ٹھگ مسلمان، ھندو یا کسی بھی مذہب سے ھو سکتے تھے، لیکن
ضعیف الاعتقادی کے سبب یہ سب بھوانی نام کی ایک دیوی کی بھی پوجا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بھوانی ٹھگوں کی پرسنل دیوی
ھے جو ان کو شکار کی نشاندھی کرتی ھے اور ان کا جرم چھپانے میں مدد کرتی ھے۔
ان کا عقیدہ تھا کہ ابتداء میں بھوانی قتل کے بعد لاش کو اس
شرط پر خود ہی ٹھکانے لگاتی تھی کہ قتل کے بعد ٹھگ پیچھے دیکھے بغیر جائے واردات
سے دور چلےجائیں گے۔ لیکن جیسا کہ ایسے ھر قصے میں ھوتا ھے کہ ایک آدھ چوّل آدمی
ھر جگہ موجود ھوتا ھے جس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا ھوتا ھے۔ سو ٹھگوں کے ایک بزرگ نے
بھی واردات کے بعد پیچھے مڑ کر بھوانی کو لاش ٹھکانے لگاتے دیکھ لیا۔ اس کے بعد
بھوانی نے غصہ میں آکر لاشوں کی ڈسپوزل واپس ٹھگوں کو آؤٹ سورس کر دی۔ ٹھگوں کے
منّت ترلوں کے بعدکہ ہاتھوں سے کدھر قبریں کھودتے پھریں گے، آخر بھوانی نے ان کو
اپنا ایک نوکیلا دانت دیا تاکہ سند رھے۔
یہ دانت اصل میں پنجاب کی کئی (کسّی یا کدال) تھی۔ جس کو ٹھگ مردے کے کفن
دفن کے لیے استعمال کرتے اور استعمال کے بعد اس کا دستہ پھینک کر آہنی کسّی سب سے
سیانے ٹھگ کی دھوتی کی ڈب (بیلٹ) میں چھپا/ٹانگ لیتے تاکہ عوام مشکوک نہ ھو۔ رات
کے ٹائم کسّی کو زمین میں دبا دیتے۔ اگر
صبح کو کسّی کی نوک کی سمت بدلی ھوتی تو اپنے موجودہ شکار کو ٹھگنے کا ارادہ ترک
کر کے نوک کی سمت میں نئے شکار کی تلاش میں دوڑ پڑتے۔
ٹھگوں میں داستانیں مشہور
تھیں کہ دفنانے کا طریقہ اختیار کرنے سے قبل کسّی کو رات کو کسی کنویں میں ڈال دیا
جاتا، جہاں سے وہ صبح کو واپس کسی سیانے ٹھگ کے پاس اڑتی ھوئی آجاتی۔بعضے ٹھگوں نے
تو قسمیں کھا کر سر سلی مین کو بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ھے کہ کئی
ٹولیوں کی کسّیاں بیک وقت فضا میں تیرتے ھوئے
کنویں سے باھر آکر اپنے اپنے سیانے ٹھگ کے ھاتھوں میں آکر ٹہر گئیں۔
خیر اس قسم کی داستانیں تو برصغیر میں ھر بندے کے ساتھ ہوتی
رھتی ھیں۔
لیکن یہاں ذیل کا مکالمہ نقل کرنے کا مقصد ٹھگ کمیونٹی کی
اس زمانے کی ذھنی حالت کی عکاسی کے ساتھ
ساتھ، آج کے برصغیر کی عوام کے ذھنی ارتقاء کی طرف بھی توجہ دلانا ھے:
ذیل میں سر سلی مین کی ٹھگوں کے ایک پکڑے گئے گروہ سے کئے گئے حقیقی سوال جواب ھیں، جن کو سلی مین نے
سلطانی گواہ بنا لیا تھا تاکہ وہ ٹھگ کمیونٹی سے باآسانی غداری کر سکیں:
"سلی مین: تو تمہیں پکّا یقین ھے کہ بھوانی تم لوگوں
کو شکار اور خطرے کی نشاندھی کرتی ھے۔؟
ناصر ٹھگ: کیا کوئی بھی اس بات پر شک کر سکتا ھے؟ کیا
بھوانی ھمارے باپ دادوں کے زمانے میں لاشوں کو ٹھکانے نہیں لگاتی تھی ؟؟؟۔ وہ تو
ھماری کاروائی کا سراغ تک مٹا دیتی تھی!!!
سلی مین: تم نے یہ اپنے باپ سے سنا ھے ، جس نے اپنے باپ سے
، لیکن تم میں سے کسی نے بھی ایسا ھوتے نہیں دیکھا۔ اور نہ ھی یہ سچ ھے۔
ناصر ٹھگ: نہیں ۔یہ بالکل سچ ھے!!!!!!!ٹھیک ھے ھم نے یہ
ھوتے نہیں دیکھا لیکن ھم نے مقدس کسّی کو تو راتوں رات کنویں سے باھر آ کر سب سے
سیانے ٹھگ کے پاس آتے تو دیکھاھے۔ بلکہ ھم نے تو مختلف ٹولیوں کی کسّیوں کو ان کے
مالکوں کے پاس ایک ھی کنویں سے باھر آتے
دیکھا ھے۔!!!
سلی مین: ہاں بالکل! تم نے تو وہ شعبدہ باز بھی دیکھے ھوئے
ھیں جو ہاتھ کی صفائی سے کبوتر کو سانپ اور سانپ کو خرگوش بنا دیتے ھیں ۔لیکن سب
جانتے ھیں کہ وہ ایسا محض اپنے ہنر سے کسی غیبی مدد کے بغیر کرتے ہیں۔ تمہارا
سیانا ٹھگ جو کسّی بردار ھوتا ھے ، یقیناً ھاتھ کی صفائی کا ماھر ھونے کی وجہ سے
کسی بردار تعینات کیا جاتا ھے۔ اور کوئی شک نہیں کہ وہ ہاتھ کی صفائی کا اتنا
زبردست ماھر ھو کہ تم لوگوں کو یہی نظر آتا ھو کہ کسّی خودبخود باھر آ رھی ھے۔
ناصر ٹھگ: ہرگز نہیں!!! ٹھگ اچھی طرح پہچانتے ھیں کہ ھاتھ
کی صفائی اور غیبی معجزے میں کیا فرق ھے۔ ایک صرف ھشیاری ھے ، جبکہ دوسرا سینکڑوں
لوگوں کی موجودگی میں ھوا معجزہ۔
سلی مین (دوسرے ٹھگ سے): صاحب خان۔ تم ناصر سے زیادہ عقلمند
ھو۔ تم نے کبھی ایسا ھوتے دیکھا ھے۔؟
صاحب خان: صرف ایک دفعہ، جب کسّیاں امام خان اور اس کے
بھائی کے پاس تھیں۔ اور رات کو کنویں میں پھینکنے کے باوجود، صبح کو خودبخود آکر دونوں
کی جھولیں میں آ گریں۔
سلی مین:جس کا مطلب ھے کہ تم نے اپنی ٹولی میں ایسا ھوتے
کبھی نہیں دیکھا۔؟
صاحب خان: نہیں ۔ اکیس سال میں ایک دفعہ بھی نہیں۔
سلی مین: تو پھر تم ناصر کی بات کی کیا توجیح بیان کرتے ھو؟
صاحب خان: یہ لوگ غیبی اشاروں اور قوانین کو ھم سے زیادہ
مانتے ھیں ۔ھمارے گروہ میں صرف ایک ایسا اصول ھے اور وہ یہ کہ ھم عورت کو نہیں
مارتے۔لیکن اگر کوئی بوڑھی امیر عورت مل
جائے تو بعض اوقات ھم کسی ایک شخص کو
زیادہ حصہ دے کر اس کو قتل کا گناہ اپنے سر لینے کو کہتے ھیں۔ اس کے علاوہ کبھی
کبھار ھم دوسرے ممنوع کام بھی کر جاتے ھیں مثلاً نچلی ذات کے لوگوں کا قتل۔
سلی مین: تمہارا نبی تمہیں پیسے کے عوض یہ کام کرنے کی
اجازت دیتا ھے؟ کیا وہ یہ نہیں کہتا کہ ایسے کام کرنے کا صلہ اگلے جہان میں عذاب
ھے؟ پھر تمہیں آخرت کی سزا کا خوف کیوں نہیں آتا؟؟؟؟
صاحب خان: ھم دیوی کی طرف سے غیبی اشارے کے بغیر کوئی قتل
نہیں کرتے۔
سلی مین: کونسی دیوی؟
صاحب خان: بھوانی دیوی! ھم سمجھتے ھیں کہ وہ اِس دنیا میں
ھماری قسمت کی مالک ھے۔ اور ھم جو کچھ اس دنیا میں بھوانی کے حکم سے کرتے ھیں ، اس
کی سزا خدا ھمیں آخرت میں نہیں دے گا۔
سلی مین: اور تمہارا یہ عقیدہ ھے کہ اگر تم میں سے کوئی کسی
غیبی اشارے یا طے شدہ قوانین کے خلاف قتل کرے گا تواس کو دنیا اور آخرت دونوں میں
سزا ملے گی؟
صاحب خان: بالکل۔ جو ٹھگ ایسا کرے گا اس کے بچے مر جائیں گے
اور وہ پھر باپ نہیں بن سکے گا۔
سلی مین: اور اگر ٹھگ ٹھگ کو مار دے؟
صاحب خان: وہ بھی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
سلی مین: تو یعنی اگر تم ٹھگ ، غیبی اشارے اور قوانین کے
تحت قتل کرو گے تو تمہیں دنیا آخرت میں کوئی سزا کا خوف نہیں؟
صاحب خان: بالکل نہیں۔
سلی مین: اور تم لوگوں کو شکار قتل کرتے ھوئے ترس بھی نہیں
آتا؟
صاحب خان: بالکل نہیں۔
سلی مین: تمہاری بیویاں تمہیں اس سب پر ملامت نہیں کرتیں؟
صاحب خان: جنوب کے لوگ اپنی بیویوں کو راز افشا ھونے کے ڈر
سے ٹھگی کی زندگی کا نہیں بتاتے۔ جو دوسرے ٹھگ بتا دیتے ھیں ، ان کی بیویاں حالات
کے ساتھ سمجھوتا کر لیتی ھیں۔
سلی مین: یہ سب جاننے کے باوجود وہ وفادار، اور تابعدار
رھتی ھیں؟
صاحب خان: بالکل۔ ٹھگوں کی بیویوں کی تابعداری ضرب المثل
ھے!
سلی مین: اور اس تابعداری میں یقیناً رومال کا بھی عمل دخل
ھے؟
صاحب خان: شائد۔ لیکن ھم میں بے وفائی کی وجہ سے عورتوں کے
قتل کے واقعات بہت کم ھوئےھیں۔
یہ سارا کچھ آپ نے اپنے آس پاس پہلے بھی سن رکھا ھوگا۔ بس ذرا
مختلف روپ میں۔ ھیں جی؟
میری بھی پچھلے کئی پشت ہندوستان میں رہتی ہیں اور سب ہی پکے مسلان تھے ۔یہ بات تو میں نے کبھی کسی سے بھی نہیں سنی ،حیرت ہے ۔
جواب دیںحذف کریں