21 جون، 2008

ھندوستانی ٹھگ


انگریز ھندوستان پر قبضے کے دوران اپنی جن سماجی کامیابیوں کا تذکرہ بہت فخر سے بیان کرتے ھیں، ان میں سے ایک ٹھگوں کے منظم گروہوں  پر قابو پانا ھے، جو کہ پندرھویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک تین سو سال تک ھندوستان بھرکے راستوں میں  دھڑلّے سے منڈلاتے رھے۔

 ان کی وارداتیں  اتنی بڑھ گئی تھیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے  قابو پانے کے لیے کیپٹن ولیم سلی مین کی سربراھی میں ایک سپیشل سیل تشکیل دیا گیا۔  اس سیل کی  تفتیش اور کاروائی کی تفصیلات  نے انگلستان میں اتنی سنسنی پھیلا  دی کہ رڈیارڈ کپلنگ سمیت بہت سے لوگوں نے ٹھگوں کے قصے لکھ لکھ کر ٹھگ کالفظ انگریزی زبان میں مستقلاً شامل کر دیا۔  سنسنی  کا مزید اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ اس دور کی  ملکہ وکٹوریا نے  اسی موضوع سے متعلق ایک ناول "کنفیشن آف اے  ٹھگ" چسکے لے کر پڑھا، جس میں ایک حقیقی سلطانی گواہ سیّد امیر علی عرف فرنگھیا نامی ٹھگ کے اعتراف جرم کو بنیاد بنایا گیا تھا۔

آج کے زمانے میں ٹھگ کا لفظ چالاک   اور مطلب پرست آدمی سے لے کر دھوکے باز جرائم پیشہ افراد تک کے لیے استعمال  کیا جاتا ھے ۔  یہی لفظ امریکہ میں ڈاکوؤں کے لیے استعمال کیا جاتا ھے، جو اپنی شناخت یا  نیّت چھپانے کا تردد نہیں کرتے۔ لیکن اصلی تے وڈّےھندوستانی ٹھگ، اپنے شکار پر آخر تک اپنی شناخت یا  نیّت ظاہر نہیں کرتے تھے۔

 ولیم سلی مین کی اس زمانے (1830-1840) کی تفتیش کے مطابق ٹھگ توھم پرست قاتلوں کا گروہ تھا جو بھوانی نام کی دیوی کے پجاری تھے۔اور  نسل در نسل ٹھگی  سے وابستہ تھے اور ان کا پختہ یقین تھا کہ صرف  ان کو اس کام کا خدائی حق ھے اور جرائم پیشہ لوگوں کا کوئی اور گروہ اس نام سے کام کرنے کا حق  نہیں رکھتا۔(یعنی جملہ حقوق محفوظ)

ان لوگوں کا بنیادی مقصد  اجنبی مسافروں کاقتل تھا۔ جو  کسی بھی محّرک کے بغیر  صرف اور صرف خون کی پیاس(ھڑک) بجھانے کے لیے ھوتا تھا۔ مال کی لوٹ مار ان کے لیے  ثانوی چیز تھا۔  ٹھگوں کے اقبالی بیانات کے مطابق یہ لوگ کسی بھی مسافر کے مال اسباب کا لالچ کیے بغیر، بلا تخصیصِ مذہب،  امیر اور غریب دونوں کو بلا امتیاز کاٹ ڈالتے تھے۔  (البتہ انگریزوں پر پکڑے جانے کے ڈر سے ہاتھ نہیں ڈالتے تھے۔ویسے اپنے ملک میں انگریزوں پر کوئی بھی ہاتھ نہیں ڈالتا۔)
 یہ لوگ ایک کھلاڑی کی طرح اپنا "سکور" بہت فخر سے بیان کرتے تھے۔ ایک سلطانی گواہ بہرام نے سلی مین کے سامنے   چالیس سال میں کم از کم نو سو اکتیس قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ (اس کا کہنا تھا کہ نو سو اکتیسویں قتل کے بعد اس نے گننا چھوڑ دیا تھا)۔   ایک اور سلطانی گواہ فتح خان نے اکیس سال میں پانچ سو چار مسافروں کو مارنے کا بتایا۔

ذیل میں بہرام ٹھگ سے کی گئی تفتیش کا ایک اقتباس ٹھگ ذھنیت کو عیاں کرتا ھے۔۔۔

"سلی مین: معصوم لوگوں کو دوستی کا جھانسہ اور جھوٹا احساس تحفظ دلا کر بعد میں سفاکی سے قتل کرنے پر کبھی پچھتاوا ھوا؟

"بہرام:  بالکل نہیں صاحب! آپ خود  شکاری ھیں۔  کیا آپ جانور کا پیچھا کر کے اس کو اپنی چالاکی سے زیر کرنے کے بعد، اس کا سر اپنے قدموں میں دیکھ کر خوش ھوتے ھیں کہ نہیں؟ ٹھگ انسانوں کا شکار کر کے اسی طرح کی راحت محسوس کرتے ھیں۔ صاحب! آپ کے لیے درندے کی جنگلی جبلت  پر قابو پانا کھیل ھے ، جبکہ ٹھگ کو ذہین  اور اکثر اوقات مسلح    مسافروں  کے خوف، ذہانت اورشک پر  قابو پانا ھوتا ھے، یہ وہ لوگ ھوتے ھیں جو  راستے کی خطرناکی کے پیش نظر پہلے ھی چوکنّے  ھوتے ھے۔ ذرا اس خوشی کا اندازہ کریں جو ھمیں اسطرح کے لوگوں کے ساتھ سفر کرتے ھوئے ، ان کا شک دوستی اور اعتماد  میں بدلتے ھوئے دیکھ  کر ھوتی ھے، حتٰی کہ ھمارا  رومال ان کو شکار کر لیتا ھے۔! پچھتاوا؟ کبھی بھی نہیں۔ بس صرف خوشی، سکون  اور اطمینان!!!"

ٹھگ ٹولیوں میں شکار کرتے تھے۔ ٹولی کے ھر ٹھگ کا کام مختلف ھوتا تھا۔ مثلاً ایک کا کام شکار کے گلے کو رومال سے جکڑنا  ھوتا تھا۔جبکہ باقی ٹھگ ٹولے کے ذمہ شکار کے ہاتھ پاؤں قابو کرنا اور اس کے نازک حصوں پر ضربیں لگانا ھوتا تھا  حتٰی کہ رومال والا ٹھگ شکار کا گلا دبا  کر اس کا کام تمام کر دے۔ ٹھگ اپنے شکار کو مارنے کے لیے  رومال کے علاوہ کسی قسم کے ہتھیار کا استعمال نہیں کرتے تھے کیونکہ ٹھگی کے اصول و ضوابط کے تحت قتل کے دوران مقتول کا خوں بہانا ممنوع تھی۔  اس کے بعد یہ لوگ لاش کے ٹکڑے کرتے تاکہ دفنانے کے بعد لاش پھولنے سے زمین اوپر  ابھر نہ آئے اور خوامخواہ وھاں سے گزرنے والے کو شک  پیدا نہ ھو۔  دفنانے کا کام اتنی ھوشیاری اور جلد بازی میں کیا جاتا کہ ٹھگ خود بھی کچھ عرصہ بعد قبر کی نشاندھی نہیں کر سکتے تھے۔ اس تمام کام کی انہیں بچپن سے تربیت ملتی تھی۔

یہ لوگ غضب کے اداکار تھے۔ اگر انہیں محسوس ھوتا کہ شکار ان کی طرف سے مشکوک  ھے، تو یہ اس سے کسی بہانے سے بچھڑ کر کسی اور سمت میں نکل جاتے اور  ٹھگوں کی دوسری متحرک ٹولیوں کی طرف پیغام رساں بھیج کر ان کو شکار کی انٹیلیجنس  فراھم کرتے۔ ایسا کبھی کبھارہی ھوتا کہ کوئی ان کے ہاتھ سے بچ کر نکل جانے میں کامیاب ھوجاتا۔

 ٹھگ پورے کے پورے قافلے بھی قتل کردیتے تھے۔ وہ اس طرح کہ  ٹھگوں کی ٹولی غریب مسافروں کے بھیس میں کسی قافلے  سے درخواست کرتے کہ انہیں رستے میں جان کے ڈر کی وجہ سے قافلے کےساتھ سفر کی اجازت دی جائے ، جو کہ اہل قافلہ (جو کہ اکثر اوقات مسلح ھوتے تھے)  ان کی تھوڑی سی  غیر مسلح تعداد ، اور  بے سروسامانی دیکھ کر دے دیا کرتے تھے۔  اگلے چند دنوں میں یہ اھل قافلہ سے دوستی اور اعتماد کا رشتہ قائم کر لیتے۔ اس دوران  ٹھگوں کی دوسری ٹولیاں ،آہستہ آہستہ اسی طریقے سے قافلے میں ھوتی رھتیں، حتٰی کہ اصل اہل قافلہ کے مقابلے ٹھگوں کی تعداد زیادہ ھو جاتی۔ ایسا ھونے کے بعدھر مسافر کے ساتھ ایک یا زیادہ ٹھگ نتھی ھو کر حملے کے سگنل کا انتظا ر کرتے۔ حملے کا سگنل عموماً "تمباکو لے آؤ" کا نعرہ ھوتا، جس کے سنتے  ہی ٹھگ اپنے شکاروں کے گلوں میں رومال کس کراتنی مہارت سے ان  کا دم نکال دیتے کہ مسافر کو لڑنے یا فرار کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس کے بعد  مقتولیں کو  طے شدہ مقامات پرپہلے سے کھدی ھوئی قبروں میں یا پھر قافلے والوں کے خیموں کے نیچے ہی قبریں کھود کر  دفن کر دیا جاتا۔

 ایک اور طریقہ واردات میں، قافلے کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ایک ٹھگ شدید بیماری کی اداکاری شروع کر دیتا، جس کا دوسرے ٹھگ کئی طریقوں سے ناکام علاج کرنے کی  کوشش کرتے۔ آخر کار، اھل قافلہ کو یہ باور کروا کر ایک پانی کے پیالے کے گرد گلے ننگے کروا کر بٹھا دیتے  کہ اب ایک خاص جادو سے اس کا علاج کیا جائے گا۔ اس کے بعد  سب کو آسمان کیطرف  منہ کر کے تارے گننے پر لگا دیا جاتا، اور پھر اچانک رومال پھینکے جاتے اور۔۔۔۔۔۔

ٹھگوں کے پاس اس طرح کے ان گنت داؤ تھے جنہیں وہ اپنے شکار کے مطابق استعمال کرتے۔ لیکن ان سب داؤ میں ایک ہی چیز  استعمال ہوتی تھی۔۔۔ٹھگ کا رومال جس کے دونوں کونوں میں انہوں نے گرھیں دی ہوتیں۔

 ان کے بارے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ سال کے زیادہ تر حصہ میں ٹھگ عام لوگوں کی طرح اپنے علاقہ میں معزز اور ذمہ دار شہری  بن کر رہتے، جبکہ "سالانہ چھٹیوں " میں اپنے علاقے سے دور جا کر، اجنبی مسافروں کو اپنی نرم گفتاری اور چالاکی سے لبھا کر، ان کی عمر،جنس،  رنگ، نسل، کردار،  دیکھے بغیر سفاکی سے قتل کردیتے اور پھر دوبارہ اپنے علاقے میں واپس جا کر عام آدمی کی زندگی گزارنا شروع کر دیتے۔

ٹھگوں کے جرائم عرصہ دراز تک منظر عام پر نہ آتے کیونکہ یہ عمومی طور سے جرم کے کسی گواہ کو زندہ نہ چھوڑتے۔ مزید یہ کہ اس زمانے میں جو شخص کلکتہ سے  دھلی تک جاتا تھا اس کو پہنچتے پہنچتے کئی ماہ لگ جاتے، جس کی وجہ سے رستے میں ھوئی کسی بھی واردات کا پتہ مہینوں بعد لگتا جب کافی دیر ھو جانے کے بعد اس شخص کی ڈھنڈیا مچتی اور پورے قافلے کے غائب ھونے کا پتہ چلتا۔ اس وقت تک ٹھگ کوئی بھی ثبوت چھوڑے بغیر واپس اپنی عام زندگی کی طرف لوٹ گئے ھوتے۔

اس تمام پر اسرار زندگی اور حتٰی الامکان رازداری کے باوجود، عجیب بات یہ ھے کہ چند انگریز افسروں کی تدبیر سے ہزاروں ٹھگوں پر مشتمل ان منظم گروہوں کا  چند سال کے اندر قلع قمع ھو گیا۔

کیسے؟ اس کی تفصیل پھر سہی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں