6 مارچ، 2013

حمزہ کا سکول


شوئیفات سکول نے ھمارے ساتھ عجیب دھوکہ کیا۔

شوئیفات یہاں دبئی میں کافی اچھا سکول مانا جاتا ھے کہ یہ ھوم ورک بھی کلاس میں ہی کرواتے ھیں اور ھر مہینے بار بار ٹیسٹ لیتے ھیں۔ ان کے اکثر بچے اچھی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے میں کامیاب ھو جاتے ھیں۔ ۔ پچھلے سال اس کی برانچ نے ڈی آئی پی میں کام شروع کیا تو حسن کو اس میں داخل کروا دیا کہ پچھلے سکول نے فیسیں  میرے بجٹ سے زیادہ بڑھا دی تھیں۔  (ویسے پچھلا سکول بھی بہت اچھا تھا۔ حسن نے دوسرے سال یعنی کے جی ٹو میں انگریزی کتابیں خود سے پڑھنا شروع کر دی تھیں)۔ 


اب اس سال جب حمزہ کو داخل کروانے کی باری آئی تو پتہ لگا کہ شوئفات دبئی گورنمنٹ کی منظوری نہ ھوتے بھی فیسیں بڑھا رھا ھے۔  پتہ کیا تو معلوم ھوا کہ شوئفات نے پچھلے سال نئی برانچ ھونے کی وجہ سے خاموش ڈسکاؤنٹ دیا تھا۔ جس کا علم دریاؤ  والدین سے مخفی رکھا گیا۔ 

اسی لیے اب واپس پچھلے سکول کی منت ترلا کیا کہ ڈسکاؤنٹ دو تو دونوں بچے واپس لاتا ھوں ۔ یعنی سکول کے لیے ایکسٹرا روکڑے کا لالچ۔ شوئیفات جیسے مشہور سکول کے کھلنے کی وجہ سے یہ سکول خالی ھو گیا تھا، اس لیے ڈسکاونٹ مل ہی گیا ۔ لیکن اب اور عجیب مسئلہ شروع ھو گیا ھے ۔سکول والے فرمانے لگے کہ انٹرویو کے بعد داخلہ کنفرم کریں گے۔ (اتنےچھوٹے بچوں کے انٹرویو لینے کا کیا جواز ھے؟)  کل انٹرویو کروایا تو حسن تو کلیئر ھو گیا لیکن حمزہ کے بارے کہ رھے ھیں کہ ایک نفسیاتی بیماری اے ڈی ایچ ڈی کا شکار لگتا ھے کیونکہ اوور ایکٹو ھے اور بات نہیں مانتا۔ ٹیبلوں پر چھلانگیں مارتا پھرتا ھے۔ اگر اس کو داخلہ دیا تو باقی بچے نہیں پڑھیں گے۔ اس کے لیے ایک شیڈو ٹیچر رکھنا پڑے گی جو  اس کے پیچھے پیچھے رھے، جس کی تنخواہ بھی میں ہی دوں گا۔ (میری بیگم کہنے لگی کہ اس حساب سے تمہارے سکول کے سارے بچے اس بیماری کا شکار ھیں۔ چونکہ پرنسپل کو پنجابی نہیں آتی تھی، اس لیے اسے سمجھ نہیں آئی)۔ 

بڑی ھی عجیب صورتحال ھے۔ میرا عربی کولیگ کہ رھا ھے کہ ھو سکتا ھے کہ سکول والوں کو پاکستانی بچے رکھنے سے جھجک آتی ھو۔ میرا نہیں خیال کہ سکولوں والے اس طرح کی نسل پرستانہ حرام زدگی کرتے ھوں ، لیکن بعید بھی نہیں۔ پچھلے سال اسی عربی کولیگ کے بچے کو اس سکول میں بہت آرام سے داخلہ مل گیا جہاں میرا ایک پاکستانی دوست اس سے چھ مہینے پہلے رجسٹریشن کروا کر آیا تھا۔ 

دبئی میں سکول ڈھونڈنا اور سستا سکول ڈھونڈنا بہت مشکل کام ھے کہ انار کم ھیں اور بیمار زیادہ۔  

سرکاری سکول صرف لوکل عربیوں کے لیے ھیں اور باقی تمام لوگ یہاں پر بزنس مینوں کے بنائے سکولوں کے ہتھے چڑھے ھوئے ھیں۔ اندازہ کریں کہ اس ملک کے امیر ترین لوگوں میں سے نمبر تین پر ایک انڈین ھے جو 1970 تک ایک معمولی سکول چلا رہا تھا، لیکن اب جیمز نام کی سکولوں کی پوری چین کا مالک ہے۔ 

  جب پہلی دفعہ چار سال پہلے دبئی آ رھا تھا تو فلائٹ پر ساتھ بیٹھے دو لوگوں کی گفتگو سنی ۔ ایک صاحب فرما رھے تھے کہ میری بچی ابھی چھ ماہ کی ھے لیکن میں نے ابھی سے ھی اس کی سکول میں رجسٹریشن کروا دی ھے۔ دوسرے صاحب نے بھی اسی قسم کی سٹوری بتائی۔ اس وقت تو بہت عجیب لگا اور ان دونوں صاحبان کے لیے جیک ایس قسم کے خطابات دل میں آئے لیکن جب خود سکول ڈھونڈنے کی باری آئی تو ان صاحب  کی بات بہت شدت سے بار بار یاد آتی رھی۔ ایک سال پہلے اچھے اور سستے سکول میں رجسٹریشن کروانے کے باوجود داخلہ نہیں ملا۔

انڈین بورڈ سلیبس والے سکول سستے اور سب سے زیادہ تعداد میں ھیں (کہ دبئی میں ستر اسی فیصد لوگ انڈین ھیں) اور شائد داخلہ بھی مل جائے لیکن ظاھر ھے کہ پاکستانی ھونے کی وجہ سے دل  نہیں چاھتا۔ بیگم کا خیال ھے کہ ھندو سکول میرے بچے کو ھندو بنا دیں گے۔

پاکستانی بورڈ سلیبس والے سکول عوامی طور پر تھرڈ کلاس مانے جاتے ھیں، میرے رھائش سے بہت دور بھی ھیں۔ ویسے میں خود ٹاٹوں والے  سکولوں میں رُلنے سے پہلے تین سال پاکستانی ایمبیسی سکول سعودی عرب میں پڑھا ھوں جس کی ریپوٹیشن بہت اچھی تھی۔ اتنی اچھی کہ مجھے پاکستان آ کر کئی سال تک پڑھائی میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ بندہ خود ٹاٹوں اور سکول کی مسجِد کی صفوں پر بیٹھ کر پڑھا ھو تو دل نہیں چاھتا کہ اپنے بچے کو اسی سب کچھ میں سے گزارے۔ میری غیر جذباتی سوچ یہی ھے کہ دیسی سکول بچے کو دنیا کی اصل زندگی یعنی حرام زدگیوں کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے تیار کرتے ھیں۔ لیکن پتہ نہیں کیوں بیکار جذبات آڑے آ جاتے ھیں، اور دل نہیں چاھتا کہ میرا بچہ چند سال کی عمر سے ہی ماں بھین کی گالیاں سیکھ لے، دوسروں کو جنسی مذاق کا نشانہ بنانا شروع کردے یا ان کا نشانہ بنے۔ ٹیوشن نہ پڑھنے یا ٹیوشن کی فیس نہ ھونے کی صورت میں ٹیچروں کے فیورٹ ازم کو بھگتے۔  خیر پاکستانی  سکولوں کے بارے بندہ تعریفوں کے کیا کیا پُل باندھے۔ وہیں سے پڑھ کر یہاں تک پہنچے ھیں ، لیکن پھر بھی۔۔۔ ۔

یوکے، یو ایس سلیبس والے سکولوں میں جو اچھے اور سستے ھیں، وھاں ویٹنگ لسٹ اتنی لمبی ھے کہ باری آنے کا کوئی چانس نہیں ۔اور باقی سکولوں کی فیسیں صرف آصف زرداری دے سکتا ھے یا وہ جن کو کمپنی کی طرف سے ایجوکیشن  الاونس ملتا ھو۔ (جن لوگوں کو گلف میں ملازمت ملے، انہیں چاھئیے کہ تنخواہ کی بات چیت کرتے وقت ایمپلائر سے ایجوکیشن الاونس ضرور مانگیں، خاص طور پر اگربچوں کو ساتھ لے کر آنا ھو۔ مجھے اندازہ نہیں تھا۔ بیوقوفی ھو گئی)۔ 

شارجہ رہنے میں عار نہیں لیکن  گھنٹوں کے ٹریفک جام میں  گھنٹوں  کی ڈرائیو کا حوصلہ نہیں پاتا  کہ گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی ہو تو میری آنکھیں بڑی شدت سے  بند ہونا شروع ہو جاتی ھیں۔ وھاں بھی سکولوں میں  یہ ویٹنگ لسٹ اور انٹرویو  والی بکواس موجود ھے۔ اوپر سے اگر بس کے پیسے فیس میں شامل کریں تو کُل حساب  دبئی کے سکولوں کے برابر ھو جاتا ھے۔

مناسب سے بجٹ کے اندر ایڈمشن دے سکنے والا سکول ڈھونڈنے کا آتشی دریا پار کرنے کے بعد اب یہ سائیکالوجسٹوں والی کتھا شروع ھو گئی ھے۔کیا کرنا چاھئے۔؟؟؟

4 تبصرے:

  1. بھائی جی رہتے ہیں یا جاب ہے ڈی آئی پی میں؟

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. کام جبل علی، رھائش ڈسکوری، اور سکول ڈی آئی پی۔

      حذف کریں
  2. کافی ٹینشن کہانی مسوس ہوتی ہے ۔۔۔ مجھے یاد ہے میرا ایک دوست سعودی سے انگلینڈ پڑھنے گیا وا تھا ۔۔۔ میں نے پوچا سعودی مین کوئی سکول نی ہے کیا ۔۔۔ ہر جگہ کی اپنی کہانی ہوتی ہے ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. جدید دنیا سرمایہ دار کی ہے ۔ دبئی سُنا ہے نودولتوں کیلئے موزوں ہے

    جواب دیںحذف کریں