7 جون، 2011

جان لینن


جان لینن انگریزوں کے ایک مشہور سنگر گزرے ھیں جنہوں نے ساٹھ کی دھائی میں بیٹلز کے نام سے بینڈ بنایا تھا۔


کفار کے گانے سننے والے اس بینڈ سے ناواقف نہیں کہ فرنگی میوزک کی تاریخ اس بینڈ کے بغیر مکمل نہیں۔ اس  بینڈ کے گانوں نے کمائی کے تمام ریکارڈ توڑ دے تھے۔ ابھی بھی فرنگی دنیا میں ان کے گانے بڑے شوق سے گائے جاتےھیں۔ اور گانوں کی آمدن اسی طرح آ رھی ھے جیسے ستر کے عشرے میں آ رہی تھی۔ اسی لیے مائکل جیکسن نے 1985 میں انویسٹمنٹ کے طور پر بیٹلز کے تمام گانوں کے حقوق 50 ملین ڈالر دے کر خرید لیے۔(بعد میں 1995 میں  مائیکل جیکسن نے آدھے حقوق 90 ملین ڈالر کے عوض سونی کمپنی کو فروخت کیے، یعنی صرف 10 سال میں ساری اصلی سرمایہ کاری واپس آ گئی )۔ آج کی تاریخ میں بیٹلز کے کام کی کل مالیت کا اندازہ ایک سے دو ارب ڈالر کے درمیان ھے۔ (پاکستان کو کیری لوگر بل کے ذریعے ھر سال تقریباً اتنی ھی رقم امداد میں  ملتی ھے)۔

لینن صاحب کا ایک خاصہ لفظوں کا ادل بدل کر کے بات کا مطلب بدل دینا تھا ۔ فلاسفر تو نہیں تھے لیکن ایک جاپانی آرٹسٹ عورت  کے عشق میں پھنس کر پٹڑی سے اتر گئے۔ اس خاتون نے ان سے بیوی بچے ایسے چھڑوائے کہ پھر کبھی ان  سے ملاقات خال خال ہی ھوئی۔ لیکن دوسری طرف انہی خاتون نے لینن کی ذہنی کایا پلٹ دی ۔لینن ان خاتون سے ملنے سے پہلے رومانوی گانے گاتے تھے۔ لیکن بعد میں سب بدل گیا۔انقلابی بن گئے۔ نئی شادی کا ہنی مون ویت نام جنگ کے خلاف بستر میں دھرنا دے کر گزارا۔ لینن کا کہنا تھا کہ جنگ کے خلاف احتجاج کا بہتریں طریقہ بستر میں پڑے رہ کردھرنا ھے۔ پیغام تھا کہ دوسرے ملکوں میں حرام زدگی کرنے کی بجائے بال بڑھاؤ۔اس اچھوتے احتجاج نے تمام دنیا کے پریس کی توجہ حاصل کی  اور صحافی ان کے بستر کے پایوں کے ساتھ لگ کر بیٹھے رھے۔

ان کا ایک گانا "گیو پیس اے چانس" ابھی بھی تمام جنگ مخالف مظاھروں کا سرکاری ترانہ ھے۔

انہی صاحب کا ایک انتہائی عجیب شاعری پر مبنی ایک اور گیت ھے جو کہ انتہائی مقبول ھے۔ جس کا نام ھے

اس گیت کی دھن تو اچھی ھے ہی، لیکن اصل چیز جو متاثر کرتی ھے  وہ شاعری ھے، جس میں حضرت نے فرمایا ھے کہ دنیا میں امن نہ ھونے کی اصل وجہ ذاتی ملکیت پر اصرار اور اپنے عقائد و نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش ھے۔ میں نے یہ گیت جب جب بھی  سنا ھے، میں سوچ میں پڑ گیا ھوں۔ کہتے ھیں کہ اگر دنیا میں کوئی ایسی چیز نہ ھو جس کے پیچھے لوگ کتے کی طرح ایک دوسرے سے لڑیں (مثلاً سرحدیں، مذہب وغیرہ) تو دنیا کافی آرام سے رہ سکتی ھے۔ دیکھنے کو تو اس چیز کے خواب دیکھے جا سکتے ھیں لیکن ۔۔۔۔۔ویسے اگر ایسا ھو جائے تو دنیا میں رھنے کا سارا مقصد فوت ھو جائے گا۔ پھر کسی بھی چیز کو پانے کی جدوجہد کرنے کا سارا مزہ جاتا رھے گاکہ ویسے بھی جب جنگل کے جانوروں کو پنجروں میں بند کر کے خوراک ڈالی جاتی ھے (یا بندہ گورنمنٹ نوکری میں آجاتا ھے) تو جینے کی امنگ اورحصول کی لذت کا ستیاناس ھو جاتا ھے۔ انسان کو دریا کی موجوں میں ھونا چاھئیے کہ کبھی ابھرے  اور کبھی ڈوبے تاکہ حرکت میں رھے۔ 

کیا خیال ھے؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں