21 جنوری، 2013

سٹاک مارکیٹ - فرسٹ بلڈ


پیسہ پیسے کو کھینچتا ھے۔  
پیسے میں مقناطیسیت ھے۔   
سٹاک مارکیٹ میں جسکے پاس بڑا مقناطیس ھوتا ھے، وہ  باقی لوگوں کے سارے چھوٹے  چھوٹے مقناطیسوں کو کھینچ کر لے جاتا ھے۔

17 جنوری، 2013

سُومنات


انیس سو ستر سے لے کر نوّے کے عشرے تک وہ دور تھا کہ ہرمتوسط یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے  ماں باپ کو اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجنینئر بنانے کا شوق ہوتا تھا۔ پیدا ھوتے ہی خواب دیکھ لیےجاتے کہ ڈاکٹری کی طرف لے جانا ھے یا انجنینئرنگ کرانی ھے۔
اس معاشرتی رویے کی کچھ خاص وجوہات تھیں۔ 
ایک تو یہ کہ  ڈاکٹروں، انجینئروں اور مقابلے کے امتحان پاس کرنے والے جیالوں کو معاشرے میں قابل تحسین نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ ابھی ان کی عزت کرتے تھے (بلکہ نکّے ہُندیاں ہی عزّت شروع کر دیتے تھے)۔
خاندانوں کی سب سے خوبصورت لڑکیوں کے رشتے بھی یہی صاحبان گھیر کر لے جاتے تھے۔

5 جنوری، 2013

پُونڈی نامہ


سین نمبر ایک: سن دوھزار تین۔ موسٰی پاک ٹرین


شادا :  
چودھری! ٹرین آوے تو ایویں کسی بوگی میں نہیں چڑھنا۔۔۔میرے پیچھے پیچھے آتا رھیں۔ بوگی مَیں سلیکٹ کروں گا۔۔۔
آھاھاھا ، ھائے اوئے چودھری، قسمے سواد آگیا، اج تے ٹرین وچ بہت پُونڈی اے۔۔۔
کہا تھا ناکہ ایسی بوگی میں بٹھاؤں گا کہ جنت کی حوریں بھول جائے گا۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
خبردار جوکسی خالی سیٹ پر بیٹھا۔ بوگی کے درمیان میں کھڑے ھو کر جائیں گے۔ بیٹھنے سے پُونڈی کا اینگل خراب ھوتا ھے۔ ۔۔
آھاھا ھا! چودھری۔۔! وہ سبز چادر والا پیس چیک کر ۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
لوگ  گھور رھے ھیں تو گھورنے دے، یہ سارےخود پُونڈ ھیں، سڑنے دے ان بے غیرتوں  کو۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
استاد! چیک کر۔ بچّی لفٹ کروا  رہی ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
اگلے سٹیشن سے اور بھی رش بڑھے گا بوگی میں۔۔۔ خیال رکھیں کہ ھم نے اپنی جگہ نہیں چھوڑنی۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔
چودھری، پینسل ھے؟ فون نمبر پکڑانا ھے۔۔۔ہی ہی ہی۔۔۔ ۔۔۔
یہ ان  بے غیرت لڑکوں کو اور کوئی جگہ نہیں ملی ؟ادھر ھمارے ساتھ کھڑے ھو گئے کمینے ! ۔۔۔ 
یار  کُڑی ان کی وجہ سے اب اِدھر نہیں دیکھ رھی۔۔۔کمینے لوگ۔۔۔
او بھائی جان ، ذرا ھٹ کر اُدھر کھڑے ھوں، ھماری جگہ پر مت آئیں۔۔۔
کمینے لوگ، سارا کام خراب کر رھے ھیں۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
یار یہ کڑی تو اب ان کو لفٹ کروانے لگ گئی ھے۔۔۔
کمینے لوگ۔۔۔
اوبھائی صاب، صاف صاف بتا رھا ھوں، یہ شوہدی حرکتیں یہاں نہیں چلیں گی۔ ۔۔۔
بندہ بن اوئے!! ماں بہن نہیں ھے تیرے گھر ؟۔ چڑھ جاتے ھو جینزیں کَس کے ٹرینوں پر۔ چلو دفعہ ھو جاو یہاں سے، ورنہ ٹانگیں توڑ دیں گے تمہاری، لڑکیاں تاڑتے ھیں بے غیرت لوگ!!۔۔۔
بالکل چاچا جی، ایہناں کمینے لوگاں دے نال ایہو ای کرنا چاھیدا اے، بے شرم لوگ، حیا نئیں آندی ایہناں نوں۔۔۔
۔۔۔۔ہی ہی ہی ۔۔۔۔ھائے اوئے!! 
اوکاڑے سے چڑھنے والا پیس چیک کر چودھری !!!!۔
۔۔ہی ہی ہی۔۔۔۔


ــــــــــــــــــــــ

سین نمبر دو: سن دو ھزار سات۔ میونسپل سٹیڈیم


شادا:
خیر مبارک ۔۔۔۔بس یار ابھی صبح آیا ھوں لاھور سسرال سے ۔۔۔۔ 
میں اور میری بیگم اکیلے ھی آئے ھیں ٹرین میں ۔۔۔۔
کیا بتاؤں ،موڈ سخت خراب ھے یار۔۔
نہیں وہ والی بات نہیں  ۔۔۔
بس چودھری کیا بتاؤں۔لوگوں میں شرم حیا نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہ گئی۔
ٹرین میں سارے بے غیرت شوہدے لوگ میری بیوی کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگ گئے۔۔۔
چودھری میرا دل کر رھا تھا کہ ان کی آنکھیں نکال دوں، بے غیرت بے شرم لوگ۔۔۔
میں نے تو بیوی کو کہ دیا ھے خبردار جو یہ فیشن ایبل بننے کی کوشش کی۔ بلکہ  آئندہ اگر منہ ڈھکے بغیر گھر سے باہر نکلی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔۔۔