15 جون، 2013

کندورہ

ونڈو شاپنگ کرتے کرتے ایک درزی کی دکان میں گھسا تو خیال آیا کہ میرا دفتری سوٹ چار سال کے تقریباً روزانہ استعمال کے بعد داغِ مفارقت دینے ہی والا ھے۔
درزی سے سوٹ کی سلائی کا ریٹ پوچھا تو کہنے لگا کہ وە صرف عربی کندورے ہی سیتا ہے۔
میں نے پوچھا۔ کوٹ پینٹ سیتے کیا ہوتا ہے؟
کہنے لگا۔ شرم آتی ھے۔ ارباب نے صرف کندورے سینے کا حکم دیا ھے۔ نمک حرامی نہیں کر سکتا۔
دوکان سے باہر نکلتے نکلتے درزی کی میز پر پڑے کپڑے پر نظر پڑی تو دل چاہا کہ چھو کر دیکھا جائے کہ کیا ہے۔
چھوا  تو  بے ساختہ منہ سے نکلا کہ استاد ۔ یہ کپڑا ھے کہ ملائی؟
بولا۔ پولیسٹر ہےسو فیصد۔ بغیر کسی ملاوٹ کے۔
میں نے حیرانی سے دیکھا تو کہنے لگا کہ کندوروں کے لیے عربی صرف پولیسٹر ہی پسند کرتے ھیں کہ اس پر سلوٹ نہیں پڑتی اور اوپر سے اس کا رنگ کاٹن کی نسبت زیادہ سفید اور دیرپا ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا کہ ہم  نے تو سُن رکھا تھا کہ پولیسٹر  گرم ہوتا ہے اور گرمیوں میں نہیں پہنا جا سکتا۔
کہنے لگا۔ صاب،  یہ گرمی والی باتیں ہمارے لیے ہیں، اِن لوگوں نے کونسا گرمی میں پھرنا ھوتا ہے!!۔ ہمارے آپ کے ملک میں اس کپڑے کے پہننے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خالص پولیسٹر تو چھوڑیں٬ ہم کاٹن مکس کپڑا بھی پہننے کی جراٴت کر لیں تو چھ مہینے گرمی دانے جان نہ چھوڑیں۔
جب بھی عربوں کو دیکھتا اور ملتا تھا, کافی حیران ہوا کرتا تھا کہ ان کے گھر کام کرنے والے یا والیاں کتنی محنت سے کپڑے استری کرتے رہتے ھونگے کہ جب بھی دیکھو٬لباس پر ایک بھی بل نہیں۔ آج عقدہ کھلا کہ سب جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔


ٹیکنالوجی سے یاد آیا٬ یہ جو کولا مشروبات کی پلاسٹک پیٹ بوتلیں ھوتی ھیں٬ ان کی ریسائیکلنگ سے بھی پولیسٹر بنتا ہے۔


3 تبصرے:

  1. ماہرین مستقبلیات تو یہ کہتے ہیں کہ آئندہ انسان کاغذ سے بنے ہوئے لباس پہنے گے جو آسانی سے دھوئے بھی جا سکیں گے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سر جی۔ ایک ٹشو پیپر ایسا دیکھا ھے جو کہ انتہائی پائدار اور پانی سے کئی دھلائیوں کے بعد بھی ویسا ہی رہتا ھے۔

      حذف کریں