21 جنوری، 2013

سٹاک مارکیٹ - فرسٹ بلڈ


پیسہ پیسے کو کھینچتا ھے۔  
پیسے میں مقناطیسیت ھے۔   
سٹاک مارکیٹ میں جسکے پاس بڑا مقناطیس ھوتا ھے، وہ  باقی لوگوں کے سارے چھوٹے  چھوٹے مقناطیسوں کو کھینچ کر لے جاتا ھے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــ
پچھلے سال چھٹی پر پاکستان گیا تو ندیم سے اس کی دکان پرملنے گیا۔

باتوں باتوں میں ندیم نے ایک فراڈ گزیدہ بھائی صاحب کے بارےبتایا اور درخواست کی کہ چونکہ  سٹاک ایکسچینج   سے تیرا کچھ لنک ہے تو اس آدمی کو تھوڑی بہت جھوٹی سچی تسّلی دےکیونکہ بہت  ہی زیادہ پریشان ھے۔بھائی صاحب کو بلایا اور کہانی سنی تو معلوم ہوا کہ حجام ھیں۔

سٹاک ماسٹر سیکیوریٹیز نامی  ایک سٹاک بروکر کمپنی نے میاں چنوں جیسے چھوٹے سےشہر میں اپنی برانچ کھولی تواس کے  زریعے اپنی تمام بچت تقریباً ساڑھےچھ لاکھ روپے  بینک سے نکال کر اس امید پرسٹاک مارکیٹ میں لگا دی کہ بینک میں پیسے پڑے رھنے سے بہتر ھے کہ کچھ منافع ھی آتارھے گا۔چھ سات ماہ  ٹریڈنگ کی ۔ کبھی منافع ھوا ۔کبھی نقصان۔ لیکن کلی بنیاد پر رقم آھستہ آھستہ بڑھ ہی رھی تھی۔

آھستہ آھستہ عجیب مسئلے ھونے لگ گئے۔

مثلاً جس دن سٹاک مارکیٹ چڑھ رھی ھوتی تو پتا لگتا کہ سسٹم میں خرابی  کی وجہ سے  آج کوئی سودا خریدایا بیچا نہیں جا سکے گا۔ یا جس قیمت پر شیئر خریدو فروخت ھوتا، ماہانہ اسٹیٹمنٹ میں اس سے مختلف قیمت ھوتی۔ یا اگر کوئی اپنے شئیرز کو سرٹیفیکیٹ کی شکل میں منگوانا چاھتا تو دفتر والے خوامخواہ سٹاک مارکیٹ چڑھنے  اترنے کی شکل میں پھنس  جانے کا ڈر ڈال کر ارادہ ہی ملتوی کروا ڈالتے۔ وغیرہ وغیرہ۔

پھر ایک دن دفتر ہی بند ملا۔عوام باھر اکٹھے ھونا شروع ھوئے۔  سٹاک بروکر کے ھیڈ آفس فون کھڑکائے گئے تونو  رسپانس۔ آخر  شام تک ھر طرف رونا پیٹنا مچ گیا۔ کچھ لوگوںنے  لاھور سٹاک ایکسچینج سے رابطہ کر کےدہائی دی تو پتہ چلا کہ فراڈ ھو گیا ھے۔ 

تھوڑے اور عرصے بعد پتہ چلا کہ ان متاثرین کے نام سے لاھور سٹاک ایکسچینج کے کھاتہ سسٹم میں یا تو کوئی اکاونٹ  ھے ہی نہیں یا پھرشیئرز کا  کافی شدید فرق ھے۔ یعنی ھر چیز ھوائی تھی۔  اور یہ سارے صاحبان ھوا میں ہی شئیرز کی ٹریڈنگ کر رھے تھے ۔

یہاں تک سنانے کے بعد صاحب   بھرائی ھوئی آواز میں بولےکہ یہ بہن کی شادی کے لیے رکھے پیسے تھے جو راکھ ھو گئے اور اب ملنے کی کوئی امیدنہیں۔میں نے تھوڑی اور پُچھ پڑیت کی تو معلوم ھوا کہ ندیم نے بھی تین لاکھ گنوائے ھیں۔شرمندہ شرمندہ  کہنے لگا کہ بس کیا بتاوں۔لالچ میں پڑ گیا۔ میرے تو صرف تین لاکھ گئے ھیں، ادھرمین بازار میں  تو لوگوں کی پوری پوری عمر کی کمائی اجڑگئی  ھے۔ 

تھوڑی ہی دیر میں معلوم ھوا کہ شہر کے بیشتر دکان داروں نے اس فراڈ سے فیض حاصل کیا ھے۔  اور اب ھر دوسرے تیسرے دن  پندرہ بیس متاثرین کا ایک جتھا  انتہائی غصیلے انداز میں ھزاروں خرچ کر کے لاھور جاتا ھے اور سٹاک ایکسچینج یا ایف آئی اے جا کر ارباب اختیار  کی داڑھی چھو کراپنے لاکھوں واپس دلوانے کی  دُھائی دے کر آجاتا ھے۔تھوڑے دن بعد پتہ چلا کہ کمپنی والوں نے چھپ چھپا کر ھائی کورٹ میں کمپنی بند کرنے کی درخواست دےماری ھے۔ یعنی کہ جو بھی کمپنی کے بچے کھچے اثاثے ھیں انہیں بیچ کر متاثرین کوھزار، دوھزار دے کر مالکوں کی جاں بخشی کروائی جائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ایک صاحب وارن بفٹ کی وجہ شہرت  ان کا بل گیٹس کے بعد دنیا کا سب سے امیر آدمی ھونا ھے۔  ان صاحب نے اپنی بیشتر دولت کمپنیوں کے شیئرز کی خرید و فروخت سے بنائی ھے۔

انہوں نے بہت کم عمری سے سٹاک مارکیٹ میں کمپنیوں کے شیئر خریدنے شروع کیے اور وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اپنی  کمپنی برک شائر  ھاتھاوے کے ذریعے پوری پوری کمپنیاں خریدناشروع ھو گئے۔ ان کی کمپنی کی ویلیو میں اضافہ کا اس بات سے حساب لگائیں کہ اگرآپ  ان کا شیئر 1967 میں ایک روپے میں خریدکر بھول گئے تھے۔ تو آج  وہی شیئر تقریباًساڑھے تین ھزار تک پہنچ گیا ھے۔ (اس میں اس تمام عرصہ کے دوران ھونے والی پیسے کی ڈی ویلیوایشن یعنی مہنگائی وغیرہ شامل نہیں ھے۔ اگر وہ بھی شامل کریں تو بات لاکھوں تک جا پہنچتی ھے۔ خالص شرح منافع ھر سال اوسطً 22 فیصد رھی۔)

 نوے کی دھائی کےآخر میں جب انٹرنیٹ /کمپیوٹر کمپنیوں پر سٹاک مارکیٹ میں عروج آیا اور تمام  سرمایہ کار ان میں سرمایہ کاری کرنے لگ گئے تووارن بفٹ صاحب الگ تھلگ بیٹھے رھے اور اس سیکٹر میں انہوں نے سرمایہ کاری نہیں کی۔کسی نے پوچھاکہ آپ اتنے تجربہ کار انویسٹر ھیں، تمام لوگ انٹرنیٹ کمپنیوں کی خریدو فروخت  میں دولت میں کھیل رھے ھیں اور آپ سائڈ پر ھو کر اس موقع کو ایویں جانے دے رھے ھیں۔؟؟  وارن جی بولے کہ یار بات یہ ھے کہ میں پراناآدمی ھوں اور انٹر نیٹ کا کاروبار کیا بلا ھے ، یہ بہت کوشش کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آیا۔ میرا اصول ھے کہ جس چیز کی مجھے خود کو اچھی طرح سمجھ نہیں ، میں اس میں پیسے نہیں لگاتا۔ مجھے کوکا کولاکا پتہ ھے کہ لوگ پی کر کمپنی کو پیسے دیتے ھیں، جو کہ نفع نقصان  کی شکل میں میرے پاس آجاتا ھے۔ اب انٹر نیٹ کمپنیاں کیا  بیچتی ھیں اور  پیسے کیسے کماتی ھیں، یہ میرے بوڑھے دماغ میں نہیں گھستا، اس لیے میں اس کام میں پڑتا ھی نہیں۔!!!

2001 میں انہی انٹرنیٹ کمپنیوں کی قیمتیں جو آسمان پر پہنچی ھوئی تھیں ، اچانک بری طرح گرنے کے بعد کچرے کے بھاؤ تک پہنچ گئیں  اور عوام الناس کا ستیا ناس ھو گیا تو استاد وارن بفٹ لگے چھلانگیں مارنے۔ اور ھر کسی کو فرمانے لگے کہ میں نے پہلے ھی کہا تھاکہ اس کام میں مت پڑو، لیکن تم لوگ ٹل ھی نہیں رھے تھے۔ اب بھگتو۔۔۔۔۔ !!!!!

وارن بفٹ کی اس بات کا حوالہ اس لیے دیا کہ اپنے لوگ اکثرایسے کاموں میں پڑجاتے ھیں ، جس کے بارے ان کو کوئی علم نہیں ھوتا۔ لوگوں کو اس بات کا علم بھی نہیں ھوتا کہ یہ کمپنی جس کو وہ سٹاک مارکیٹ میں انویسٹمنٹ کرنے کےلیے پیسے جمع کروا رہے ہیں، سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ھے بھی کہ بس ھوائی کام ہی کرتی ھے۔؟  یا کیا مجھے سٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرنا بھی چاھیئے یا دور سے ہی سلام کروں؟کس قسم کے بروکر کے پاس جاناچاھیئے؟ کراچی میں کام کرنا چاھیئے یا لاھور وغیرہ۔؟ مجھے سٹاک مارکیٹ میں کتناپیسا لگانا چاھیئے؟ بروکروں  کے خفیہ چارجز اور گورنمنٹ کے ٹیکس میکس کیا ھوتے ھیں؟ یا قیمتیں کب  اور کیوں چڑھتی اترتی ھیں؟یا کونسی کمپنیوں میں شیئر خریدنے چاہیئں۔؟ مجھے شیئر فیوچر مارکیٹ میں کام کرنا چاھیئے یا پرے پرے رھناچاھیئے۔؟؟؟  یہ سٹاک بروکر جب دیوالیہ ھوجاتے ھیں (جو کہ اکشر اوقات ھو بھی جاتے ھیں)  تو لوگوں کے پیسے اور شیئرز کا کیا ھوتا ھے؟وغیرہ وغیرہ۔

سن دو ھزار کے بعد شوکت عزیز صاحب نے میڈیا کے ذریعے سٹاک مارکیٹ کی اتنی ایڈورٹائزمنٹ کی کہ دفتروں کےان پڑھ چپڑاسی تک  رقم پکڑ دھکڑ کے   سٹاک مارکیٹ انویسٹر بن گئے۔ (ویسے شوکت کا کوئی قصور نہیں تھا۔ انویسٹمنٹ بینکر تھے اور ساری عمر اسی طرح کسی نہ کسی چیز کو پروموٹ کر کے ہی روزی کمائی۔)

سٹاک ماسٹرسیکیوریٹیز، جس کا اوپر ذکر آیا، خود توغالباً  سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ تھی۔لیکن سن دو ہزارچار پانچ کے بعد اس کمپنی نےکاروباری ترقی کے لیے چھوٹے چھوٹے شہروں میں اپنےایجنٹوں کے ذریعے  برانچز کھولنی شروع کردیں ، جہاں جا کر ھر کوئی رقم جمع کروا کر سٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیلنے لگ گیا۔(ایسی کچھ اور بھی کمپنیاں ھیں جنہوں نے بہت ہی ساری برانچیں کھولیں، نہیں معلومکہ باقی بھی بھاگ گئے یا ابھی قائم ھیں) ۔  اب ان برانچوں کا مائی باپ کون تھا اور کس نے کس بنیاد اور سیکیوریٹی پر ان برانچوںکو کھولنے کی اجازت دی ۔ معلوم نہیں۔ عموماً جو بھی ادارے (مثلاً بینک، کواوپریٹوسوسائٹیاں، مضاربہ، میوچل فنڈ وغیرہ) لوگوں کے پیسے کو ڈیل کرتے یا کسی بھی شکل میں امانتاً رکھتے ھیں ان کو کسی نہ کسی ریگولیٹر مثلاً سنٹرل بینک یا سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن یا سٹاک ایکسچینج وغیرہ سے کام شروع کرنے یا برانچ کھولنے کی اجازت لینی پڑتی ھے (جو کہ ھرایرے غیرے نتھو خیرے کو نہیں ملتی)۔ یا کم از کم اطلاع دینی پڑتی ھے یا کوئی سیکیورٹی یا گارنٹی رکھوانی پڑتی ھے کہ آخر کسی اعتماد پر عوام کا پیسہ جیب میں ڈالنا ھے۔

لیکن اس سب کے برعکس جس رفتار سے یہ سٹاک ایکسچینج بروکر برانچیں کھول رھے تھے، اس سے لگتا ھے کہ یہ سارے ریگولیٹربھنگ پی کر سوئے ھوئے تھے۔ (اور عموماًیہ اسی طرح سوئے ہی رھتے ھیں ، جب تک فراڈ متاثرین ان کو جا کر نہ جھنجھوڑیں۔ تب بھی اٹھ کر کہتے ھیں کہ میاں  ، ھم سے پوچھ کر پیسے دئے تھے ان لوگوں کو؟ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا وغیرہ وغیرہ۔ ان کی اسی نیند کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی بڑے منظم طریقے سے عوام کا پیسہ جیب میں ڈال کر دبئی یا کینیڈا آ کے بیٹھ جاتا ھے۔)

سٹاک مارکیٹ کا کام دیکھنے اور سننے  میں بہت سیدھا سیدھا اور آسان لگتا ھے۔ قیمت گرےتو شئیر خرید لو اور چڑھے تو بیچ ڈالو۔ لیکن اس میں اصل ہنر اس بات کا پتا ھونا ھےکہ کب کسی چیز کی قیمت گرے گی اور کب کسی چیز کی قیمت چڑھے گی۔ اور یہ ہنر بڑے بڑےسٹہ باز بھی عمریں گزارنے کے بعد نہیں سیکھ پاتے اور اکثر غلط اندازے لگا کر اپنی عمر بھر کی کمائی سے ہاتھ اچھی طرح دھو بیٹھتے ھیں۔   

لیکن اس سے بھی بڑھ کرسٹاک مارکیٹ، جوّے کی طرح ایسی چُل اور چَس ھے کہ  جس آدمی کی ساری کمائی لٹ جائے ،  وہ بے غیرت اس کام سے مُڑتا نہیں، بلکہ گھوم گھامکر ادھر ادھر سے ادھار پکڑ کر نقصان پورا کرنے دوبارہ مارکیٹ میں جا بیٹھتا ھے۔اور نوواردوں کو گر بتانے لگ جاتا ھے۔

جواری کی طرح سٹاک مارکیٹ ٹریڈر کبھی نہیں مانتا کہ اس کو کبھی کوئی بڑا نقصان ھوا ھے۔ کسی سےبھی پوچھ لیں، ھمیشہ جواب ملے گا کہ تقریباً برابر میں ہی چھٹ گیا۔لیکن دوسری طرف اگر کسی سودے میں دس روپے کا بھی منافع کمایا ھے، تو چیخ چیخ کر ساری دنیا کوبتائیں گے کہ سٹاک مارکیٹ کی ماں بہن ایک کر آیا ھوں۔ ھے کوئی میرے سے زیادہ سیانا؟؟؟؟  

اسی لیے نووارد آدمی اس قسم کےمبالغہ آمیز بیان اور نامکمل حقیقت  سن کرسوچنے لگتا ھے کہ اگراپنا پیسہ پھینک کر پیسا کھینچنا اتنا آسان ھے تو ایویں کیوں دوسری بکواسوں میں سر پھٹول کروں اور کیوں نہ پیسہ سٹاک مارکیٹ میں لگا کر گھر بیٹھا پیسے کماؤں۔اسی لیے کوئی بھی سیانا  اس کام میں آسانی  سے پھنس جاتا ھے۔

نوٹ: یہ بلاگ  ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب کے کرنسی مارکیٹ والے بلاگ کے جواب میں لکھا تھا، لیکن تمہید باندھتے ہی بات اتنی لمبی ھو گئی، کہ اب سیکنڈ بلڈ اور شائد تھرڈ بلڈ تک بات جائے گی۔ انتطار کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں