میں اگلے ہی دن مولانا مودودی کے پاس پہنچ گیا۔ ایک عرصہ
گزر جانے کے باوجود وہ مجھے بھولے نہیں تھے ، اس سے پہلے کہ وہ ایک روپے کا سکہ نکالنے
کے لئے تکیے کے نیچے ہاتھ گھماتے،، میں نے مدعا بیان کر دیا۔ "مولانا، ایک آرٹسٹ ہیں
عنایت حسین بھٹی، بہت اچھے اور مشہور گلوکار بھی ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں"۔۔۔ بستر
پر لیٹے ہوئے مولانا نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ میں اپنا کان ان کے قریب کروں۔۔"رات
کو لائیے گا" ۔۔۔"رات کو کیوں مولانا؟؟" ۔۔۔’’دن میں لائے تو لوگ کہیں
گے کہ اب مولانا سے ملنے کنجر بھی آتے ہیں؟؟؟‘‘
7 نومبر، 2013
6 نومبر، 2013
آگہی
موری ارج سُنو دست گیر پیر
مائی ری، کہوں کاسے میں
اپنے جیا کی پیر
نیّا باندھو رے،
باندھو رے کنارِ دریا
مورے مندر اب کیوں نہیں آئے
اس صورت سے
عرض سناتے
درد بتاتے
نیّا کھیتے
مِنّت کرتے
رستہ تکتے
کتنی صدیاں بیت گئی ہیں
اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے
جس کو تم نے عرض گزاری
جو تھا ہاتھ پکڑنے والا
جس جا لاگی ناؤ تمھاری
جس سے دُکھ کا دارُو مانگا
تورے مندر میں جو نہیں آیا
وہ تو تُمھیں تھے
وہ تو تُمھیں تھے
فیض احمد فیض۔ نذرِ خُسرو
29 اکتوبر، 2013
آئی ایم جاہل
میں جب بھی کسی خُشکے کی تجربہ کار ٹھگوں کے ہاتھوں جیب کٹتے اور دُرگت
بنتے دیکھتا ہوں۔ بہت افسوس ہوتا ہے۔
Labels:
آئی ایم ملالہ,
پاکستان,
پاکستانی کالم,
سلمان رُشدی,
قادیانی,
کتاب کہانی,
مشاہدہ,
ملالہ,
ہود بھائی
23 اکتوبر، 2013
24 ستمبر، 2013
کچھ گندی باتیں
کل عمران اقبال اور علی حسّان کے ساتھ ملاقات ھوئی۔
گپ شپ کے دوران عمران نے
ایک بہت اہم نکتہ اٹھایا کہ بلاگر دنیا جہان کے موضوعات پر لکھتے ھیں، لیکن
حال ہی میں ایک چار پانچ سالہ بچی سے ھونے والی جنسی زیادتی پر کسی نے بھی نہیں
لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
22 ستمبر، 2013
بابے
پاکستان میں تخلیق کیا گیا نثری ادب اٹھا کر پڑھیں تو آپ کو
چند بہت ہی نمایاں نام نظر آئیں گے۔
مشتاق یوسفی۔
مستنصر حسین تارڑ۔شفیق الرحمٰن۔
ابن انشاء۔انتظار
حسین۔احمد ندیم قاسمی۔
وغیرہ وغیرہ۔
لیکن میری رائے میں چار ادیب ایسے ہیں جنہوں نے دھڑلے سے لوگوں کے دلوں پر راج کیا ہے۔
ممتاز مفتی۔ بانو قدسیہ۔ اشفاق احمد۔ قدرت اللہ شہاب۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)