ورکشاپ میں گاڑی دے کر دفتر آنے کے لیے میٹرو پر چڑھا۔
میرے روبرو سامنے کی سیٹ پر ایک خاتون کتاب پڑھ رہی تھیں۔
عنوان تھا ۔۔
"اجنبیوں کے ساتھ گفتگو کس طرح شروع کی جائے؟"۔
ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ۔ ۔ ۔
ہم دونوں ایک دوسرے
سے بات کیے بغیر آخری سٹیشن پر اُتر گئے۔
خوب اچھا ہے :)
جواب دیںحذف کریںالمیہ نہیں ایک حساب دان کی دور ایندیشی ھے
جواب دیںحذف کریںآج کل ہر کوئی یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے، لیکن ایک دو باتوں کے بعد ہم خود جان چھڑوانا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں دھکیلنے میں فون، بلکہ سمارٹ فون کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔
جواب دیںحذف کریںدرست کہا.....
حذف کریںبہت خوب
جواب دیںحذف کریںمجھے یاد نہیں آرہا کہ میں نے اس پیرا گراف کو کہاں پڑھا ۔۔۔ شاید کسی انگریزی رسالے میں یا شاید انگلش سے اردو ترجمہ کی ہوئی کی ہوئی کسی حکایات میں
اگر آپ بتا سکیں کہ اس تحریر کا اصلی ماخذ کیا ہے تو میری الجھن دور ہو جائے گی
بھی واہ : اسی کو تو کہتے ہیں" کم خرچ بالا نشیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی انتہائی کم الفاظ میں ذائقےدار پوسٹ ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںواہ بھئی، بہت خوب۔ پڑھ کر مزا آیا
جواب دیںحذف کریں