17 جنوری، 2013

سُومنات


انیس سو ستر سے لے کر نوّے کے عشرے تک وہ دور تھا کہ ہرمتوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے  ماں باپ کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجنینئر بنانے کا شوق ہوتا تھا۔ پیدا ھوتے ہی خواب دیکھ لیےجاتے کہ ڈاکٹری کی طرف لے جانا ھے یا انجنینئرنگ کرانی ھے۔
اس معاشرتی رویے کی کچھ خاص وجوہات تھیں۔ 
ایک تو یہ کہ  ڈاکٹروں، انجینئروں اور مقابلے کے امتحان پاس کرنے والے جیالوں کو معاشرے میں قابل تحسین نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ ابھی ان کی عزت کرتے تھے (بلکہ نکّے ہُندیاں ہی عزّت شروع کر دیتے تھے)۔
خاندانوں کی سب سے خوبصورت لڑکیوں کے رشتے بھی یہی صاحبان گھیر کر لے جاتے تھے۔

دوسرا یہ کہ انیس سو ستر کے بعد سے جب بھوکی ننگی عوام مزدوروں کے بھیس میں گلف  ممالک نکلنا شروع ھوئی تو پاک وطن میں  وی سی آر ،ٹیپ رکارڈروں اور ٹی وی سیٹوں کی فراوانی تو ھوئی ہی ،لوگ راتوں رات اپنےمحنت کش ہمسایوں سے کئی گنا امیر ھو گئے۔ لیکن صرف ایک کمی تھی۔ وہ تھی عزّت۔  جس کا منبع ابھی بھی تعلیم تھا۔ سو  عزّت کے تعاقب میں ان مڈل کلاس نودولتیوں نے اپنی آل اولاد کو کاروبار وغیرہ کروانے کی بجائے  عزّت دار نوکر پیشہ بننے کے خواب دیکھنے پر لگا دیا۔

تیسرا یہ کہ یہ دونوں وہ واحد شعبے تھے جہاں پرحکومتی سبسڈی/گرانٹ کی وجہ سے ماں باپ پر تعلیمی خرچ کا بوجھ بہت کم تھا۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تعلیمی محنت کا پھل  داخلہ ملنے کی صورت میں یقینی تھا۔یہ وہ پیشے تھے جن میں ایک عزّت دار خوشحال مستقبل کی ضمانت تھی۔  ان دنوں اندرون اور بیرون ملک نت نئے پراجیکٹس کی وجہ سے انجنیئر اچھا کما رہے تھے ۔یعنی دبئی یا دمام سے واپسی پر ہر دفعہ انڈین بناکا گیت مالا دیکھنے سننے واسطے رشتہ داروں کو ایک آدھ  وی سی آر یا ٹیپ رکارڈر ایویں گفٹ کر دیتے تھے۔ ابھی وہ دور نہیں آیا تھا جب عوام الناس انجنئیرنگ کر کے ایم بی اے کی طرف یو ٹرن مارنے لگ گئی۔
ڈاکٹروں کے لیے تو خیر اب بھی  پانچوں انگلیاں  گھی میں ھیں، چاہے اپنے ملک میں ڈھابا کھول لیں یا بیرون ملک جاکر ڈالر کمائیں۔
والدین کو ان دو شعبوں کے علاوہ اور کسی شعبے کا علم  تھا بھی نہیں۔

انیس سو چھیانوے سے پہلے  میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ اسباب زوال اُمم میں اقتصاد و معیشت یعنی روکڑے کا کیا ہاتھ ہوتا ھے۔ ویسے بھی اپنے تعلیمی نظام میں اکنامکس اور باقی بے کار کاٹھ کباڑ (یعنی پیسے)  کے متعلق مضامین وہ پڑھتا ہے جو ڈاکٹری یا انجینئرنگ کا میرٹ نہ بنا سکے۔
یہی  وہ مبارک سال تھا جب میرا ایف ایس سی (آنرز) کا رزلٹ  آیا  تھا۔ آنرز اس لیےکہ میرے ڈاکٹر بھائیوں کو پتا نہیں کیوں میرے اندر ڈاکٹر چھپا نظر آتا تھا۔ اسی لیے پہلی دفعہ میڈیکل کالج کا میرٹ سوا سو نمبر سے مِس کرنے کے باوجود مجھےدوبارہ ایف ایس سی پکّی کرنے پر بٹھایا گیا۔ اگلی دفعہ میرٹ سترہ نمبر سے مِس ھو گیا۔بھائیوں کا اصرار تھا کہ ایک دفعہ اور۔ لیکن اس دفعہ سومنات کے بت کو دور سے ہی پرنام کر کے لعنت بھیجی۔
  آخر یہ بھی کوئی کام ہے جس میں  بندہ کئی حملوں کے بعد سومنات کو فتح کرے اور باقی  تعلیمی زندگی اپنے ہم جماعت لڑکے لڑکیوں کا چاچا بن کر گزارے۔ ھیں جی؟
لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ آگے ایک اور سومنات کا سامنا ھے۔ جس کی آس میں پہلے ہی کئی چاچوں کا جمگھٹا  دار کی خشک ٹہنی پر واری واری جا رہا ہے۔ 
یہ ذلت بیتی پھر سہی۔


2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ۔۔۔۔

    میرے والدین بھی مجھے انجینئیر بنانے کی خواہش کرتے رہے۔۔۔ لیکن میری کرتوتیں دیکھ کر مجھے آزاد چھوڑ دیا۔۔۔ کہ میں کبھی انجینئیر نہیں بن سکتا۔۔۔ پھر ایم بی اے فنانس کیا اور نوکری بلکل مختلف آئل اینڈ گیس میں کر رہا ہوں۔۔۔ اپنے آپ کو عزت دار محسوس تو کرتا ہوں۔۔۔ باقی اللہ جانے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. رضوان خان آفریدی16 جولائی، 2013 کو 7:21 PM

    یہ غالبا پہلا حصہ تھا دوسرے حصے کا انتظار ہے۔۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں