9 دسمبر، 2013

فسادی سیب

گئے وقتوں کی بات ہے۔
ایک بادشاہ کو اپنی ملکہ سے بہت محبت تھی۔
زندگی سے بھی زیادہ!
پھر ایک دن اُس کے محل کے باہر ایک ننگ دھڑنگ سادھو آیا۔
دربانوں نے بادشاہ سے ملاقات کروانے سے انکار کیا   تو سادھو نے لنگوٹ سے تیز دھار خنجر نکال لیا۔
پھر ایک ہی وار میں اپنا بایاں ہاتھ  کلائی کے پاس سے الگ کر دیا۔
کٹا ہوا ہاتھ زمین پر گرا اور بچھو کی طرح ادھر ادھر رینگنے لگ گیا۔
دربان حیران رہ گئے۔
اور یہ دیکھ کر پریشان بھی ہو گئے کہ کٹی ہوئی کلائی پر  خون کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
سادھو نے آگے بڑھ کر اپنا کٹا ہوا  ہاتھ اٹھایا اور پھر سے کلائی کے ساتھ جوڑ دیا۔
پھر بولا "اب مجھے اپنے بادشاہ کے سامنے لے چلو"۔
بادشاہ کے سامنے حاضری ہوئی تو بولا ۔"ظلِ الٰہی۔ میں ایک سادھو ہوں۔ میں نے بہت تپسیا  کاٹنے کے بعد یہ سیب حاصل کیا ہے۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ جو بھی اس کو کھائے گا۔امر ہو جائے گا۔"
بادشاہ نے پوچھا۔ " اگر ایسی ہی بات ہے تو یہ سیب تم خود کیوں نہیں کھا لیتے؟"
سادھو بولا۔ "تین وجہ سے۔
ایک یہ کہ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ ہمیشگی کی زندگی جوان عمر اور اچھی صحت والوں کو ملے گی۔
دوسرا یہ کہ میں  مرنے او رپھر نیا جنم لینے  کے مسلسل  چکر میں ہی گرفتار رہنا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ ہمیشگی کی زندگی سے زیادہ بڑا انعام ہے۔
تیسرے یہ کہ مجھے یہ سیب چکھنے سے ڈر لگتا ہے۔"
بادشاہ نے پوچھا  ۔ "  سیب زہر آلود نہ ہونے کی کیا گارنٹی ہے؟"
سادھو نے ایک خرگوش منگوا کر اُس کو سیب کی ایک باریک سی قاش کھلائی اور پھر خرگوش کو دھکتی بھٹی میں جھونک دیا۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد شعلے کم ہوئے تو بادشاہ نے دیکھا کہ خرگوش بالکل صحیح سلامت  ہے اور انگاروں سے کھیل رہا ہے۔
بادشاہ جان گیا کہ سادھو سچا ہے۔
بادشاہ نے بہت سا سونا منگوا کر سادھو کو دیا۔ لیکن سادھو نے لینے سے انکار کر دیا اورمحض ایک  شکریہ کے بدلے سیب بادشاہ کے حوالے کر کے اپنی راہ ہو لیا۔
بادشاہ ہمیشگی کی زندگی کے بارے سوچتا رہا۔
پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ سیب اپنی ملکہ کو دے دے گا، جس کو وہ زندگی سے بھی زیادہ چاہتا ہے۔
اس رات بادشاہ نے ابدی زندگی دینے والا سیب اپنی ملکہ کی نذر کر دیا۔
ملکہ سپہ سالار کے عشق میں گرفتار تھی۔
اگلے دن اس نے سیب اپنے عشق کو بھجوا دیا۔
سپہ سالار شہر کی ایک ہائی کلاس طوائف کی محبت  میں مبتلا تھا اور سالوں سے ملکہ کے دیے ہوئے تحائف کو اپنی محبوبہ کی نذر کر رہا تھا۔ اس لیے اس نے سیب بھی اسی کو تحفہ میں دے  دیا۔
طوائف کافی لالچی تھی۔ اُس نے سوچا کہ اس نادر روزگار تحفے کو بادشاہ کی  خدمت میں پیش کر کے  سونے چاندی میں کنورٹ کروا لیا جائے۔
بادشاہ طوائف کے ہاتھ میں اسی سیب کو  دیکھ کر حیران رہ گیا، جو اس نے چند دن پہلے ملکہ کو دیا تھا۔
اس نے تفتیش شروع کر دی کہ سیب کن رستوں سے گزر کر طوائف تک پہنچا۔
حقیقت کُھلنے پر اُس نے ملکہ اور اس کے عاشق کو اپنے سامنے مروا دیا۔
پھر سلطنت اپنے بھائی کے حوالے کی اور اپنی سلطنت کے غریب ترین فقیر کے کپڑے پہن کر سیب کھاتے ہوئے شہر سے باہر جنگلوں میں نکل گیا۔
ــــــــسینڈمین



کہانی پڑھ کر مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دیں:
شہر میں ننگ دھڑنگ گھومنے اور کھلے عام فحاشی پھیلانے کے جرم میں سادھو کو مولویوں نے جوتے کیوں نہیں مارے؟
کیا  ایک ننگ دھڑنگ سادھو اپنے مختصر  لنگوٹ  میں تیز دھار  خنجر چُھپاسکتا ہے؟ کدھر؟
کیا سادھو کا بایاں ہاتھ نقلی تھا؟
سادھو نے صرف ایک ہاتھ سے اپنا کٹا ہوا ہاتھ اٹھا کر دوبارہ کیسے فِٹ کیا؟ اس کے ہاتھ میں تو خنجر تھا!؟
کیا کوئی بھی کرتب دکھا کر بادشاہ سے ملاقات کی جا سکتی ہے؟
دربان ایک   خنجر بردار شخص کو ایک ہائی پروفائل شخصیت  کے قریب کیوں لے کر گئے؟ اگر سادھو نے خودکش لنگوٹ پہنا ہوتا تو۔ ۔ ۔ ؟ کیا اس سیکیورٹی لیپس پر کسی کی سرزنش ہوئی؟
سادھو کو کیسے معلوم ہوا کہ بادشاہ اِس محل میں ہے؟ کیا اس سیکیورٹی لیپس پر انٹیلیجنس والوں کی سرزنش ہوئی؟
کیا بادشاہ کا بس ایک ہی محل تھا؟ کیا بادشاہ دراصل "کلرک بادشاہ" تھا؟
سادھو کو سیب چکھنے سے کیوں ڈر لگتا تھا؟ کیا اُس کو فوڈ الرجی تھی؟
خرگوش کو جلتی بھٹی میں چونکنے پر اینیمل رائٹس والوں نے شور کیوں نہیں مچایا؟
خرگوش کا کیا ہوا؟ کیا اُس کو کسی نے آگ کی بھٹی سے باہر نکالا؟
سادھو نے سیب کے بدلے سونا لینے سے انکار کیوں کیا۔؟ کیا بادشاہ کے پاس اس  سونے کی خریداری کی رسید نہیں تھی؟ یا پھر سادھو صرف  کیش میں کام کرتا تھا؟
ملکہ نے سیب تحفے میں دینے پر بادشاہ کی سرزنش کیوں نہیں کی؟ کیا اس سے پہلے  ملکہ بادشاہ سے  تحفے میں آلو، گوبھی،  ٹینڈے، بھنڈی ، ٹماٹر وغیرہ بھی قبول کر لیتی تھی؟ کیا سلطنت میں پھل اور سبزیاں سونے کے بھاؤ بک رہے تھے؟
کیا ملکہ اور سپہ سالار "کُو" کی منصوبہ بندی کر رہے تھے؟
کیا تمام سپہ سالار طوائفوں کے عشق میں گرفتار ہوتے ہیں؟
سپہ سالار طوائف کو ملنے آتا تھا تو اس کی سیکیورٹی والے کدھر کھڑے ہوتے تھے؟
کیا انکم ٹیکس والوں نے کبھی طوائف سے پوچھا کہ یہ مال کدھر سے آ رہا ہیں؟ کیا طوائف انکم ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فیض اٹھا رہی تھی؟
طوائف بھی منہ اٹھا کر بادشاہ سے ڈائریکٹ ملنے آگئی! یہ سیکیورٹی والے کرتے کیا تھے؟
بادشاہ  نے طوائف کے ہاتھ میں اپنا  سیب کیسے پہچانا؟۔ کیا سیب پر یونیک بارکوڈ اور پروڈکشن بیچ نمبر وغیرہ پرنٹ تھا؟
طوائف کو  سیب کے بدلے میں کیا ملا؟ آم؟
بادشاہ نے مقدمہ چیف جسٹس کو ریفر کیے بغیر ملکہ اور سپہ سالار کو کیوں مروا دیا؟ اُس وقت  آزاد میڈیا کدھر تھا؟
سادھو نے بادشاہ کو اتنا لمبا  چکر کیوں دیا۔ سیدھا سیدھا کیوں نہیں بتایا کہ تیری بیوی بدکردار ہے؟
بادشاہ نے نوے دن کے اندر الیکشن کروانے کی بجائے سلطنت اپنے بھائی کے حوالے کیوں کی؟
کیا بادشاہ کے استعفٰی کے بعد سادھو نے کامران خان یا کامران شاہد کے پروگرام میں انٹرویو دیا؟
جس غریب فقیر کے کپڑے بادشاہ پہن کر نکل گیا۔ اُس نے کیا پہنا؟ اگر اُس نے بادشاہ کے اتارے  ہوئے کپڑے پہنے، تو پھر اُس نے بعد میں بھیک مانگنے کا بزنس کیسے چلایا؟
بادشاہ سارا سیب خود کیوں کھا گیا؟ اس نے سیب کی "پھاڑیاں" کر کے خلق خدا میں کیوں نہیں بانٹیں؟
کیا سیب "اصلی "تھا؟
کیا سادھو  بھی کبھی بادشاہ تھا؟ کیا سادھو کی بیوی بھی ۔ ۔ ۔ ۔؟ 
یا پھر سادھو اصل میں انٹیلی جنس کا آدمی تھا؟
اس کہانی کا سبق کیا ہے؟


14 تبصرے:

  1. زبردست حضرت۔۔۔ کہانی سے زیادہ سوال اعلیٰ ہیں۔۔۔ بہت اعلیٰ

    جواب دیںحذف کریں
  2. اتنے سارے "مشکل" سوالوں کے جواب دینے کیلئے "جتنی عُمر" درکا ر ہے "اُتنی عُمر" کیلئے میرا سیب کھانا ضروری ٹھہرتا ہے اس لیے ۔۔
    پلیز آپ مجھے بتائیں کہ:" سیب" اب کس کے پاس ہے ؟؟ اور یہ بھی کہ وہ کس جگہ رکھا ہُوا ہے؟؟ ۔۔ "پتہ بتانے والے کو ثواب ملتا ہے" ۔۔۔۔
    ۔اب اجازت دیں ۔۔۔۔۔آپکا بُہت شُکریہ ۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اس کہانی کا عنوان فسادی سیب کی بجائے شغل اعظم ہونا چاہئیے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. شکر ہے کہ وہ سادھو یہ سیب لے کر آپ کے پاس نہیں آ گیا

    ویسے یہ سوالات پڑھ کر بین الاقوامی معاملات میں پاکساتنی سوشل میڈیا کے سوالات کا انذاز جھلکتا نظر آتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  5. کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
    آپکو ایک دن بابے سادھو کے ساتھ گزارنا پڑے گا۔۔۔ پھر پتہ چلے گا خنجر کدھر چھپایا تھا۔۔۔ ویسے سیب خنجر پہ گرے یا خنجر سیب پہ، کٹتا بیچارہ سیب ہی ہے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. بھاڑ میں گیا سیب تے بھاڑ میں گیا بادشاہ۔سانوں تے اے ڈسو اس مملکت میں ووٹ کتنے کا بکتا تھا؟

    جواب دیںحذف کریں
  7. اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ ملکہ کرپٹ تھی!

    جواب دیںحذف کریں
  8. ایک اہم سوال سے صرف نظر کیا گیا وہ یہ کہ جو خرگوش سیب کھا کرامرہوگیا اسکو خاندانی منصوبہ بندی والوں کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا؟
    !عموما ایک خرگوش چھے سے لیکر بیس بچے سالانہ پیدا کرتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  9. سیب نا ھوا قیدو ھو گیا :)

    جواب دیںحذف کریں
  10. واہ۔ کیا لکھا ہے۔ واقعی ایک منفرد تحریر۔ زبردست۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. شیرہ لگانے والا ہماری سرائیکی میں ایسے کردار کو کہا جاتا ہے جو کوئی معمولی سا کام کر کے بڑا فتنہ پیدا کر جاتا ہے۔ یہ سادھو مجھے کوئی ایسا ہی شیرہ لگانے والا لگا۔
    کری اے ٹی وی ٹی ہے جی۔ شکریہ قبول کریں

    جواب دیںحذف کریں
  12. uff itnay sawal? in sub ki toh eik brain quest game ban sakti hai!

    جواب دیںحذف کریں
  13. بہت خوب
    ایسا کوئی سیب پاکستانی حکمرانوں کو بھی ملنا چاہئے

    جواب دیںحذف کریں