ ہی واپس نوکری پر آنے کی اجازت۔ روزمرہ خرچ کے لیے پیسے نکلوانے بینک گئے تو سر پر ہتھوڑا پڑا کہ بینک اکاؤنٹ الزام کلئیر ھونے تک فریز ھوچکا۔ کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ نہ یہاں رہ سکتے ہیں، اور نہ ہی واپس جا سکتے ہیں۔ یہ صاحب اب چھپ چھپا کر چھوٹے موٹے کام کر کے اپنا سلسلہ چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اس تمام صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو کہ قریبی لوگ بھی پانچ سو گز دور سے گزرنے لگ جاتے ہیں کہ پتہ نہیں اصل کہانی کیا ہے ۔ بظاہر مظلوم شخص کہیں ظالموں کا سرغنہ تو نہیں؟۔ اور یہ کہ ان صاحب سے بدقسمتی نامی چھوت کا مرض ہمیں بھی نہ لگ جائے!۔اس معاشرتی رویے میں کسی کا کوئی قصور نہیں ھوتا۔ جب بھی اس طرح کے قصے معلوم ھوتے ہیں، انسانوں پر اعتبارکا خون ہو جاتا ہے۔
لوگ پیسے لے کر واپس نہیں کرتے، اس کی توقع و خدشہ تو ہمیشہ انسان کے ذہن میں ہوتا ہی ہے۔ لیکن اگر کوئی بظاہر خوشحال اور شریف شخص آپ کے پاس کچھ دن کے لیے امانتاً رقم یا زیور وغیرہ رکھوا جائے، تو کبھی وہم و گمان میں بھی یہ بات ذہن میں نہیں آتی کہ یہ چوری کا مال ھو سکتا ہے۔

پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ،
لوگوں کے ساتھ زندگی کے معاملات کیسے رکھے جائیں؟
ایک طرف بندے ہی بندوں کے کام آتے ہیں۔
اکیلے آدمی کی زندگی کا سفر خوشگوار نہیں ہوتا۔
دوسری طرف بندے ہی بندوں کی راہ میں ٹوکے تیز کیے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم میں راہزن اور راہبر کی پہچان کرنا ناممکن ھو چکا۔
کیا آدمی کو اپنی تمام زندگی مسلسل محتاط رہتے ہوئے (بلا امتیاز رنگ و نسل و مذھب و رشتہ داری وغیرہ) ہمیشہ صرف اور صرف اپنے اوپر اعتبار کرتے ہوئے گزارنی چاھیئے؟۔
جن لوگوں کو اس ماڈل پر زندگی گزارتے دیکھا ہے، ان کو اکثرعوام میں بری شہرت کا حامل پایا ہے۔
اس سوال کا جواب جوانی ہی میں بال سفید ہونے کے باوجود میرے پاس نہیں۔
کسی کے پاس ھے تو بتائے۔