17 جولائی، 2014

میں مجبور ھوں

ان  سے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے  شناسائی ہوئی۔  
نیک  طبع۔ نیک اطوار۔ طبعیت میں شرم ۔ صوم و صلوۃ کے پابند۔ چہرے پر سُنت نبوی۔ ہونٹوں پر تبسم ۔ ماتھے پر نور۔ دھیمی آواز۔ ادب سے دلچسپی ۔ وسیع دینی علم  ۔  
دوستی ہو گئی۔

ایک دفعہ  اپنی  جان سے پیارے بیٹے کے آپریشن  کا بتا کرایک  ماہ کے لیےایک بڑی رقم ادھار لے گئے۔
چھ ماہ گزر گئے لیکن رقم واپس کرنے کاارادہ  نہیں کیا۔   تنگ آ کرتقاضا کیا تو   ایک سال کے بعد آدھی رقم واپس کردی۔
اس کے بعد سال پر سال گزرتا گیا۔  ملاقات سے کترانے لگے۔ ہر سال گزرنے پر  ان کو خصوصی فون کر کے سالگرہ کی مبارکباد دیتا رہا۔ وہ شرمیلی سی ہنسی ہنس کر کہتے رہے کہ کچھ کرتا ہوں۔ (اور کبھی کچھ نہ کیا)۔ پھر ایک دن مشترکہ دوست  سے معلوم ہوا  کہ جناب اپنے سات  اہل و عیال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کر کے ابدی نروان حاصل کرنے پہنچے ہوئے ہیں۔
اس دن معلوم ہوا کہ سر پر ہتھوڑا پڑے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہت دیر تک سُن رہتی ہے۔
 میں تمام عمر  غلط سمجھتا رہا کہ قرض کی ادائیگی عمرے کی ادائیگی سے زیادہ ضروری ہے۔
دو ماہ کی آنکھ مچولی کے  بعد،  گناہ بخشوائی کے سفر سے واپسی پر میں نے مبارکباد  دینے کے لیے اچانک " زبردستی " ملاقات کی۔ بوڑھے بیمار شخص کی مانندکمزور سے لہجے میں بات کرنے لگے۔میں نے عمرے کی مبارکباد دی تو حیرانی سے پوچھنے لگے کہ  کس نے بتایا؟۔ معلوم ہونے پر آواز میں بشاشیت و بے شرمی  آگئی۔دانت نکال کر کہنے لگے ہم تو جی غریب آدمی ہیں، اللہ اور اس کے حبیب کا بڑا کرم ہے کہ انہوں نے  اپنے گھر بلالیا۔  قرض کا پوچھا تو کہنے لگے دے دوں گا۔ کہیں بھاگ تھوڑی رہا ہوں۔ بندہ کسی پر اعتبار  ہی کرلیتا ہے۔تنخواہ آتے ہی  سب سے پہلے آپ کا قرض اتاروں گا۔ ابھی  میں مجبور ہوں۔
ابھی میں مجبور ہوں۔ ۔ ۔ !!!
 
چار پانچ سال کی دن رات ملاقاتوں کے بعد مولانا بولے۔
ماں نہیں مانتی۔
میں مجبور ہوں۔۔۔!!!
صدمے سے بہت  دیر چپ رہنے کے بعد خاتون لرزتی ہوئی آواز سے بولی۔
 مولانا،  زندگی میں مجبوری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
 صرف اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ !
صرف اپنی اپنی  ترجیہات ہوتی ہیں۔ ۔ !!

1 تبصرہ:

  1. ہا ہا ہا۔۔۔

    آپ نے کچھ دن پہلے کچھ پوچھا تھا مجھ سے ایک حضرت بارے۔۔۔ بس اپنی اس پوسٹ کو میرا جواب سمجھ لیجیے۔۔۔ :ڈ

    جواب دیںحذف کریں